- پیپلزپارٹی امیدوار نثار کھوڑو بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- شاہد خاقان عباسی پارٹی کا اثاثہ ہیں، جلد ملاقات کروں گی، مریم نواز
- پی ایس ایل8؛ کامران اکمل پشاور زلمی کے ہیڈکوچ بن گئے
- (ن) لیگ نے شاہد خاقان عباسی کے مستعفی ہونے کی تصدیق کردی
- کراچی میں خواتین کیلیے پنک بس سروس کا افتتاح
- یوٹیلیٹی اسٹورز پرمتعدد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
- آئی ایم ایف کی ایک اور شرط قبول، حکومت کا بجلی مزید مہنگی کرنیکا فیصلہ
- شاہین کا ڈیزائن کردہ لاہور قلندرز کا نیا لوگو زیر بحث آگیا
- دہشتگردوں کو کون واپس لایا؟کس نے کہا تھا یہ ترقی میں حصہ لینگے، وزیراعظم
- یورپی حکومتیں قرآن کی بے حرمتی کے واقعات کا سدباب کریں؛ سعودی عرب
- کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے کیسز کی بھرمار ہوچکی، سندھ ہائیکورٹ
- خود کش حملہ آور مہمانوں کے روپ میں اندر آیا، تفتیشی ٹیم
- پیٹرول، ڈیزل بڑے اضافے کے باوجود عوام کی پہنچ سے دور
- جسٹس فائز عیسیٰ کے پشاور خودکش حملے کے حوالے سے اہم ریمارکس
- عمران خان کا توہین الیکشن کمیشن کیس سننے والے ارکان پر اعتراض
- پی ایس ایل8؛ لاہور میں کتنے سیکیورٹی اہلکار میچ کے دوران فرائض نبھائیں گے؟
- مسلح افراد تاجر سے 3 لاکھ امریکی ڈالر چھین کر فرار
- پنجاب میں نگراں حکومت اور ایڈووکیٹ جنرل آفس کے درمیان شدید تنازعہ
- الیکشن سے پہلے امن و امان کو دیکھا جائے، گورنر کے پی کا الیکشن کمیشن کو خط
- سپریم کورٹ نے نیب ترامیم سے ختم ہونے والے کیسز کا ریکارڈ طلب کرلیا
ٹیلی کام سیکٹر کو بجٹ اقدامات پر شدید تحفظات

حکومت خود ہی تھری جی ٹیکنالوجی کے فروغ میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے، ماہرین۔ فوٹو: فائل
کراچی: ٹیلی کام سیکٹر نے وفاقی بجٹ میں موبائل فون کے آئی ایم ای آئی نمبر کی رجسٹریشن کے لیے 250 روپے فی سیٹ ٹیکس کو مسترد کرتے ہوئے اسے ناقابل فہم اور ناقابل عمل اقدام قرار دیا ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر کے ماہرین نے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں تجویز کردہ اقدامات کے بارے میں ٹیلی کام انڈسٹری سے کوئی مشاورت نہیں کی اورحیرت انگیز طور پر نئے موبائل فون سیٹ کے آئی ایم ای آئی نمبر کی رجسٹریشن پر ٹیکس وصولی کی ذمے داری موبائل فون کمپنیوں کے کھاتے میں ڈال دی ہے۔ انڈسٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ موبائل کمپنیوں کی جانب سے بجٹ میں عائد کیے گئے نئے ٹیکسوں کے بارے میں تحفظات پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے وزارت خزانہ اور ایف بی آر کو بھجوائے جارہے ہیں تاکہ فنانس بل کی منظوری سے قبل ٹیلی کام سیکٹر کے لیے بحرانی کیفیت کا سبب بننے والے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکے۔
انڈسٹری کے مطابق بجٹ سے قبل حکومت کی جانب سے ٹیلی کام انڈسٹری کو اس بات کے اشارے دیے گئے تھے کہ ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 15فیصد سے کم کرکے 10فیصد کردی جائیگی تاہم بجٹ میں صرف 1 فیصد کمی کی گئی، اسی طرح ودہولڈنگ ٹیکس بھی 19.5 فیصد سے کم کر کے 18.5فیصد کردیا گیا، ان دونوں اقدامات کے نتیجے میں 100روپے کا بیلنس لوڈ کرانے والے صارفین کو صرف 1.26روپے کا معمولی فائدہ ہوگا تاہم دوسری جانب موبائل فون کی درآمد پر 500روپے کے امپورٹ ٹیکس اور اس پر 250 روپے کے آئی ایم ای آئی رجسٹریشن ٹیکس کی شکل میں 750روپے کا یکدم اضافہ کردیا گیا ہے، ٹیلی کام سیکٹر کے لیے بجٹ کی مشکلات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوئیں۔
حکومت نے ٹیلی کام ایکویپمنٹ کی درآمدی ڈیوٹی 5فیصد سے بڑھا کر 10فیصد جبکہ آئی ٹی ایکویپمنٹ کو زیرو ریٹ کی سہولت ختم کرتے ہوئے 1فیصد ڈیوٹی عائد کردی ہے۔ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلا ملک ہے جہاں نئے کنکشن کی فروخت کے لیے بائیو میٹرک سسٹم کا نظام لازمی قرار دیا گیا، اسی طرح آئی ایم ای آئی رجسٹریشن کے لیے موبائل فون کمپنیوں کے لیے ٹیکس کی وصولی بھی دنیا میں اپنی طرز کی پہلی منفرد مثال ہے۔ انڈسٹری ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکس کم کر کے عوام کو ریلیف دینے کے تمام دعوے غلط اور بے بنیاد ہیں، حقیقت میں عوام کو صرف 100روپے پر 1.26روپے کا فائدہ پہنچایا گیا ہے جبکہ نئے سیٹ پر رجسٹریشن ٹیکس کی مد میں 250روپے کا جبری ٹیکس عائد کردیا گیا۔
انڈسٹری کے مطابق ایک جانب حکومت ملک میں تھری جی ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے اور روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا کرنے کے دعوے کررہی ہے تو دوسری جانب خود ہی تھری جی ٹیکنالوجی کے فروغ کی راہ میں بجٹ اقدامات کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں، ٹیلی کام اور آئی ٹی ایکویپمنٹ پر ڈیوٹی بڑھانے سے تھری جی نیٹ ورک کی توسیع، پھیلائو اور بہتر خدمات کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہوگا اور انڈسٹری کو اضافی لاگت کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑے گا، گزشتہ سال حکومت کی جانب سے ایڈوانس انکم ٹیکس میں 5فیصد اضافے سے انڈسٹری کے ریونیو میں 5 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔