عطا مومن کو پھر درگاۂ حق سے ہونے والا ہے

اوریا مقبول جان  جمعرات 5 جون 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

دنیا پوری میں دو تصورات رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات دراصل ایک حیرت انگیز سائنسی کھیل ہے جس کی سب سے کامیاب اور عظیم ایجاد انسان ہے جو سوچنے ، سمجھنے، گفتگو کرنے اور کائنات کے رازوں کو ڈھونڈ کر کائنات کو تسخیر کرنے کا ملکہ رکھتا ہے۔ اسی کی کوششوں سے دنیا خوبصورت بنتی ہے اور اسی کے ظلم و ناانصافی سے دنیا جہنم کی صورت ڈھل جاتی ہے۔ دنیا میں کوئی واقعہ، کام ، ایجاد، یا ترقی ایسی نہیں جس کی کوئی وجہ نہ ہو۔

علّت و معلول یعنیCause اور Effect کا تصور۔ ان تصورات کے حامل سائنسدانوں، دانشوروں، فلسفیوں اور عالموں کی ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ کائنات خود بخود ایک سائنسی عمل سے وجود میں نہیں آئی تھی بلکہ اس منظم اور مربوط دنیا کو کسی عظیم ہستی یعنی خالقِ کائنات نے تخلیق کیا ہے تو پھر بھی وہ اس دنیا کو معرضِ وجود میں لا کر اب بس تماشہ دیکھ رہا ہے اور یہاں پر بسنے والے انسانوں اور حیوانوں کے اس کھیل سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس نے دنیا کو ایک سائنسی نظام کے تحت ترتیب دے دیا ہے اور اب یہ دنیا اس سائنسی نظام کی پابند اور محتاج ہے۔ دنیا میں بلاوجہ سیلاب نہیں آ سکتا، زلزلہ نہیں آتا، بیماریاں، قدرتی آفتیں، تباہیاں کسی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اسی طرح انسان جو کچھ اس دنیا میں کرتا ہے اس پر سزا و جزا کا بھی اسے یہیں پر مکمل اختیار ہے۔

وہ چاہے تو شہر کے شہر برباد کر دے اور پھر بھی عظیم فاتح کہلائے۔ لوگوں کو بھوک اور قحط کا شکار کر لے، ان سے بیگار لے، غلام بنائے لیکن اپنے اثر و رسوخ اور اقتدار کی وجہ سے اسے کوئی مجرم نہ گردانے، اس پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہ ہو۔ یہی سوچ ہے جو دنیا میں ہونے والی ہر ترقی اور ہر تباہی کا بھر پور سیاسی، سماجی، معاشرتی اور سائنسی تجزیہ کرتی ہے۔ خانہ جنگی کیوں ہوئی، کیسے قتل و غارت شروع ہوا، فصلیں کیسی برباد ہوئی، ملک کیسے تباہ ہوئے، قومیں کیسے غلام نہیں، ان سب کا شاندار تجزیہ دنیا بھر میں میسر ہے۔ لیکن دوسرا تصور رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کائنات کو اللہ نے ایک خاص مقصد، حسنِ ترتیب، عظیم منصوبہ سازی اور شاندار ہیئتِ ترکیبی سے پیدا کیا ہے۔

اس نے اس دنیا میں انسان کو سوچنے، سمجھنے، دیکھنے، سننے اور گفتگو کرنے کے ساتھ علم کی دولت اس لیے عطا کی ہے کہ وہ اس خالقِ کائنات کے فرامین کے مطابق اس دنیا کو حسین، خوبصورت اور رہنے کے قابل بنائے۔ اس کے لیے اس اللہ نے روز آخر جزا اور سزا کا ایک نظام مقرر کر رکھا ہے۔ روز حشر ہر فرد تنہا اور اکیلا اپنی فردِ عمل کے ساتھ پیش ہو گا۔ اللہ فرماتا ہے ’’اور ان میں سے ہر شخص قیامت کے دن اللہ کے حضور میں پیش ہو گا فرداً فرداً‘‘ (سورۃ مریم:95) لیکن قوموں اور ملتّوں کے بارے میں اس کائنات کا روّیہ اور تصور مختلف ہے اور وہ قرآنِ پاک میں بار بار اس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے نزدیک قوموں پر انعامات کی بارش اور آزمائشوں کے نزول کی وجوہات ہیں۔ وہ قوموں کو سرفراز بھی کرتا ہے اور صفحۂ ہستی سے مٹا بھی دیتا ہے۔ یہ سب وہ اس لیے کرتا ہے کہ یہ دنیا اس کا باغ ہے۔

وہ اس باغ کی ذمے داری انھیں کو سونپتا ہے جو اسے خوبصورت بنانے کے اہل ہوتے ہیں۔ وہ ایک عرصہ لوگوں کو مہلت دیتا ہے لیکن اگر اس ملت کے دوران وہ لوگ زمین کو فساد سے بھر دیں، اس میں رہنے والوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کر دیں۔ دنیا کے اس باغ کو اپنی بداعمالیوں کی جھاڑیوں اور بد کرداریوں کے کانٹوں سے آباد کر دیں تو پھر اللہ خود صفائی کا حکم صادر فرماتا ہے۔ زلزلے، طوفان، سیلاب، وبائیں یہ سب اس کے حکم کی عمل داری سے آتے ہیں۔ لیکن وہ ظالموں کو ظالموں سے لڑا کر بھی دنیا میں امن قائم کرتا ہے اور گروہوں میں تقسیم کر کے، ایک دوسرے کی گردنیں کٹوا کر بھی عذاب کا مزا چکھاتا ہے۔

ہم اس کے صفائی کے حکم کی زد میں آ چکے ہیں ۔ جس قوم کو اہل نظر گزشتہ دس سال سے صرف ایک بات کی تلقین کر رہے تھے کہ اپنی بربادی اور عذاب سے بچنے کے لیے اللہ سے رجوع کرو۔ اس سے معافی کے طلبگار ہو جائو۔ وہ اللہ جو قرآن پاک میں کس قدر امید کے ساتھ انسانوں کی جانب دیکھتا ہے کہ کوئی قوم ایسی کیوں نہ ہو گئی جیسی قوم حضرت یونس ؑ کی تھی کہ معافی کی طلبگار ہوتی اور ہم اس سے عذاب ٹال دیتے، اور اسے ایک عرصہ دنیا سے لطف اٹھائے دیتے۔ قوم یونس ؑ جس پر عذاب کا اٹل فیصلہ ہو چکا تھا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کو مطلع بھی کر دیا تھا۔ لیکن اللہ کہ جو اپنے ہی فیصلوں پر قادر ہے، تو جب اس نے دیکھا کہ پوری قوم اس کے حضور سجدہ ریز ہو گئی، گڑ گڑا کر معافی کی طلبگار ہو چکی تو اس نے معاف فرما دیا۔

اللہ کے ان فیصلوں کے تین مدارج ہیں۔ ہم بحیثیت پاکستانی ان تینوں میں سے آخری درجے پر آ چکے ہیں۔ اللہ سورہ الرعد کی آیت نمبر10 میں قوموں کی حالتوں کے بارے میں فرماتا ہے۔ پہلی حالت: ’’ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگران مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ پاکستان بننے کے بعد طویل عرصہ ہم اللہ کی اسی نگہبانی کے سائے میں زندگی گزارتے رہے۔ ہم خوشحال بھی تھے اور پر امن بھی۔ دوسری حالت: یقین جانو اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ چاہے‘‘ یہ مہلت بھی ہمیں ملی۔ ہم سے فرشتوں کی نگہبانی تو اٹھالی گئی لیکن ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا گیا اور ہمیں چار دہائیاں موقع دیا گیا کہ ہم اپنے حالات بدلنے کی خواہش کا اظہار ہی کر دیں۔

ہم نے چوروں، بددیانتوں، لٹیروں اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا تمسخر اڑانے والوں کو اپنا رہنما چنا۔ ہم نے ہر اس چوکھٹ پر اپنا سر جھکایا اور ہر اس طاقت کی غلامی کی جو اس مالکِ کائنات کے مقابل کھڑی ہوئی۔ ہم نے جمہوری رہنما بھی ایسے منتخب کیے جنھیں تمام ا میدیں دنیا اور دنیا کے تاجداروں سے تھیں اور ہمارے فوجی ڈکٹیٹر بھی ایسے تھے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا بھری محفلوں میں مذاق اڑاتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے‘‘۔ ان کا تمسخر عجیب تھا، کہتے تھے، کہ اس سوچ کے ساتھ کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ تیسری حالت: ’’اور جب اللہ کسی قوم پر آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کا ٹالنا مکمن نہیں، پھر ایسے لوگوں کا پنے سوا کوئی رکھوالا نہیں ہوتا‘‘

ہم اسی تیسری حالت میں داخل ہو چکے ہیں۔ پوری دنیا میں ہمارا اپنے سوا کوئی رکھوالا اور مدد گار نہیں ہے۔ جس مغرب کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ قربان کیا۔ اپنی زمین کو آگ اور خون میں نہلایا وہ ہماری سرزمین پر اپنا کھیل شروع کر چکا۔ ان کے نزدیک اس خطے میں پاکستان کی وہی حیثیت ہے جو جنوبی امریکا میں کولمبیا کی تھی۔ اپنی اس علاقائی اہمیت کی جو سزا کو لمبیا نے بھگتی اسی کی تیاریاں یہاں پر ہیں۔ ہر بستی، قریہ اور علاقہ میں فساد، قتل و غارت علاقائی اور فرقہ وارانہ جنگیں۔ مغرب میں پناہ حاصل کیے ہوئے سیاسی رہنما اور ان کے ساتھ کھیلنے اور ان کے ذریعے ہمارے امن دامان سے کھیلنے کا عالمی طاقتوں کا خفیہ منصوبہ۔ پڑوسیوں کے خونحوار پنجے جو ہمارے جانب بڑھ رہے ہیں۔

ایسے پڑوسی جن سے نہ خیر کی توقع اور نہ دوستی کی۔ لیکن اس سب سے زیادہ خوفناک یہ کہ ہم پر اللہ نے ایک ایسی کیفیت طاری کی دی گئی ہے کہ ہم عقل و ہوش سے عاری کر دیا گیا ہے۔ ہماری حالت سورۃ الاعراف کی179 ویں آیت کی طرح ہے: ’’ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چوپایوں  کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں‘‘۔ یہ ہے ہماری حالت ہمارے انجام پر دونوں متفق ہیں۔ اہل خرد، اہل دنیا اور عالمی تجزیہ کار بھی اور اہل نظر بھی۔ لیکن دونوں میں ایک فرق ہے۔

اہل دنیا ہماری تباہی اور بربادی کا نقشہ کھینچ رہے ہیں جب کہ اہل نظر ہماری شامت اور آزمائش کے بعد اصلاح اور خیر کے موسموں کی نوید دے رہے ہیں۔ لیکن اس آزمائش کے چند مہینوں میں ہمارا کوئی رکھوالا نہیں۔ ہم نے جن قاتلوں، غنڈوں،لیٹروں، چوروں اور ظالموں کو اپنے ہاتھ سے پالا تھا، اب وہ بلائیں ہمارے ساتھ گتھم گتھا ہونے والی ہیں، ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے والی اور اللہ کے اس اصول کے مطابق کہ اگر ہم ظالوں کو ظالموں سے نہ لڑایں تو دنیا میں امن کیسے ہو۔ چند ماہ۔۔۔ اور پھر دائمی امن۔ خوشحالی

عطا مومن کو پھر درگاۂ حق سے ہونے والا ہے

شکوۂ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ اعرابی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔