میرا سہما ، جلتا ہوا کراچی

ثناء غوری  جمعـء 6 جون 2014
sana_ghori@live.com

[email protected]

کراچی میں مختلف گاڑیاں نذر آتش کردیں گئیں۔اس میں تین رکشے بھی شامل تھے۔رکشے والا دیر تک اپنے رکشے کو جلتے دیکھتا رہا۔ہڑتال یا احتجاج کسی کا بھی ہو، مشتعل عوام کا پہلا نشانہ بنتی ہیں… پبلک ٹرانسپورٹ، گاڑیاں اور دوسری املاک۔ اور جلانیوالے کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے محض کوئی بس، ویگن یا دیگر املاک کو ہی نہیں، جلنے والی املاک کے توسط سے پلنے والے پورے خاندان کو زندگی بھر سسکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

زیادہ تر ڈرائیور حضرات یہ ٹرانسپورٹ قسطوں پر حاصل کرتے ہیں اور روز کی ہونے والی کمائی سے وہ ایک خطیر رقم اس کی قسط ادا کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ شرپسند عناصر حکومت سے ناراضگی پر اپنے ذاتی غصے کو بجھانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو آگ تو لگا دیتے ہیں لیکن وہ اس سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ ان کا یہ فعل کسی غریب انسان کی زندگی پہ کیا قیامت لاسکتا ہے۔اس کے گھر کی خوشیاں لمحہ بھر میں آگ کی زد میں آ گئیں اور سب ختم ہوگیا۔

اس کے بچوں کا مستقبل اب اندھیرے کے سوا کچھ نہیں۔کتنا بڑا المیہ ہے، کیسا دل کو چیر کر رکھ دینے والا سانحہ ہے کہ غربت کے باعث لوگ اپنے بچوں کو تعلیم، آرام دہ زندگی اور تفریح تو کجا زندگی بھی نہیں دے پا رہے، مگر ہمارے یہاں اس سانحے پر بات بھی نہیں کی جا رہی، جو اس سانحے سے بھی بڑا المیہ ہے۔جب کہ حکومت کی طرف سے جلنے والی گاڑیوں کا معاوضہ دینے کی کوئی خاطر خواہ پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ ہمارے کرتا دھرتا ادھورے پاکستانی صحیح لیکن ہم عوام ان کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں۔یہ شہر برسوں سے خون ریزی تباہی اور بربادی کے مناظر دیکھ رہا ہے۔زبان کے نام پر ہونیوالے فسادات کتنے ہی گھر اجاڑ چکے ہیں۔

رہی سہی قصر آئے دن ہونے والی ہڑتالوں نے پوری کردی ۔احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ٹھہرا۔لیکن اپنے بھائیوں کی املاک کو نقصان پہچاناکہاں کی عقلمندی ہے۔کراچی کے حالات کسی ایسے ملک کے جیسے ہی ہیں جہاں جنگ ہو رہی ہو۔قتل و غارت گری کے واقعات کی سنگینی وحشت اور زندگی کے مظاہرے اور اس میں استعمال ہونے والا اسلحہ اس تجزیے کو صحیح ثابت کرتا ہے۔یہ میرا شہر جہاں کلاشنکوف ہی ڈر نہیں بانٹتی شہری اب اپنی املاک کے ختم ہوجانے کے ڈر کو ساتھ لیے نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔اگر ریاستی ادارے عوام کے جان ومال کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے توکم از کم متاثرین کی اشک شوئی اور ان کے مالی نقصان کے ازالے سے گریز اور تاخیر نا کریں۔

پاکستان بھر میں ذرایع نقل و حرکت کے لیے لاکھوں کی تعداد میں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر دوڑ رہی ہے۔ اس پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ شہر کی سڑکوں پر رواں دواں پبلک ٹرانسپورٹ میں کئی بسیں اور ویگنیں بہت قیمتی اور مہنگی ہوتی ہیں۔ آئے دن کی ہڑتالوں میں گاڑیوں کو نذرآتش کرنے کی خبریں اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ انھیں سن کر اب تو اس پر توجہ بھی نہیں جاتی۔ شہر بھر میں تقریباً 15 ہزار سے زائد پبلک ٹرانسپورٹ چلتی ہے اوراس ٹرانسپورٹ سے ہمارے مزدور طبقہ کا روزگار وابستہ ہے۔

اب تک 500 سے زائد گاڑیاں جلائی گئی ہیں  جب کہ حکومت کی جانب سے صرف 100 کے قریب گاڑیوں کا معاوضہ دیا گیا ہے وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل 2007 میں پرویز مشرف دور حکومت میں ٹرانسپورٹر کو معاوضہ دیا گیا تھا اور فی کس دو لاکھ روپے ایک گاڑی کا معاوضہ دیا گیا۔ ایسے میں حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ٹرانسپورٹروں کو تحفظ فراہم کرے۔ کتنے ہی ایسے ڈرائیور موجود ہیں جو قسطوں پر ویگن لے کر چلاتے تھے اور ان کی ویگن شرپسندوں کے قہر کا نشانہ بن گئی۔ اگر کوئی بدنصیب کسی یونین کا رکن نہیں تو جلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آخر ان واقعات کا ذمے دار کون ہے؟

بنیادی طور پر حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ متاثرہ ڈرائیورز کو معاوضہ دیں۔ جس طرح کے حادثات جنم لے رہے ہیں اس میں غریب عوام کہاں جائے۔ان کی خوشیوں کا ضامن آج کون بنے گا۔کراچی کے حالات سے آج ہر شخص متاثر ہورہا ہے۔ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس میں ذاتی املاک کو نقصان پہنچنے کی مد میں جو اخراجات ہیں ان کی ذمے داری حکومت اٹھائے۔ حکومت معاوضوں کا اعلان ضرور کرتی ہے لیکن اکثریت اس سے محروم ہے۔

حکومت اپنے کاموں کے لیے ٹرانسپورٹرز کی جن گاڑیوں کو روکتی ہے ان کو بھی معاوضہ نہیں دیا جاتا جو کہ بہرحال غریب ڈرائیورز کے لیے پریشانی کا باعث ہے، اس سلسلے میں جلد ہی قانون سازی کرنی ہوگی۔ ورنہ ہمارے مظلوم عوام میں اشتعال بڑھتا رہے گا۔ بیروزگاری ذہنی مسائل کو جنم دے رہی جو کہ بہرحال ایک قومی مسئلہ ہے۔امن و امان کی دن بدن خراب ہوتی صورتحال سے ہر شخص متاثر ہو رہا ہے، فوری طور پر حکمت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ کتنے ہی لوگ ہمت ہار کر ذہنی مریض بنتے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔