انڈیا کبھی میرا وطن نہیں رہا، ستیہ پال آنند

انوار فطرت  جمعرات 5 جون 2014
جدید نظم میں رن آن لائین کی طرح ڈالنے والے، کہانی کار، ناول نگار، نقاد، محقق، ماہرِتعلیم ستیہ پال آنند سے ایک طویل ملاقات۔ فوٹو : ایکسپریس

جدید نظم میں رن آن لائین کی طرح ڈالنے والے، کہانی کار، ناول نگار، نقاد، محقق، ماہرِتعلیم ستیہ پال آنند سے ایک طویل ملاقات۔ فوٹو : ایکسپریس

یاں چار دن ترشی کے آن پڑیں تو کئی کئی روز چہرے سے کڑواہٹ نہیں اترتی اور ایک آپ ہیں کہ چوراسیویں برس میں آلیے اور رخ پر ایک شریر معصومیت ہے کہ ہٹنے کا نام نہیں لیتی حال آں کہ کار جہاں اور عشقِ زیاں کے درمیاں کشٹ ہی کاٹا کیے ہیں۔

سبک دوشی کے خوگر کبھی رہے نہیں، سو اب بھی اپنے کو گراں دوش رکھنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ انگشت شہادت جب وجع المفاصل کی گواہی دینے لگ گئی کہ بڑے میاں اب مجھ سے قلم نہیں گھسٹتا تو کمپیوٹر سے سازباز کرلی اور اب، جب تلک چھے سات گھنٹے اسے رگید نہ ڈالیں، قرار نہیں پاتے، یہ ہیں اپنے ستیہ پال آنند جی۔

ہاں، ہاں وہی، جدید اردو نظم میں رن آن لائن (Run on line) کی طرح ڈالنے والے آنند جی۔ نظم، افسانہ، ناول، کالم، تنقید، تحقیق، (حتیٰ کہ) غزل؛ ادب کی کوئی تو ایسی صنف ہو، جس پر ان کا یدِطولیٰ پِھر نہ گیاہو، تعلیمی نصاب الگ مرتب کیے، اظہار کے لیے کیا اردو کیا انگریزی، کیا ہندی کیا پنجابی، جس طرف کو سوچ کی زباں لڑھکی، روکی نہیں۔ کالوں گوروں کو انگریزیاں پڑھائیں، عربی، فارسی، فرانسیسی، پشتو، ہندی ، سنس کرت آتی ہے، اپنی اصل تک پہنچنے کے لیے پالی بھی سیکھنا پڑی تو سیکھی، دیوناگری، گرومکھی اور شاہ مکھی یک ساں مہارت سے لکھتے ہیں۔

ضلع چکوال کی تحصیل تلہ گنگ کے قصبے کوٹ سارنگ میں پیدا ہوئے۔ بڑے فخر سے بتاتے ہیں ’’پنجابی بولنے والا نیم پختون دیہاتی بچہ ہوں‘‘۔ پیدا ہوئے 1931 میں 23 اور 24 اپریل کی درمیانی شب؛ اس پر بھی فخر کہ میں کچھ ہوں یا نہیں، اس تاریخ کو شیکسپیئر اور لگ بھگ نصف صد شہرہ آفاق شاعر، موسیقار، مصور اور سائنس دان پیدا ہوئے ہیں۔

پڑھنا لکھنا اس خاندان کا معمول سا تھا سو یہ جب زبان اور چال کی تُتلاہٹ سے کچھ آگے آئے تو قصبے کے اسکول میں داخل کرائے گئے، باقی تو سب ٹھیک تھا پر حساب سے بدکتے تھے،جس پر استاد منشی رستم خان نے فتویٰ صادر کیا کہ غبی الذہن ہے، بڑوں کا نام ڈَوبے گا۔ کہتے ہیں پانچویں نہ جانے کیسے پاس کر لی۔

والد صاحب نوشہرہ چھاؤنی میں ہوتے تھے، پڑھانا مقصود تھا ان کو اور بوریا بستر بندھوادیا گھر بھر کا، نوشہرہ لے گئے اور سناتن دھرم اسکول میں ڈال دیا، برس بھر پڑھ نہ پائے ہوں گے کہ اٹھائے گئے اور 1945 میں راول پنڈی کے فوارہ چوک والے مشن ہائی اسکول میں لائے گئے، قریی محلے موہن پورے میں ذاتی گھر نیانیا تعمیر ہوا تھا، رہائش وہاں کرلی۔

یہاں کچھ ڈھیل ملی تو تیرتھ رام فیروز پوری کے جاسوسی ناول، لطف شباب، مست قلندر اور مستانہ جوگی جیسے رسالے پڑھنے لگے، شعر گوئی بھی آغاز کی۔ شاعری کی سند تو تبھی پالی تھی جب ابھی پانچ برس کے تھے۔ ایک واقعہ سن لیجے۔ یہ کچھ دبُو سے بچے رہے ہوں گے، ایک بار آنگن میں ڈنڈا گھما کے جوگلی کے دیا تو چرخا کاتتی دادی ماں زد پر آتے آتے بچیں، ڈانٹ پڑی کہ باہر جاکر کھیلو، اب آپ جو باہر جھانکے تو دیکھا کہ ایک طرف ’’ڈبّا‘‘ کھڑا ہے اور دوسری طرف کالو، ایک تو دونوں کم بخت ان سے بڑے، اس پر ان سے ایک آدھ پانی پت بھی رچا بیٹھے تھے، ہمت نہ پڑی تو روہانسے ہوکر کچھوے کی طرح سری اندر کرلی، ازدیادِ رنج و غم میں منہ سے بے اختیار نکلا

کتھے ونجاں ڈاڈھیا ربا
اندر کالو، باہر ڈبّا
آگے بجیا بھی طبعِ موزوں رکھتی تھیں،
وا وا او ست پا لیا
توں تاں بیت بنا لیا

پنڈی میں دو برس گزرے، ایک برس پھر نوشہرہ اور آخری دو سال دوبارہ پنڈی۔ فوارہ چوک سے ایک سڑک کمپنی باغ کو نکلتی ہے، گارڈن کالج اسی سڑک پر پڑتا ہے۔ اُن دنوں منشی تلوک چند محروم بھی وہیں پڑھاتے تھے۔ محروم صاحب اور ان کے صاحب زادے جگن ناتھ آزاد کو انہوں نے پہلی بار ڈی اے وی کالج کے ایک مشاعرے میں دیکھا اور سنا تھا۔

یہ منشی صاحب کا شاگرد بننے ان کے کالج گئے تو، لیکن وہ یہ جھنجھٹ پالنے سے کتراتے تھے البتہ اِن کی ایک نظم سن کر مشورہ دیا ’’چھوڑو یہ غزل شزل‘‘ نظم لکھا کرو۔ آنند جی کی روانیٔ طبع کا یہ عالم تھا کہ انسپکشن کے ایک موقع پر استاد نے انہیں ’’عشق اول در دلِ معشوق پیدا می شود‘‘ پر گرہ لگانے کو کہا تو انہوں نے بے توقف کہا ’’عاشقاں را برسبیل تذکرہ رسوا مکن‘‘۔

میٹرک ان دنوں پنجاب یونی ورسٹی سے ہوتا تھا۔ اِن کے امتحانات کا آغاز 4 مارچ 1947 کو ہونا تھا لیکن اس سے پہلے ہی بلوے شروع ہوگئے، لوگ پرچے تک لوٹ لاٹ گئے، سو امتحان تو رہا دھرے کا دھرا، ہوتے ہوتے شہر بھر پر بلوائیوں کا راج ہوگیا۔ اپریل میں ان کے والد نے سارے خاندان کو کوٹ سارنگ واپس بھیج دیا جہاں 25 اگست کو اطلاع ملی کہ رات کو حملہ ہونے والا ہے، یہاں سے پھر ہانپتے کانپتے پنڈی پہنچے لیکن جائے اماں ندارد، وہاں سے بھاگم بھاگ نکلے اور گرتے پڑتے لدھیانہ پہنچ لیے لیکن ٹرین میں بابوجی……!

بیوہ ماں اور تین بہن بھائیوں کا ساتھ اور تہی دامنی سی تہی دامنی؛ مقامی شرنارتھی (پناہ گیر) کیمپ میں جگہ ملی۔ کہتے ہیں شرنارتھی میرے لیے نیا لفظ تھا کیوں کہ تب ہندی بس پڑھنے لکھنے کی حد تک ہی تھی۔ کیسا وقت تھا، چند دن پہلے یہی دھرتی ایک وطن تھی اورآج اسی میں پناہ گیر جیسے بے توقیر نام سے پکارے جانے لگے۔ کیا جانیے پردیس کب دیس بنے، بنے بھی کہ نہ بنے۔ آگے پہاڑ سی زندگی، کیا کریں؟ اسی ادھیڑ بُن میں چوکی بازار جانکلے، ایک پرنٹنگ پریس دکھائی پڑا’’ہفت روزہ صداقت‘‘ یہی لکھا تھا۔

آپ اندر گئے، واں ایک سردار جی تھے، علیک سلیک کی اور بے ساختہ بولے’’اردو بہت اچھی لکھتا ہوں‘‘۔ سردار جی نے اوپر سے تلے اور پھر تلے سے اوپر، چندے سوچا پھر گویا ہوئے 45 روپے ماہ وار دوں گا، ڈیوٹی آٹھ گھنٹے، کام۔۔۔پروف پڑھنا، اخباروں کے بنڈل باندھنا اور انہیں ریڑھے پر رکھوانا اور ناگہانی قسم کی وغیرہ وغیرہ الگ؛ کام مشکل تھا، خاص طور پر اِن جیسے کے لیے، جنہیں ایسے وقتوں سے کبھی پالا ہی نہ پڑا تھا لیکن ساتھ ہی قسمت کا یاوری کرنا ملاحظہ ہو! سردار جی پوچھ بیٹھے ’رہتے کہاں ہو؟‘ انہوں نے بتایا تو لمحہ بھر کو داڑھی کھجائی اور بولے ’آؤ تالا خریدتے ہیں‘ یہ حیراں کہ یہ کون ہنگام ہے۔

اِس خریداری کا! خیر چل پڑے ساتھ، تالا خریدا گیا، آگے چلے اور چلتے چلتے مسلمانوں جولاہوں کے محلے اقبال گنج جا پہنچے، سردار جی یہاں کچھ تاکتے پھرے، کچی اینٹوں کا ایک مکان خالی پایا توجھٹ تالا ڈالا، قفلی انہیں تھمائی، بولے میری سائیکل لے جاؤ اور گھر والوں کویہاں اٹھا لاو، اتفاق سے یہ سردار جی الاٹمنٹ کمیٹی کے رکن تھے۔ پریوار کسی ٹھکانے لگا، نوکری بھی مل گئی۔ بس پھر اس کے بعد ’’مجھے خبر ہی نہ ہوئی، کب سورج ڈوبا، کب رات گزری، کب صبح ہوئی، بس کام، کام اور کام‘‘۔ سترہ برس کی عمر سے کام کرنا شروع کیا، ستر برس کی عمر سے آگے نکل لیے لیکن کام جاری ہے، تب مجبوری تھی، اب لَت ہے۔

صداقت میں کوئی چھے ماہ کام کیے ہوں گے، پھر اڑھائی روپے روز پر ایک بک اسٹال پر سیلز مین ہو لیے۔ تقسیم کے بعد بھارتی پنجاب میں اردو کو دیس نکالا دے کرگورومکھی رائج کی جاچکی تھی۔ بک اسٹال کے قریب ہی سردار جگن سنگھ کی کوٹھی میں سردار جیون سنگھ کا پبلشنگ کا ادارہ تھا، زیادہ تردرسی کتابیں چھاپتے اورخوب کماتے تھے۔ جیون سنگھ جی نے انہیں انگریزی سے بچوں کی کہانیاں ہندی میں ترجمہ کرنے پر لگا دیا، اجرت فی صفحہ، ایک روپیا؛ ستیہ پال کا ترجمے کا معیار بہت اچھا تھا، سو اس مد میں بھی سردار جی کے پو بارے ہونے لگے، دیکھا کہ نوجوان کام کا ہے تو سو روپے ماہانہ پر بزنس مینیجر رکھ لیا، تب کلرک پینسٹھ ستر روپے پاتا تھا۔ اب سو روپیہ ماہانہ الگ، ایک روپیہ فی صفحہ الگ، فاضل وقت میں آپ جناب جاسوسی اور فلمی رسالوں کے لیے فرضی ناموں سے لکھنے بھی لگ گئے۔

ناول لکھے، افسانے لکھے حتیٰ کہ فحش کالم لکھنے کا بھی اعتراف کرتے ہیں، اتنے سے دنوں میں ہندی کہا نیوں کی تین کتابیں، اردو کے دو ناول اور بچوں کی بارہ کتابیں لکھ ماریں۔ اسی دوران کماروکل (ہندی شاعر)، رویندر کالیہ (ہندی کہانی کار) شاعر اور کہانی کار ہیرانند سوز، پریم وار برٹنی، پنجابی کے مایۂ ناز شاعر شوکمار بٹالوی اور کرشن ادیب سے دوستیاں ہوئیں۔ افسانے ان کے یوں تو اِدھر اُدھر چھپتے ہی تھے لیکن کہتے ہیں کہ جب ’’شمع میں پہلی بار میرا افسانہ چھپا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی‘‘۔

اس افسانے کے انہیں 75 روپے ملے تھے، بعد میں سو اور پھر ڈیڑھ سو روپے ملنے لگے، بیسویں صدی بھی انہیں شایع کرنے لگ گیا۔ پریم وار برٹنی کے بارے میں کہا کہ وہ ’’سوائے پہنے ہوئے کپڑوں اور ایک بیاض کے کچھ نہ رکھتے تھے، صبح نہانے کے تکلف سے بھی آزاد رہتے اور دانتوں کے برش سے تو غالباً آشنا ہی نہیں تھے۔ مالیر کوٹلہ کے کچھ شوقینوں کو معاوضے پر غزلیں بیچا بھی کرتے تھے۔

جوش ملسیانی خود کو داغ دہلوی کا شاگرد بتاتے تھے۔ آنند جی کہتے ہیں کہ داغ کے شاگردوں کی فہرست میں جوش صاحب کے نام کے آگے سوالیہ (؟) ہے البتہ ملسیانی صاحب نے نکودر والے مکان کی بیٹھک میں اپنی ایک غزل فریم کروا رکھی تھی جس پر داغ کی اصلاح تھی۔ کہتے ہیں ممکن ہے، اسی غزل پر اصلاح ملی ہو۔ کہتے ہیں جوش ملسیانی مشکل قوافی اور ردیف کے ماہر تھے، ان کے شاگرد پنجاب سے دلی تک پھیلے ہوئے تھے۔ آنند جی کا کہنا ہے کہ ان ہی جوش کے طرحی مشاعروں میںغزل سے جی اچٹ گیا تھا۔

شادی آنند جی نے 1957 میں کی، باراتیوں میں نریش کمار شاد، پریم وار برٹنی، رام لال، کلام حیدری، موہن راکیش، رویند کالیہ، کپل دیو، جوہر ادیب، ہیرانند سوز، کرشن ادیب، پرکاش کمار وکل، شرون کمار شرما اور اپنے وقت کے ہندی کے متعدد نام ور لکھاری شامل تھے۔ 1955 سے 1960 کے اپنے برسوں کے بارے میں بتاتے ہیں ’’ان پانچ برسوں میں میری لکھنے کی رفتار بہت تیز تھی‘‘ اپنا ناول ’’چوک گھنٹہ گھر‘‘ بھی انہی دنوں کوئی مہینے بھر میں لکھا تھا۔

اس ناول کے سرورق پر لدھیانہ کا گھنٹا گھر چھپا تھا، سارے ناول میں یہ ہی گھنٹا گھر متکلم ہے، کہانی اس کی صرف ایک دن پر مشتمل ہے۔ اسی ناول پر پنجاب کے وزیراعلیٰ پرتاپ سنگھ کیروں نے ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا تھا۔ انہوں نے سمجھا کہ لڑکا کیمیونسٹ ہے اور ناول میں کانگریس کے لتے لیے گئے ہیں حال آں کہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ کیمیونسٹ ہوتے کون ہیں، وہ اس کا تلفظ ’’قوم نشٹ‘‘ کیا کرتے تھے، پڑھنے وڑھنے کا تکلف کبھی کیا نہیں تھا سو ناول کیا پڑھتے، بس ایک شریر نفس ایم ایل اے نے کہ دیا کہ ناول کانگریس کے خلاف ہے؛ خیر یہ معاملہ جلد ہی رفع دفع ہوگیا۔ پبلشر نے اس کا نیا ایڈیشن ’’شہر کا ایک دن‘‘ کے نام سے شائع کیا پھر یہ پنجابی اور اردو میں بھی چھپا۔

ستیہ پال آنند جی نے کنور مہندر سنگھ بیدی، راجندر سنگھ بیدی، دیویندر ستیارتھی، کرشن چندر اور ساحر لدھیانوی کے حوالے سے بھی دل چسپ واقعات سناتے ہیں، پاکستان میں ان کے دوستوں میں شوکت صدیقی، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر فہیم اعظمی، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، نصیر احمد ناصر، علی محمد فرشی اور پروین طاہر اور متعدددیگرہیں۔ اعتراف کرتے ہیں کہ وزیر آغا مرحوم نے بہت متاثر کیا اور ان سے سیکھا بھی۔

کہتے ہیں کہ پانچویں دہائی کے آخری نصف تک مرفع الحال ہو چکے تھے اور انہیں جی بھر مغربی ادب پڑھنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہوں نے ایم اے انگریزی کیا، چار ناول اردو کے لکھے، ہندی میں تین کتابیں اور نظموں، غزلوں، قطعات اور رباعیوں کا ایک مجموعہ، بچوں کے انگریزی ادب کے اردو تراجم اور پنجابی غزلوں کے دو مجموعے دیے، اس کے ساتھ ہی آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے ایک کتاب پر حکومت پنجاب سے ایوارڈ بھی لیا، اپنے کچے مکان کو پکی منزل میں تبدیل کروایا اور بھائی بہنوں کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوئے۔ ایم اے انگریزی بہت ہی امتیاز کے ساتھ پاس کیے تھے لہٰذا پنجاب یونی ورسٹی میں آسانی سے لیکچرر ہو گئے اورلدھیانہ سے چنڈی گڑھ منتقل ہوگئے، اسی میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل کیا، انگریزی درسیات کی کل ہند کانفرنسوں کے لیے سات مقالے لکھے اورتخلیقی کام کا حجم اور بڑھایا۔

کہتے ہیں باہر کے ملکوں میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر کئی چکرلگا آیا، برطانیہ، کینیڈا، امریکا اور سعودی عرب میں پروفیسری بھی کرلی لیکن پاسپورٹ انڈین تھا جس پر کہیں سے پاکستان کا ویزا نہ ملا۔ کہا انڈیا میرا وطن نہیں تھا، میرا وطن تو وہ تھا جو آج کل پاکستان کہلاتا ہے۔ بالآخر میں نے کہیں اور ہجرت کی ٹھان لی۔ تینوں بیٹے پہلے ہی امریکا اورکینیڈا میں تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ واشنگٹن ڈی سی کی ایسٹرن یونی ورسٹی نے وزیٹنگ پروفیسری کی دعوت دے ڈالی تو میں نے قبول کرلی اور پنجاب یونی ورسٹی سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ گھر بار بیچ، بھلی لوک کو لے، امریکا پہنچ لیا‘‘۔ کچھ عرصہ قبل ان کی بھلی لوک سورگ باش ہوچکی ہیں۔

سعودی عرب میں قیام کے دوران نصیر احمد ناصر اور شبنم مناروی مرحوم سے یارانہ ہوگیا تھا۔ شبنم صاحب سے انہیں معلوم ہوا کہ علی محمد فرشی اِن کے گرائیں یعنی کوٹ سارنگ کے ہیں۔ یہ علی کے نام سے آگاہ تھے، شبنم مرحوم سے پتا لے کر خط لکھا۔ علی نے جواب دیا اور انہیں ان کی گلی کی کوئی درجن بھر تصویریں اور مٹی لفافے میں ڈال کر بھیج دی۔ تب یہ امریکا جا چکے تھے۔ اس مٹی پر انہوں نے ’’جنم بھومی کی مٹی‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی۔ امریکی پاسپورٹ انہیں مل چکا تھا، سو اب انتظار رخصت؛ یہ 1999 میں اپنی جنم بھومی اور اپنے مکان کے در و دیوار کو آنکھوں سے نم کرنے پہنچ گئے۔ اس دوران بعض ناخوشگوار واقعات بھی انہیں پیش آئے تاہم تمنا کا بر آنا انہیں زیادہ خوش آیا۔

طبع انساں بہت ہی پیچیدہ ہے۔ وہی کوٹ سارنگ کہ دیکھنے کو جس کے آنکھیں ترستیاں تھیں، جس کی گلیاں، ان کے دل کی شریانیں تھیں، اب کہتے ہیں ’’کوٹ سارنگ کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیاہے، میں اب یاد تک نہیں کرتا کہ میرا کوئی گاؤں تھا‘‘۔ کہتے ہیں ’’شاید میرے پرکھوں کی سات یا اس سے بھی زیادہ پیڑھیاں جو اس گاؤں میں پیدا ہوئیں اور وہیں راکھ کی ڈھیری میں تبدیل ہو گئیں، کسی جہانِ دگر سے دیکھ رہی ہوں کہ ان کے سپوت نے اپنی جنم بھومی سے ناتا توڑ لیا ہے‘‘۔

سیاہ رنگ بہت پسند کرتے ہیں، بچپن میں گلی ڈنڈا، پتنگ بازی، چھپن چھوت، کنہاڑی چڑھنا اور چینچی، سبھی کھیل کھیلے۔ دیسی کھانے پسند ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔