پی پی اور بلاول کا نیا کردار…

محسن کاظمی  بدھ 4 جون 2014

پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پی پی پی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد نہ لسانی ہے نہ صوبائی و علاقائی، اس کی بنیاد قومی اور وفاقی ہے۔ 1967میں قیام میں آنے والی واحد سیاسی جماعت ہے جس کا رہنما ایک ایسا شخص تھا جو تعلیم کے ساتھ سیاسی تاریخ کا پروفیسر تھا جس میں پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کی صلاحیت تھی۔ وہ ایک اچھے وکیل اور ماہر لغت انگلش تھے ان کی صلاحیتوں پر یورپ، امریکا، افریقہ اور عرب ممالک کے سربراہان قائل تھے۔

انھوں نے 1970 کے عام انتخابات میں پنجاب سے بھی اکثریت حاصل کی۔ جب کہ 1970کے عام انتخابات میں  بلوچستان اور سرحد میں بلوچ اور پختون وم پرست جماعتوں کی اکثریت تھی جسکی بنیاد صوبائی قومیت تھی یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے بنگالی بنیاد پر ووٹ حاصل کیے۔ پاکستان کے پانچ صوبے تھے ان میں پی پی پی نے دو صوبوں میں اکثریت حاصل کی ایک صوبہ سندھ اور ایک صوبہ پنجاب میں ۔ پاکستان کی وحدانیت وفاق کی مضبوطی کا تقاضہ تھا اقتدار اسی کو دیا جائے جس نے دو صوبوں میں اکثریت حاصل کی اور اس کی بنیاد قوم پرستی یا لسانی نہیں تھی۔ 1971 کی جنگ میں پاکستان کو ون یونٹ ٹوٹنے کے اثرات سے گزرنا پڑا اور سیاسی فیصلہ درست نہ ہونے سے فوج کو مشرقی پاکستان میں داخلی معاملات میں الجھانے سے ہمیں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔

90 ہزار قیدی اور ہمارا مغربی پاکستان کا کچھ علاقہ ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔ عوام کا مورال گر چکا تھا۔ دنیا کی مضبوط ترین فوج اس سازش کا شکار ہونے کی وجہ سے شکست  سے دوچار ہو گئی تھی مگر اس وقت بعض جرنیلوں نے بڑی دانشمندی سے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا۔ جنہوں نے نہ صرف پختونستان اور گریٹر بلوچستان اور سندھو دیش کے نام پر چلنے والی تحریک کو بے اثر بنایا بلکہ ہندوستان سے نوے ہزار فوجی رہا اور مقبوضہ علاقے خالی کروائے اور ہندوستان سے مسئلہ کشمیر پر معاہدہ کیا اور پاکستان کو جوہری قوت میں تبدیل کر کے ہماری پاک افواج کو ناقابل تسخیر قوت بنا دیا ۔

بد قسمتی یہ رہی کہ پاکستان کو علیحدہ مملکت کے طور پر تسلیم نہ کرنے والے انتہا پسند مذہبی عناصر اور سندھی، بلوچ اور پختون کی بنیاد پر قومی تحریک چلانے والوں نے پاکستان کی وفاقی قوت کو توڑنے میں بڑا اہم رول ادا کیا، جس کا سب سے زیادہ فائدہ اسوقت کے امریکی صدر کارٹر نے اٹھایا جنھیں پاکستان کے جوہری قوت بننے پر بڑا صدمہ تھا کیونکہ ان کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ دنیا میں کسی مسلم ملک کو ، مسلم قوم کو کبھی بڑی طاقت بننے نہیں دینا ہے۔

اسی لیے امریکا  نے کبھی ہندو کے جوہری قوت بننے اور نہ یہودی کے جوہری قوت بننے اور عیسائی ملکوں اور بدھ مت والوں کے جوہری قوت بننے میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی مگر ذوالفقارعلی بھٹو نے کرنل قذافی، شام کے حافظ الاسد اور سعودی عرب کے شاہ فیصل جیسے مدبر رہنمائوں کی مدد سے پاکستان کو بڑے خفیہ طریقہ سے جوہری قوت بنانے میں جو کامیابی حاصل کی اس نے امریکی صدر کو اتنا طیش دلایا کہ انھوں نے بھٹو اور ان کے خاندان کے صفایا کرنے کا سرعام عندیہ دیا۔ اسی سامراج کی آشیرباد پر 5 جولائی 1977 کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء لگایا جب کہ  بھٹو کے خلاف چلنے والی پی این اے کی تحریک میں امریکی ڈالروں کی امداد کام آئی۔

تمام سیاسی قوم پرست رہنما جن میں نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ ولی خان اور تحریک استقلال کے سربراہ ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان اور سندھ کے پیر پگاڑا نے بھٹو کے خلاف تحریک چلا کر پاکستان میں مارشل لاء کے اسباب پیدا کیے جب کہ تحریک کے اسباب اور پی این اے کی ڈیمانڈ کے 32 میں سے 31 نکات پر معاملات طے ہو چکے تھے۔

یہ مارشل لاء صرف اس لیے لگا کہ غیر مسلم قوتیں امریکا، برطانیہ اور فرانس اس بات پر متحد تھیں کہ مسلمانوں میں ایسی قیادت پیدا نہ ہونے دی جائے جو ان کے مد مقابل ہو اور جب بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس کا کامیاب ترین انعقاد کیا اور عربوں کو پاکستان کی فوجی صلاحیتوں کا اعتراف کروایا تو ایک نعرہ دیا کہ اب دنیا میں مسلمان ایک تیسری قوتTHIRLD WORLD کے طور پر سامنے آ چکی ہے تو اس دن سے پاکستان کے سالمیت کے خلاف امریکا نے بہت کام کیا پہلے پاکستان کو سیاسی طور پر یتیم کیا،  بھٹو کے خاندان کو مروایا، بھٹو کو جوڈیشری کے ذریعے اور بینظیر بھٹو کو انتہا پسندوں کے ذریعے قتل کروایا۔ مرتضیٰ اور شاہنواز ہلاک کیے گئے۔ وہ اب بھی سب سے زیادہ اسی جماعت کو نقصان پہنچائے گا جو پاکستان میں سیاسی آزادی، بیوروکریسی پر قابو پانے کے لیے کامیاب جدوجہد کرے گی ۔

موجودہ وزیر اعظم نے اپنے گزشتہ حکمرانی کے دور سے بہت سبق حاصل کیا ہے۔ وہ بھٹو کے انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ دو باتوں پر توجہ دے رہے ہیں ایک ملک میں معاشی اور اقتصادی نظام کو درست کرنا چاہتے ہیں، انرجی کے کمی کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ امن عامہ پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں، اور ابھی تک کوئی سیاسی دبائو قبول نہیں کیا۔ اسی لیے ہمیں یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ شاید نواز شریف کو بھی مدت پوری نہیں کرنے دی جائے گی۔ بلاشبہ جو قومی سیاست کے بجائے علاقائی اور لسانی سیاست کر رہے ہیں انھیں قومی دھارے میں آنے سے کچھ سیاسی نقصان یہ ہو گا کہ ان کے ووٹ بینک کم ہو جائیں گے مگر مستقبل کے پاکستان کے حق میں قومی سیاست ہی اس ملک کی ترقی کا راز ہے۔

بھٹو کی صحیح جانشین بے نظیر ہی تھیں جنہوں نے سیاسی رکاوٹوں میں آگ کے دریا عبور کیے وہ اپنے باپ کے مشن پر گامزن تھیں اور اپنے والد کے مقام تک پہنچ چکی تھیں شاید اسی لیے انھیں قتل کر کے پاکستانی قوم کو سیاسی یتیم بنا دیا گیا۔ ان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارٹی کی اصل قوت چیف ایگزیکٹو کمیٹی کو دے دی جاتی اور پارٹی میں سیاسی اصول ذوالفقارعلی بھٹو ہی کے رکھے جاتے سب سے زیادہ توجہ پاکستان کے 62 فیصد آبادی والے صوبے پر دینی چاہیے تھی۔ آصف علی زرداری صرف پارٹی کے چیئر پرسن رہتے یا پھر پاکستان کے صدر رہتے تو حال ہی میں ہونیوالے انتخابات میں پی پی پی کو پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں ایسی شکست کا سامنا نہ ہوتا۔

اب بے نظیر کے صاحبزادے بلاول بھٹو جوان ہو رہے ہیں ان کو پی پی پی کا چیئر مین بنا دیا گیا ہے۔ سیاست میں آنے کے لیے انھیں بہت زیادہ سیاسی مطالعے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے وہ اپنی پارٹی کے تمام صوبوں کے اہم رہنمائوں پر مشتمل ایک مشاورتی کونسل بنائیں۔ تمام اقدامات ان کے مشورے اور رضامندی سے کریں۔ پارٹی کے نوجوانوں کو عوام کے قریب لائیں ہر علاقے میں وارڈ آفس بحال کریں۔ عوامی معاملات پر بھر پور توجہ دیں ۔ کرپشن کرنیوالوں پر نگاہ رکھیں اور اللہ نے اس پارٹی کو یہ موقع دیا ہے کہ سندھ کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے اس صوبے میں انقلابی ترقیاتی کام کریں اور سندھ کے معاملات میں پی پی پی کے 70 فیصد ورکرز و رہنمائوں کا تعلق ان سے ہو جن کی مادری زبان سندھی نہیں ہے۔

میرا مقصد شہری علاقوں سے ہے صرف سندھ میں دو بڑی قومیں آباد ہیں ایک قدیم سندھی اور دوسرے جدید سندھی جو مہاجروں کی اولاد  ہیں۔ پارٹی میں یہ تاثر ختم ہو کہ پی پی پی صرف اندرون سندھ کی پارٹی ہے ، پی پی پی کے پاس پروفیسر این ڈی خان، تاج حیدر ، رضا ربانی، شہلا رضا جیسی شخصیات ہیں اور آپ کے اس اقدام سے شہر کراچی اور حیدرآباد سے غیر سندھی بولنے والے بہت سے تعلیم یافتہ، معزز شخصیات، علمی و ادبی شخصیات اس جماعت میں آنے کے لیے تیار ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو صرف پاکستان کو وفاقی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں جو سیاست میں نہ فرقہ پرستی کے قائل ہیں نہ لسانی سیاست نہ علاقائی سیاست کے ۔ اگر پی پی پی ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں دعوت دے تو یہ پی پی پی پھر ایک بار ذوالفقارعلی بھٹو کی جماعت بن سکتی ہے۔ یہ کام اب بلاول بھٹو کا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔