تھر کے لوک گیت دلوں کو چُھو لیتے ہیں، مائی بھاگی کا مداح ہوں، آغا نور محمد پٹھان

اقبال خورشید  جمعرات 5 جون 2014
اکادمی ادبیات، سندھ کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، آغا نور محمد پٹھان کے شب و روز۔  فوٹو : فائل

اکادمی ادبیات، سندھ کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، آغا نور محمد پٹھان کے شب و روز۔ فوٹو : فائل

احمد شاہ ابدالی کے زمانے میں سندھ کا رخ کرنے والے اُن کے اجداد کا تعلق قندھار سے تھا۔

جب شکار پور کو مسکن بنایا، تو سندھی زبان بھی اپنالی۔ اُن دنوں یہ شہر ایران اور وسطی ایشیا سے آنے والے قافلوں کا مرکزی پڑاؤ تھا۔ مایہ ناز شاعر، شیخ ایاز کی پرورش کرنے والا شکارپور کسی زمانے میں ’’پیرس آف سندھ‘‘ کہلاتا تھا۔ شہر کیا تھا، فن تعمیرات کا حسین نمونہ تھا۔ آٹھ دروازوں والا قلعہ! قلعے کے گرد بچھی سڑک، وہاں سے گزرتی چار نہریں، نہروں سے ملحقہ تیراکی کے تالاب، سڑکیں دھونے کا باقاعدہ انتظام!

15 اپریل 1955 کو آنکھ کھولنے والے آغا نور محمد پٹھان کے بہ قول؛ جس زمانے میں کراچی کی آبادی سوا دو لاکھ تھی، اس زمانے میں شکارپور میں سوا تین لاکھ افراد بستے تھے۔ بدقسمتی سے وہ ’’پیرس‘‘ نہیں دیکھ سکے، مگر اُس کی باقیات ضرور دیکھ لیں۔ نو منزلہ عمارت کیسی ہوتی ہے، یہ جاننے کے لیے بیرون شہر نہیں جانا پڑا۔ شکارپور کے علاقے لکھی در کا رخ کرنا کافی تھا۔ قلعے کے چند دروازے سلامت تھے۔ نہروں سے ملحقہ سوئمنگ پول موجود تھے۔ خواتین کے لیے وہاں الگ انتظام ہوا کرتا تھا۔

شعور کی دہلیزشکارپور میں عبور کی، البتہ گذشتہ 30 برس سے کراچی میں مقیم ہیں۔ 88-89 میں جب اکادمی ادبیات کی صوبائی شاخ کھلی، تب سے اِدھر ہی ہیں۔ 18 برس سے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کا منصب سنبھال رکھا ہے۔ اوائل میں دفتر کلفٹن  کے علاقے میں تھا۔ جگہیں تبدیل ہوتی رہیں۔ 2010 سے لیاقت میموریل لائبریری کے احاطے میں اکادمی کا دفتر ہے۔ یہاں 99 ادیبوں سے موسوم شیلف میں اُن کی تخلیقات یک جا کر دی گئی ہیں۔ ہر ادیب کی کم از کم 10 کتابیں مل جائیں گی آپ کو یہاں۔

خود اکادمی نے جو 400 کتابیں شایع کیں، وہ بھی دست یاب ہیں۔ ممتاز ادیب اور محققین کے ’’رائٹرز کارنر‘‘ بنا رکھے ہیں۔ سندھی اور اردو ادب کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والے پروفیسر آفاق صدیقی کا خاصا کام یہاں موجود ہے۔ اِسی طرح پروفیسر ایاز قادری اور محمد عثمان ڈیپلائی کے کارنرز ہیں۔ ایک چھت تلے موجود یہ کُتب محققین اور قارئین، دونوں ہی کو کچھ راحت فراہم کرتی ہیں۔

ممبر شپ کا سلسلہ یوں اہم ہے کہ یہ سہولت کسی اور صوبائی شاخ میں نہیں۔ ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اِس کی داغ بیل ڈالی۔ ممبروں کی تعداد ہزار کے قریب ہے، جس کی کوئی فیس نہیں۔ ارکان کو نئی کتابوں کی آمد سے آگاہ رکھا جاتا ہے۔ خاصی رعایت دی جاتی ہے۔ 2010 میں آغا صاحب کی کوششوں سے اکادمی ادبیات، سندھ کی ویب سائٹ کا اجرا ہوا۔

اکادمی ہے تو ادبی ادارہ، مگر گذشتہ کچھ عرصے میں بیوروکریٹس اس کا انتظام سنبھالتے رہے۔ اِس بابت پوچھا، تو کہنے لگے:’’دنیا بھر میں اکیڈمی آف لیٹرز کی طرز پر تنظیمیں ہیں جیسے انڈیا میں ساہتیہ اکیڈمی ہے۔ ہمارے ہاں اکادمی سرکاری ادارے کے طور پر کام کر رہی ہے۔ انڈیا میں حکومت گرانٹ تو دیتی ہے، مگر وہاں انتخابات ہوتے ہیں۔

سربراہ منتخب کیا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں نام زد ہوتا ہے۔ ماضی میں یہ اچھی روایت رہی کہ شفیق الرحمان، پری شان خٹک، احمد فراز، فخر زمان ، غلام ربانی آگرو، نذیر ناجی اور افتخار عارف جیسے ادیب اور شعرا کو چیئرمین کا منصب سونپا گیا۔ اب گذشتہ کچھ عرصے سے بیوروکریٹس کے پاس یہ عہدہ ہے۔ بیوروکریٹس اچھے منتظم تو ہوسکتے ہیں، مگر ادیبوں کو پہچاننے، ادب کو پرکھنے کی صلاحیت اُن میں نہیں ہوتی۔‘‘

کچھ ہفتے قبل وہ اسلام آباد میں تھے۔ اُن دنوں خبر گردش کررہی تھی کہ وہ ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔ جب پوچھا تو کہنے لگے:’’اس وقت عبدالحمید صاحب چیئرمین تھے۔ وہ میری کارکردگی سے مطمئن تھے، سو مجھے اسلام آباد بلوالیا۔ وہاں میں ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ فنانس تھا۔ ڈائریکٹر جنرل کی سیٹ خالی تھی۔ چیئرمین صاحب نے اِس عہدے کا تذکرہ کیا تھا، مگر پھر وہ چلے گئے۔ ہم بھی واپس آگئے۔ اِس وقت بھی چیئرمین اور ڈی جی، دونوں کا عہدہ خالی ہے۔ ڈپٹی سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کی سطح کے افسران کے پاس چارج ہے۔‘‘

اکادمی کے مستقبل سے مایوس نہیں، مگر شکایت ہے کہ ادب اور فروغ ادب کے لیے کام کرنے والے ادارے اب حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اکادمی کی صوبائی شاخوں کو الگ گرانٹ نہیں ملتی۔ وفاق سے مرکز کو جو گرانٹ ملتی ہے، اُسی میں حصہ ہوتا ہے۔ ’’معیشت اور دیگر شعبوں کی بحالی پر تو توجہ دی جارہی ہے، مگر ادب کو درخورا عتناء نہیں جانا جاتا۔ سبب یہ ہے کہ ادبی اداروں سے حکومت کو مالی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ کماؤ پوت نہیں، اِس لیے ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔‘‘

اکادمی کے دفتر میں تواتر سے ادبی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ان کے بہ قول، سلسلہ یہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ مرکز کی ہدایت کے مطابق کیلینڈر بنا رکھا ہے۔ اکابرین ادب؛ مثلاً شاہ لطیف، سچل سرمست، شیخ ایاز اور فیض احمد فیض کی برسی یا یوم ولادت کے موقع پر تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اگر کوئی ادیب اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کی درخواست کرے تو اُس کی معاونت کرتے ہیں۔ اسپیکر، ہال، میڈیا کوریج،  اِن کا اہتمام اکادمی کے ذمے، صاحبِ کتاب کو فقط ’’ری فریشمنٹ‘‘ پر اٹھنے والی رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ تیسرا سلسلہ یہ ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے ادیبوں کے وفود کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

یہاں کچھ دیر ٹھہر کر کیوں نہ اُن کی ذاتی زندگی میں جھانک لیں:

والد، آغا دوست محمد! حافظ قرآن۔ عربی اور فارسی کے عالم۔ اُن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد مقامی آبادی کو جاہل ٹھہرایا۔ یہ رویہ متعصبانہ تھا۔ بلاشبہہ ہم انگریزی سے نابلد تھے، مگر عربی اور فارسی پڑھنے کا رواج برسوں سے تھا۔‘‘

زرعی اراضی گزر بسر کا ذریعہ۔ چھے بہن بھائیوں میں وہ دوسرے۔ بچپن میں نہ تو شرارتی تھے، نہ ہی کم گو۔ توجہ پڑھائی پر مرکوز رہی۔ شکارپور میں کرکٹ اور والی بال کا رواج تھا، مگر اُن کی دل چسپی بیڈمنٹن میں تھی۔ طالب علم قابل تھے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول، شکارپور سے 70ء میں میٹرک کیا۔ شہر میں جن چھے طلبا نے فرسٹ کلاس میں امتحان پاس کیا، اُن میں سے ایک۔ بعد کے سارے امتحانات بھی فرسٹ کلاس میں پاس کیے۔ انجینئر بننے کا ارادہ تھا، جس نے ہاسٹل کی زندگی کی سمت دھکیلا۔ انجینئرنگ کالج، نواب شاہ میں چھے ماہ گزرے، مگر پھر مزاج میں تبدیلی آئی۔ اکنامکس پڑھنے کی خواہش جام شورو لے آئی۔

سندھ یونیورسٹی سے 79ء میں ماسٹرزکیا۔ بعد میں اسلامک کلچر اور پاکستان اسٹڈیز میں بھی ایم اے کی اسناد حاصل کیں۔ اکنامکس یوں پڑھی کہ معاشی بدحالی کو ملک کا بنیادی مسئلہ گردانتے تھے،  البتہ دوسرے ماسٹر کا معاملہ مختلف تھا۔ بتاتے ہیں:’’سندھ یونیورسٹی ایک زاویے سے دیگر جامعات سے بالکل الگ تھی۔ علامہ اقبال کے ہم عصر، آئی آئی قاضی نے اِس کی بنیادی ڈالی۔ وہاں اُس زمانے میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان جیسی قدر آور شخصیت موجود تھی۔ باقی ہر جامعہ میں اسلامیات پڑھائی جاتی تھی، جب کہ وہاں اسلامی کلچر پڑھایا جاتا تھا۔ اِسی وجہ سے مجھے دل چسپی پیدا ہوئی۔‘‘

طلبا سیاست اُس زمانے میں عروج پر تھی۔ وہ اور ان کے ہم خیال سیاست دانوں سے نالاں تھے۔ دائیں اور بائیں بازو کے اختلافات سے تنگ آکر ’’ایجوکیشنل پروگریسو گروپ ‘‘ بنایا، جس کا نعرہ تھا: ’’سیاست چھوڑو، پڑھائی کرو!‘‘ مہران یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل کالج، نواب شاہ انجینئرنگ کالج کے یونین انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ مخالفین نے اُن کے خلاف متحدہ محاذ بنالیا۔ اِدھر پیر پگارا کے مریدوں ، غیر جانب دار اور غیرملکی طلبا نے اُن کا ساتھ دیا۔ اچھے خاصے ووٹ پڑے۔ مہران یونیورسٹی میں صدر کے عہدے پر اُن کے امیدوار نے کام یابی حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی تک اُس گروہ کا حصہ رہے۔

پیشہ ورانہ سفر کا آغاز زمانہ ٔطالب علمی ہی میں ہوگیا تھا۔ 76ء میں ڈھائی ہزار روپے ماہ وار پر’’ انسٹی ٹیوٹ آف سوشو کلچرل اسٹڈیز، حیدرآباد‘‘ نامی نجی ادارے سے بہ طور ریسرچ ڈائریکٹر منسلک ہوگئے۔ 81ء میں کراچی سے نکلنے والے ایک انگریزی پرچے ’’یونیورسل میسیج‘‘ سے جڑ گئے۔ وہاں 88ء تک ایسوسی ایٹ ایڈیٹر رہے۔ پھر رابطہ افسر کی حیثیت سے اکادمی ادبیات کا حصہ بنے۔ اُسی برس سندھ میں اکادمی کا صوبائی دفتر قائم ہوا تھا۔ 95ء تک وہ رابطہ افسر رہے۔

پھر ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ہوگئے۔  مطالعے کی لت بچپن میں لگی۔ فکشن دل چسپی کا محور رہا۔ قلم تھاما تو کہانی بیان کی۔ سندھی میں لکھے افسانے ادبی جرائد اور اخبارت میں چھپتے رہے۔ سندھی سے اردو میں خاصی کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ افسانوں کی تعداد 25 کے قریب، ترجمہ کردہ افسانوں کی تعداد لگ بھگ 50، دونوں ہی کو کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے۔

شکارپور کے زمانے میں ’’شاگرد‘‘ کے نام سے ایک سندھی ادبی جریدہ نکالا تھا۔ وہ پرچہ خاصا مقبول ہوا۔ دس برس اُس کے ایڈیٹر رہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ’’کینجھر‘‘ کے نام سے جریدہ شروع کیا۔ دو برس اُس کی ذمے داری سنبھالی۔ بچوں کے سندھی پرچے ’’ساتھی‘‘ کے سرپرست رہے۔ سندھی ڈائجسٹ، حیدرآباد سے تعلق رہا۔ ماہ نامہ ’’رابطہ‘‘ میں سندھ کے شہروں سے متعلق فیچر لکھے۔

بعد کے برسوں میں فکشن نگاری پیچھے رہ گئی۔ دیگر اصناف پر توجہ مرکوز رہی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒکے پردادا، شاہ عبدالکریم کی مشہورزمانہ کتاب ’’بیان العارفین‘‘ کو اردو روپ دینا ایک خوش گوار تجربہ رہا۔ اُن کے بہ قول، شاہ عبدالکریم سندھی میں تصوف کے موضوع کو جامع انداز میں قلم بند کرنے والے پہلے آدمی تھے۔ یہ کتاب  2010 میں شایع ہوئی۔ ڈھائی ہزار ادیبوں کے کوائف پر مشتمل’’ سندھ رائٹرز ڈائریکٹری ‘‘ مرتب کی۔ اسی مانند ’’سندھی لوک ادب ڈائریکٹری‘‘ بھی تیار کی۔ ایک کتاب ’’تذکرہ شعرائے ٹھٹھہ‘‘ دوسری ’’تھر کا منظرنامہ‘‘ کے زیرعنوان شایع ہوئی۔ “Save Thar” کے زیرعنوان ایک کتاب انگریزی میں بھی لکھی۔ عربی میں تحریر کردہ سیرت کی معروف کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ (از صفی الرحمان مبارک پوری) کا اردو متن سامنے رکھ کر اُسے سندھی روپ دیا۔

اُن کی کہانی میں ایک نامکمل مقالے کا بھی تذکرہ آتا ہے۔ 80 کی دہائی میں خاصا وقت ریسرچ میں گزرا۔ تھے تو پروفیسر ڈاکٹر طاہر امین کے اسسٹنٹ، مگر باقاعدہ ایک موضوع چنا۔ جم کر تحقیق کی۔ ’’پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل: خصوصی حوالہ سندھ‘‘ اُن کا موضوع تھا۔ اسے پی ایچ ڈی تھیسس کی شکل دینے کا ارادہ تھا،خواہش تھی کہ قائد اعظم یونیورسٹی سے بہ طور ریسرچ فیلو منسلک ہوجائیں، مگر اکادمی سے جڑنے کے بعد یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ ہاں،اس ضمن میں لکھے تحقیقی مضامین تواتر سے اخبارات میں شایع ہوتے رہے۔

اس نامکمل مقالے سے متعلق پوچھا، تو کہنے لگے:’’میں نے اس بات پر بحث کی کہ سندھ وسائل سے مالامال ہے، اس کے باوجود لاکھوں انسان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال بدین ہے جہاں سے وافر مقدار میں تیل نکل رہا ہے، مگر مقامی آبادی کی حالت خستہ ہے۔ یہی معاملہ شعبۂ تعلیم کا ہے۔کسی زمانے میں لوگ فخر سے ذکر کیا کرتے تھے کہ وہ سندھ کے پڑھے ہوئے ہیں، مگرآج یہاں سے ماسٹرز کرنے والا ایک درخواست نہیں لکھ سکتا۔ محمد خان جونیجو کے زمانے میں ہر یونین کونسل میں ایک اسکول قائم کیا گیا۔ یہ بڑی کام یابی تھی، مگر ان کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی۔ اس وقت بھرتی ہوئے اساتذہ آج گھر بیٹھے تن خواہ لے رہے ہیں، اور اسکولوں میں مویشی بندھے  ہیں۔‘‘

آغا صاحب ڈھائی عشروںسے اکادمی کا حصہ ہیں۔ اس عرصے میں کئی چیئرمین آئے، کسے سب سے بہتر پایا؟ اِس سوال کے جواب میں پہلے بے نظیر بھٹو کے اولین دور میں چارج سنبھالنے والے احمد فراز کا تذکرہ کرتے ہیں۔ میاں صاحب کے زمانے میں جب نذیر ناجی آئے،  اُن کے مطابق صوبائی مراکز کو خصوصی توجہ دی گئی۔ فخر زمان کے پہلے دور کو بھی سراہتے ہیں۔

ایک جانب جہاں اکادمی کی شایع کردہ کتب کی ستایش ہوتی ہے، وہیں کچھ حلقے معیار اور انتخاب کے معاملے میں شکایت بھی کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں: ’’اچھی اور بری باتیں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ مجموعی نتائج پر نظر رکھنی چاہیے۔ میرے نزدیک خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے۔ ہاں، خامیاں بھی ہیں، اور ہم ان پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔‘‘

کتابیں اُن کے بہ قول، مرکز کی پبلی کیشن کمیٹی کی سفارشات پر شایع ہوتی ہیں۔ اس میں صوبائی شاخوں کا کوئی کردار نہیں۔ یہاں سے سفارشات بھیجی جاتی ہیں، مگر غور ان پر کم ہی ہوتا ہے۔ خواہش مند ہیں کہ صوبائی سطح پر پبلی کیشن کمیٹیاں بنائی جائیں، تاکہ اپنی منشا اور علاقائی تقاضوں کے مطابق کتابیں شایع کر سکیں۔

تخلیقی سرگرمیاں اُنھیں مسرت سے بھر دیتی ہیں، مگر ایک معاملہ اور ہے، جس کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں:’’اکادمی کی ایک ذمے داری بیمار ادیبوں کی عیادت کرنا بھی ہے۔ باثروت ادیبوں کو تو فقط گل دستہ پہنچادیا جاتا ہے، مگر مستحق قلم کاروں کی بیماری کے دنوں میں مالی امداد بھی کی جاتی ہے۔  جب ہماری اس کوشش کے نتیجے میں اُن کے چہروں پر خوشی ظاہر ہوتی ہے تو مجھے دلی سکون ملتا ہے۔‘‘

یوں تو کوئی خاص دُکھ نہیں، البتہ ایک بات کا قلق ہے:’’فخر زماں کے دور میں پاکستانی ادب کی تاریخ مرتب کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ مجھے بھی ذمے داری سونپی گئی۔ میں نے آٹھ جلدوں میں سندھی ادب کی تاریخ مرتب کروائی، مگر وہ اب تک شایع نہیں ہوسکی ہے۔‘‘

شلوار قمیصمیں خود کو آرام دہ پانے والے آغا نور محمد پٹھان سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دال چاول سے رغبت ہے۔ تھر کے لوک گیت، ان کے مطابق دلوں کو چھو لیتے ہیں۔ مائی بھاگی کے مداح ہیں۔ لہری کی فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ’’زرقا‘‘ پسندیدہ فلم ہے۔ سندھی شعرا میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، مخدوم طالب المولیٰ اور شیخ ایاز کا نام لیتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں امرجلیل اور ناول نویسی میں آغا سلیم کو سراہتے ہیں۔ منیر نیازی اور احمد فراز پسندیدہ اردو شعرا ہیں۔ اردو افسانہ نگاروں میں غلام عباس پسند ہیں۔

83ء میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹی بھی ہے ۔بیٹی میں بھی ادبی ذوق منتقل ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔