بھارت اور میڈیا

کلدیپ نائر  جمعرات 5 جون 2014

مجھے اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی جب مکیش امبانی کی کمپنی نے بھارت کے ایک بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی ملکیت حاصل کر لی مگر کسی بھارتی الیکٹرانک میڈیا نے اتنی بڑی خبر کا کوئی ذکر اذکار ہی نہیں کیا۔ جس بات سے میں ہکا بکا رہ گیا وہ یہ تھی کہ اخبارات نے اس کی خبر ضرور دی تھی تاہم تفصیلات میں جانے سے گریز کیا تھا۔ مجھے توقع تھی کہ کم از کم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا (EGI) ضرور اس کا نوٹس لے گا۔ لیکن یہ بات قابل فہم ہے کہ جب میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایڈیٹروں کو بھی اپنے اثاثوں کا عام اعلان کرنا چاہیے تو انھوں نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا حالانکہ سیاست دانوں سے ان کا یہی مطالبہ رہتا ہے۔ کیایہ دہرا معیار نہیں؟

مجھے کارپوریشنوں کے میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ بڑھتے ہوئے اخراجات اور اشتہارات کی کمی کے باعث میڈیا فاقہ کشی تک پہنچ گیا ہے گو  مثالی صورت یہی ہے کہ بھارتی میڈیا اپنے طور پر خود کفیل ہو لیکن چونکہ زیادہ تر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے لیے یہ ممکن نہیں اس لیے انھیں مجبوراً کارپوریشنوں کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن اس ضمن میں بھی انھیں حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے۔

سابق وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے اخبارات کے لیے غیر ملکی اکویٹی کی حد 26 فیصد مقرر کر دی تھی۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر اس رعایت کو ٹیلی ویژن تک توسیع نہیں دی گئی۔ شاید اس وجہ سے کہ ہوا کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ جہاں تک غیر ملکیوں کی ملکیت کو محدود کرنے کا تعلق ہے تو یہ بات قابل فہم ہے۔

اگر غیر ملکی اکویٹی کو ’’ٹروجن ہارس‘‘ سے تشبیہہ دی جائے کہ جسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تو بھارتی کارپوریشنوں کو بھی نہیں چاہیے کہ وہ ’’لکھشمن ریکھا‘‘ کو عبور کریں۔ لیکن یہ کارپوریشنیں بھی بے حد طاقتور ہیں کیونکہ سیاست دان اپنی عیاشانہ زندگی بسر کرنے اور الیکشن لڑنے کے لیے انھی پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ بہت سی چیزیں نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔

مرکز میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے بوجوہ پریس یا میڈیا کمیشن بنانے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ آزادی کے بعد سے صرف دو کمیشن بنائے گئے۔ ایک تو آزادی کے فوراً بعد جب کہ دوسرا 1977ء میں ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد۔ دوسرے کمیشن نے جو سفارشات پیش کیں ان کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ مسز گاندھی نے کسی ایسے اقدام کی طرف دیکھنے سے بھی انکار کر دیا تھا جس میں ایمرجنسی کے بعد کے عرصہ کا ذکر ہو (اور پولیس اصلاحات کے بارے میں جو نہایت قابل تعریف رپورٹ تیار کی گئی تھی وہ بھی ضایع کر دی گئی)

نریندر مودی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت ماضی سے یکسر مختلف ہے لہٰذا اسے یقینی طور پر ایک کمیشن قائم کرنا چاہیے جو مسز گاندھی کی حکومت کے بعد سے میڈیا کی پوزیشن کا جائزہ لے ۔

میں پریس کی آزادی کا دل سے قائل ہوں حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے نئے وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جوادیکر (Javadekar) کے بیان سے بہت کوفت ہوئی ہے جس میں انھوں نے پریس کی آزادی کی یقین دہانی کراتے ہوئے ایک انتباہ بھی کر دیا ہے لیکن مجھے اس انتباہ کی سمجھ نہیں آئی۔ بھارتی پریس اعلیٰ اقدار کی حفاظت میں کسی دوسرے ملک کے پریس سے کمتر نہیں، جن اقدار کو سیاست دانوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

آزادی کے بعد سے بھارتی پریس کی غیر ذمے داری کی کوئی مثال موجود نہیں لیکن یہ بات حکومت کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی جس نے کہ 1975ء میں ایمرجنسی کے دوران اخبارات پر سنسر شپ عاید کر دی تھی۔ حتیٰ کہ اب بھی بہت سی ریاستوں میں اخبارات کو وزرائے اعلیٰ کا دبائو برداشت کرنا پڑتا ہے بلکہ انھیں سزا بھی ملتی ہے اشتہارات جو کہ چھوٹے اخبارات کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں وہ بھی حکومت کی حمایت کرنے والوں کو دیے جاتے ہیں جب کہ تنقید کرنے والوں کو اشتہارات سے محروم رکھا جاتا ہے اور حکومت جو کچھ بھی خرچ کرتی ہے وہ ٹیکس دھندگان کا روپیہ ہوتا ہے۔

اشتہارات کی ’’گاجر‘‘ دوسرے ملکوں میں بھی چلتی ہے اور حکومتیں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اس کا استعمال کرتی ہیں۔ حکمرانوں کے پاس کروڑوں اربوں روپے کی رقم ان کے صوابدیدی اختیارات کے لیے ہوتی ہے تا کہ وہ اپنی اثر پذیری کو بڑھا سکیں۔ کارپوریشنوں اور بااثر افراد کے کسی گروپ کی طرف سے میڈیا کوکنٹرول کرنے کی کہانیاں بھارت سے کسی جگہ پر بھی مختلف نہیں ہیں۔

گزشتہ کچھ ہفتوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ وہاں کی سیاست میں جس قدر خرابیاں ہیں۔اس کے لیے ایک علیحدہ مقالہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم میں اپنے کالم کو میڈیا تک محدود رکھ رہا ہوں جو کہ بلاشبہ سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ٹی وی چینلز کی بہت بڑی تعداد ہے جو کہ سب کے سب بنگالی زبان میں ہیں حالانکہ روزنامہ اخبارات کی زیادہ تعداد نہیں لیکن چندمستثنیات سے قطع نظر زیادہ تر پرنٹ میڈیا برسراقتدار حکومت کی حمایت میں خبریں دیتا ہے جب کہ الیکٹرونک میڈیا ایسا نہیں کرتا۔

پاکستان ابھی تک ایک جاگیردارانہ ریاست کی طرح ہے۔تاہم اس کا میڈیا برصغیر میں سب سے زیادہ تعداد میں ہے۔ میڈیا سے متعلق مرد اور عورتیں بڑی جراتمندی سے خبریں دیتے ہیں جو کہ زیادہ تر درست ہوتی ہیں۔

میڈیا جو بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ برصغیر میں پریس اور ٹی وی چینلز کے مالکان میں اب کوئی بھی غیر ملکی نہیں۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نے چوٹی کے اخبارات کی برطانوی ملکیت واپس لینے کی خاطر بڑے صنعتی اداروں کی مدد طلب کی تھی۔ اور چونکہ میڈیا ایک مکمل طور پر ترقی یافتہ میدان ہے اور جس کا عوام کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے تو اب وقت آ گیا ہے کہ قانون کے تحت بعض تجاویز ان کے بارے میں بھی ہونی چاہئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا کی تمام تر توجہ مارکیٹنگ اور پیکنگ پر مرکوز ہے۔ یہ بھی بڑی اہم چیزیں ہیں لیکن ان کی زیادہ ترجیح نفس مضمون پر ہونی چاہیے۔ افسوس کہ اس میں اور زیادہ غفلت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔