پاکستان پر تیار کردہ ’’وکھری‘‘ رپورٹ

نصرت جاوید  ہفتہ 7 جون 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اس کالم میں دو تین بار آپ کو آگاہ کر چکا ہوں کہ نواز شریف صاحب کے تیسری مرتبہ اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہو جانے کے بعد IMF نے پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی تھی۔ روایتی طور پر عالمی معیشت پر نظر رکھنے والے اس ادارے کی تیار کردہ ایسی رپورٹوں کا تمام تر فوکس متعلقہ ممالک کی اقتصادی صورت حال کو بیان کرنے تک محدود رہتا ہے۔ معاشی معاملات کا تذکرہ کرتے ہوئے کچھ نمایاں Indicators کی نشان دہی کی جاتی ہے جن کی روشنی میں ایسی پیش گوئیاں کہ متعلقہ ملک کا معاشی مستقبل ممکنہ طور پر کیا صورت اختیار کر سکتا ہے۔ جس ملک کا ذکر ایسی رپورٹوں میں ہوتا ہے وہاں کے سیاسی معاملات پر کوئی تفصیلی تبصرہ آرائی نہیں کی جاتی۔

IMF کی پاکستان پر تیار کردہ رپورٹ اس تناظر میں بڑی ’’وکھری‘‘ اس لیے دکھائی دی کہ اس میں تقریباََ کھل کر اس خدشے کا اظہار کر دیا گیا تھا کہ سن 2014ء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی ساتھ سندھ اور بلوچستان میں نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر مبنی معاشرتی تقسیم اور منافرت میں بڑی شدت دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

اپنے سیاستدانوں کی اکثریت کے بارے میں بڑے اعتماد کے ساتھ میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ انھوں نے اس رپورٹ کے بارے میں سنا بھی نہ ہو گا۔ اسے غور سے پڑھ کر کچھ اہم جزئیات پر توجہ دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ میرے جیسے صحافیوں کو سنجیدہ چیزیں پڑھنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ ہمارے اپنے ذہن گرانقدر خیالات سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اپنے کالموں میں ہمیں قوم کو ان کے بارے میں آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ ان خیالات کے اظہار سے فرصت ملے تو ذکر سیاست سے زیادہ چند سیاستدانوں کا جنھیں ہم محض ذاتی تجربات کے حوالے سے یا تو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں یا ان سے نفرت۔ اینکر حضرات کے مسائل کالم نگاروں سے کہیں زیادہ گمبھیر ہوتے ہیں۔ ان کے رزق اور خوش حالی کا تمام تر دارومدار Ratings پر ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اینکر خود کو Gym وغیرہ باقاعدگی سے جا کر Fit رکھے۔

ٹی وی اسکرین پر خوب صورت نظر آنے کے لیے Facial کی اذیت سے گزرے۔ Wardrobe یعنی اسٹوڈیوز میں پہنے جانے والے لباس کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ بے چارے Celebrity Anchors جب ان مسائل سے نبرد آزما ہونے میں مصروف ہوتے ہیں تو ان کے پروڈیوسرز اور پروگرام اسسٹنٹس کوئی گرما گرم موضوع ڈھونڈ کر اس کے حوالے سے مختلف سیاستدانوں کی تلاش میں جت جاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے یقینا اہمیت اس امر کو دی جاتی ہے کہ شام کے پروگرام میں ’’تمام فریقین‘‘ کی نمایندگی ہو۔ تا کہ اسکرین پر Balance  نظر آئے۔ بیلنس قائم رکھتے ہوئے خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ ایسے شرکاء کو گھیرا جائے جو اپنے مخالفین کو طنزیہ یا سخت فقروں کے استعمال سے ’’اُڑا‘‘ کر رکھ دیں۔ ڈرامائی لڑائی جھگڑا وغیرہ۔

میڈیا کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میرا دعویٰ ہے کہ ہمارے ناظرین کی اکثریت کا دل اب 1+3 والے اس Format  سے بھر چکا ہے۔ معاشیات کا قانونِ تقلیل افادہ اس کو اب بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ وقت آ پہنچا ہے کہ ٹی وی اسکرینوں پر سنجیدہ معاملات کو عوام تو پہنچانے کے لیے کوئی تخلیقی راستے ڈھونڈے جائیں۔ اگرچہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔

بہرحال IMF  کی وہ رپورٹ جس کا ذکر میں نے اس کالم کی ابتداء میں کیا ہے ان دنوں بڑی شدت سے مجھے یاد آ رہی ہے۔ وجہ اس شدت کی وہ Breaking News  ہے جو پاکستان کے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سے چند ہی گھنٹے قبل لندن سے موصول ہوئی۔ اس خبر کے بعد بجٹ اور اس کی جزئیات پر توجہ دی ہی نہیں جا سکتی تھی کہ اس کے آنے کے فوراََ بعد پاکستان کا معاشی Hub سمجھے جانے والا ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ آبادی پر مشتمل کراچی تقریباََ مفلوج ہوتا نظر آنا شروع ہو گیا۔ ساتھ ہی ساتھ ایم کیو ایم کا دھرنا جہاں جذبات بڑی شدت کے ساتھ اُبلتے ہوئے نظر آئے۔لندن سے آئی بریکنگ نیوز سے تقریباََ دو ہفتے پہلے Owen Bennett-Jones نے ایک کالم لکھا تھا۔ موصوف بہت عرصہ پاکستان میں بی بی سی کے نامہ نگار رہے ہیں۔

انھوں نے یہاں سے وطن لوٹنے کے بعد پاکستان پر ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ ایک حوالے سے لندن سے آئی Breaking News  کے لیے ان ہی صاحب نے کئی ماہ پہلے ہمیں اپنے تئیں ہوشیار کر دیا تھا۔ یہاں آپ کو یہ بات بھی یاد دلاتا چلوں کہ بی بی سی بے شک ایک قابلِ رشک حد تک ’’خودمختار‘‘ اور ’’ذمے دار‘‘ ادارہ ہے۔ مگر اس کی بنیادی Funding برطانوی وزارتِ خارجہ سے ہوتی رہی ہے۔ پچھلے چند برسوں سے ٹی وی لائسنس فیس کماحقہُ بھی اسے ملنا شروع ہو گئی ہے۔ اس اضافی سرمایے کے باوجود چند خبریں اور پروگرام اب بھی ایسے ہوتے ہیں جنھیں ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں براڈ کاسٹ نہیں کیا جاتا یا اس کے بارے میں رپورٹر کی دی گئی خبر کو بہت حد تک سنسر کر دیا جاتا ہے۔

Bennett-Jones نے ہمیں اب ’’بریکنگ نیوز ‘‘ محسوس ہونے والی خبر پر جو کچھ لکھا۔ بی بی سی نے اسے کئی ہفتوں تک روکے رکھا۔ اس خبر کے کچھ پہلو ایسے تھے جن کے بارے میں برطانوی وزارتِ خارجہ کی تصدیق یا تبصرے کو ضروری قرار دیا گیا۔ برطانوی وزارتِ خارجہ نے مگر رپورٹر کو یہ سہولت فراہم نہ کی۔ بی بی سی نے اس کی خبر روکے رکھی۔ تنگ آ کر اس رپورٹر نے اپنی کہانی بالآخر روزنامہ گارڈین میں چھپوا دی۔ ہمارے میڈیا نے اس کا سرسری تذکرہ تو ضرور کیا مگر اس کی اہم جزئیات پر پوری توجہ نہ دی۔ اوون نے لندن سے آئی بریکنگ نیوز سے دو ہفتے پہلے بھی جو کچھ لکھا وہ درحقیقت ان ہی جزئیات کے ایک بنیادی حصے پر مشتمل تھا۔

لندن سے آئی بریکنگ نیوز کی Timing میری دانست میں بہت اہم ہے۔ 14 جون 2014ء کو افغانستان میں صدارتی انتخاب کا قطعی مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ اُمید ہے کہ جولائی کی کسی تاریخ کو عبداللہ۔عبداللہ یا اشرف غنی میں سے جو بھی صدارت کا حلف اٹھائے گا اپنا عہدہ سنبھالنے کے چند ہی روز بعد امریکا کے ساتھ ’’باہمی سلامتی‘‘ کے اس معاہدے پر دستخط کر دے گا جس سے حامد کرزئی نے شدت کے ساتھ اجتناب کیا۔

ان دستخطوں کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء میں نمایاں تیزی دیکھنے کو ملے گی۔ کراچی اس انخلاء کے حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس اہمیت کے ہوتے ہوئے بھی لندن سے ’’بریکنگ نیوز‘‘ اب کیوں آئی ہے۔ کاش ہماری وزارتِ خارجہ میں کئی برس گزارنے کے بعد ریٹائر ہوئے کچھ تجزیہ کار جو ان دنوں ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھ کر پاکستان کے لوگوں کو سفارت کاری کی باریکیاں سمجھایا کرتے ہیں اس معاملے میں بھی ہماری کچھ رہ نمائی کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔