خود کش حملے اور حکومت کی پالیسی

ایڈیٹوریل  جمعرات 5 جون 2014
افغان حکومت کو مختلف مواقع پر پاکستان پر الزامات عاید کرنے کے بجائے اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت  یقینی بنانا چاہیے  فوٹو: فائل

افغان حکومت کو مختلف مواقع پر پاکستان پر الزامات عاید کرنے کے بجائے اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت یقینی بنانا چاہیے فوٹو: فائل

راولپنڈی کے قریب حساس ادارے کی گاڑی پر خود کش حملے کے نتیجے میں دو کرنل سمیت پانچ افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ کالعدم تحریک طالبان نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق بدھ کو ہونے والا یہ دھماکا خود کش اور حملہ آور بھکاری کے روپ میں تھا۔ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ایک عرصے سے تعطل کا شکار چلا آ رہا ہے مگر اس دوران حکومت  اس عزم کا اعادہ کرتی چلی آ رہی ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کر لے گی۔ اب طالبان نے  فتح جنگ میں فوجی افسروں پر خود کش حملہ کر کے حکومت کو کیا پیغام دیا ہے۔

کیا انھوں نے مذاکرات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے خواہاں نہیں اور جنگ کا راستہ چاہتے ہیں؟ ملک میں ایک گروہ طالبان سے مذاکرات کا حامی جب کہ دوسرا اس کے برعکس خیالات کا حامل ہے۔ اب طالبان نے خود کش حملہ کر کے مذاکرات مخالف اور آپریشن کے ذریعے مسئلہ کا حل چاہنے والے گروہ کے خیالات کو تقویت دی ہے ۔ دوسری جانب بدھ کو باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ماموند کے سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر افغانستان سے آنے والے عسکریت پسندوں کے حملوں میں 7سیکیورٹی اہلکار شہید اور 7 زخمی ہوگئے۔

حکام کے مطابق حملوں کے بعد سیکیورٹی فورسز نے بھرپور جوابی کارروائی کی جس میں متعدد حملہ آور ہلاک اور زخمی جب کہ دیگر پسپا ہو گئے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تحصیل ماموند کے سرحدی علاقوں میں افغانستان سے یہ تیسرا حملہ ہے۔ 31 مئی کو ہونے والے حملے میں بھی ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی جب کہ جوابی کارروائی میں 16 حملہ آور ہلاک ہو گئے تھے۔  اسلام آباد میں افغان ناظم الامور کو ایک بار پھر طلب کر کے حالیہ حملے پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔

دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان ان حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس معاملے کو کابل میں افغان حکومت اور اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کے ساتھ اٹھایا گیا ہے، بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے اور ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے ایسے حملوں کی روک تھام یقینی بنائے۔افغانستان سے حملوں کا سلسلہ شروع ہونا تشویش ناک امر ہے۔ پاکستانی حکومت افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کے لیے کوشش کر رہی ہے جب کہ افغان حکومت کی جانب سے ایسے کسی جذبے  کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔

سرحدی علاقوں کی حفاظت افغان حکومت کی ذمے داری ہے۔ اگر اس کے علاقوں سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر حملے کرتے ہیں تو اس کا الزام افغان حکومت پر بھی عاید ہوتا ہے۔ افغان حکومت کو مختلف مواقع پر پاکستان پر الزامات عاید کرنے کے بجائے اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت  یقینی بنانا چاہیے۔ افغانستان میں نیٹو افواج کے علاوہ تین لاکھ تربیت یافتہ افغان آرمی بھی موجود ہے۔ اتنی بڑی مسلح قوت کی موجودگی میں حملہ آوروں کا سرحد پار کر کے پاکستان میں کارروائیاں کرنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں بہت سے حلقے یہ کہنے میں حق بجانب دکھائی دیتے ہیں کہ افغان حکومت ایک منصوبہ بندی کے تحت ان حملوں میں معاونت کر رہی ہے جب کہ بھارت بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہا ہے۔

تحریک طالبان کے رہنما پاکستانی حکومت پر یہ الزامات عاید کرتے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات میں مخلص نہیں لیکن سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے یہ حملے صورت حال کو واضح کر دیتے ہیں کہ کون قوت مذاکرات میں سنجیدہ اور مخلص نہیں۔دریں اثنا یوتھ لون اسکیم کے تحت دوسری قرعہ اندازی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے راولپنڈی اور باجوڑ میں دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں امن و امان کا قیام اولین ترجیح ہے‘ دہشت گردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دہشت گردی کی مذمت اپنی جگہ درست مگر کیا صرف مذمت سے دہشت گردی قابو میں آ جائے گی۔ طالبان نے اندرون ملک اور سرحدی علاقوں میں حملوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس پر قابو پانے کے لیے حکومت کو مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔

وزیراعظم نواز شریف نے ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’جو لوگ اپنے صوبے میں کارکردگی نہ دکھا سکے وہ ملک میں کیا دکھائیں گے‘ جن لوگوں کو عوام نے ووٹ نہیں دیا وہ 2018 تک صبر اور انتظار کریں‘‘۔ ملک میں جمہوریت ایک عرصے بعد بحال ہوئی ہے وہ سیاسی قوتیں جو الیکشن میں اپنی خواہش کے مطابق نتائج حاصل نہیں کر سکیں انھیں کسی قسم کا سیاسی بحران پیدا کرنے کے بجائے آنے والے انتخابات کا انتظار کرنا چاہیے۔ اسمبلی کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا بھرپور موقع ملنا چاہیے تاکہ جمہوریت کا سلسلہ بلا کسی رکاوٹ کے چلتا رہے اور اگر جمہوریت کی گاڑی ڈی ریل ہوتی ہے توملک کے لیے نقصان دہ امر ہوگا۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے یہ یقین دلایا کہ نئے بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہو گا۔بلاشبہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں ایک متوازن بجٹ پیش کیا مگر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔ حکومت اگر منی بجٹ پیش نہیں کرتی اور معاملات کو درست طریقے سے چلاتی رہتی ہے تو ممکن ہے کہ مہنگائی میں اضافہ نہ ہو۔ حکومت ملک میں معاشی انقلاب لانے کے لیے توانائی سمیت دیگر بہت سے منصوبوں پر تیزی سے کام کر رہی ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے اس سے تعاون کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔