جستجو مسلسل جستجو

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 7 جون 2014

یہ ایک ایسے شخص کی داستان حیات ہے جس کا انتقال ہمارے ہی زمانے میں ہوا یعنی 1910 میں یہ عظیم شخص اس قدر ہر دلعزیز تھا کہ اس کی وفات سے بیس برس پہلے اس کے دروازے پر عقیدت مندوں کا ہجوم لگا رہتا تھا ۔ ہزاروں لوگ دور دراز سے یہ خواہش دل میں لیے وہاں آتے تھے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں اس کی باتیں سن سکیںیا اس کے ہاتھ کو بوسہ دے سکیں ۔اس کے دوست مسلسل کئی کئی برس تک اس کے گھر پرڈیرہ ڈالتے رہتے اور اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ شارٹ ہینڈ میں قلمبند کرلیتے یہاں تک وہ عام بات چیت میں اپنی زندگی کا کوئی معمولی سا معمولی واقعہ بھی سناتا تو وہ صفحہ قرطاس پر رقم ہو جاتا بعد میں ان تمام واقعات کو موٹی موٹی جلدوں کی شکل میں شایع کیا گیا۔

اس کا نام ٹالسٹائی تھا اس کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم و بیش 237,000 کتابیں او ر 56,000 مضامین لکھے جاچکے ہیں اس کی اپنی نگارشات کی ایک سو جلدیں ہیں ایک شخص کے لیے اتنا زیادہ لکھنا ایک بہت بڑے معجزے کی سی بات ہے۔ اس کی داستان حیات بھی اس کے لکھے ہوئے بعض ناولوں کی طرح دلچسپ اور رنگین ہے وہ بیالیس کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا اس کے آس پا س دو لت کے انبار لگے ہوئے تھے اس نے قدیم روسی رئیسوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے پرورش پائی لیکن اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ اپنی تمام زمین سے دستبردار ہوگیا۔ اس نے تمام دنیوی سازوسامان بانٹ دیا اور روس کے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر وفات پائی۔ مالی اعتبار سے یہ ایک غریب شخص کی موت تھی جسے چاروں طرف سے عقیدت مند کسانوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔

نوجوانی میں وہ بہت خوش لباس تھا وہ بڑی نزاکت سے زمین پر جچے تلے قدم رکھتا اور ماسکو کے اچھے سے اچھے درزیوں کی دکانوں کا طواف کرتا رہتا لیکن زندگی کے آخری حصے میں وہ روسی کسانوں کی طرح انتہائی سستا لباس پہنتا اپنے جوتے خود اپنے ہاتھوں سے بناتا اپنا بستر خود لگاتا کمرہ خود صاف کرتا اور لکڑی کی ایک بوسیدہ سی میز کرسی پر بیٹھ کر لکڑی کے چمچے سے انتہائی سادہ اور سستی غذا کھاتا۔ نوجوانی میں خود اس کے الفاظ میں وہ ’’ایک گندی اور ناپاک زندگی ‘‘ بسر کرتا تھا شراب پیتا لوگوں سے لڑائیاں مول لیتا اور ہر اس جرم کا ارتکاب کرتا جس کاذہن تصور کرسکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ٹالسٹائی کی زندگی ایک بہت المیہ تھی اور اس المیے کی سب سے بڑی وجہ اس کی ازدواجی زندگی تھی اس کی بیوی عیش و آرام کی دلدادہ تھی اور ٹالسٹائی کو ان چیزوں سے سخت نفرت تھی وہ شہرت اور وقار کی بھوکی تھی اور ٹالسٹائی ان باتوں کو کوئی وقعت نہیں دیتا تھا جب کہ اسے دولت سے محبت تھی اور ٹالسٹائی کا نظریہ تھا کہ دولت اکٹھی کرنا اور ذاتی جائیداد رکھنا بہت بڑا گناہ ہے اور یہ کہ صرف محبت سے ہی لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔

کئی برس تک وہ اسے گالیوں ، بدعائوں اور طعنوں کا شکار بناتی رہی اور خود ٹالسٹائی کے الفاظ میں اس نے گھر کو جہنم کا نمونہ بنا دیا اس سارے فساد کی جڑ یہ تھی کہ ٹالسٹائی اس بات پر مصر تھا کہ وہ کوئی معاوضہ لیے بغیر روسی عوام کے لیے کتابیں لکھتا رہے گا آخر کار جب وہ بیاسی برس کا ہوا تو اس میں اتنی ہمت نہ رہی کہ اپنے ناخوشگوار گھریلو حالات کا مزید مقابلہ کر سکے چنانچہ 21 اکتوبر 1910 کی ایک تاریک اور خنک رات کو گھر سے نکل گیا یہ جانے بغیر کہ اس کی منزل کونسی ہے گیارہ روز بعد وہ نمونیے کا شکار ہوکر یہ کہتا ہوا ایک ریلوے اسٹیشن پر انتقال کر گیا کہ ’’ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے ‘‘ اس کے آخری الفاظ یہ تھے ’’جستجو مسلسل جستجو ۔‘‘

ادب جدید کا رہبر میکسم گورکی کہتا ہے کہ ’’ ادب انسانیت کا نقاد ہے وہ اس کی کج روی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی مکاریوں کو بے نقاب کرتا ہے اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے انسان کی حیات مستعار کو دائم و قائم بنائے ادب کی بے کلی اور تڑپ اس لیے ہے کہ آدمی کو سمجھائے کہ وہ حالات کا غلام نہیں ہے بلکہ حالات اس کے غلام ہیں۔ وہ آدمی کو بتلانا چاہتا ہے کہ وہ آپ اپنی زندگی کا مالک ہے اور اسے جس روش پر چاہے لے جا سکتا ہے اس لحاظ سے ادب تغیر پسند، قدامت شکن اور دور جدید کا پیش رو ہے۔‘‘

ادب زندگی کے اس سوال کا جواب ہے کہ انسان کس سے محبت اور کس سے نفرت کرے اور کس طرح زندہ رہے۔ ریاست کسی فرد یا طبقہ کا نام نہیں ہے ریاست کا وجود عوام سے عبارت ہے اور ہر سچا اورترقی پسند ادیب اپنے عوام کا وفادار ہوتاہے اور اپنی فنی صلاحیتوں سے انھیں زندگی اورترقی کی جدوجہد میں مدد دیتا ہے ۔ ہمارے عوام اس وقت غیر منظم ہیں کم تعلیم یافتہ ہیں انھیں یہ معلوم ہے کہ رجعتی مضبوط اور طاقتور ہیں اور انھوں نے عوام کو گمراہ کر نے کے لیے لاتعداد ذہنوں کو خرید رکھا ہے جس نظام میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں وہ گل سڑ چکا ہے۔ اب اس کی طبعی عمر بھی ختم ہو چکی ہے کیونکہ یہ نئے زمانے کے نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کی اہلیت سے محروم ہے آج عوام کی جنگ آزادی ایسے دور میں داخل ہوئی ہے جب طبقاتی کشمکش بڑھ رہی ہے۔

لوٹنے اور لٹنے والے بہت واضح طور پر ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہو رہے ہیں۔ مرتا ہوا طبقاتی اور عدم مساوات کا نظام بڑھتے ہوئے انقلابی دھارے کو روکنا چاہتا ہے رجعتی طبقہ مختلف نظریات کے ذریعے عوام کے شعور اور عمل کو مفلوج کرنے کی کوشش کررہاہے تعلیم اور پرچار کے اکثر ذرایع اس کے ہاتھ میں ہیں وہ مخصوص اخبارات اور مخصوص ٹی وی چینلز کے ذریعے مسلسل زہریلا پرچار کررہا ہے رجعتی نظریات کے خلاف جدوجہد ترقی پسند ادیبوں کا بہت بڑا فرض ہے۔ ہمیں ان تمام عناصر کے خلاف جم کر جنگ کرنی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے تعصب، نفرت ، انتہا پسند نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔

فوچک ، چیکو سلواکیا کی کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر اورایک ترقی پسند ادیب تھا جب جرمنوں نے چیکو سلواکیہ پر قبضہ کیا اور پارٹی غیر قانونی ہوگئی تب اس نے بڑے مشکل حالات میں پارٹی کے غیر قانونی پوشیدہ مرکز قائم کرنے اورغیر قانونی مرکزی اخبار نکالنے کے کام میں حصہ لیا لیکن جرمن نازی اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بے حد جسمانی اذیت کے بعد بالآخر انھوں نے اسے قتل کر ڈالا فوچک نے اپنی گرفتاری کے ایام میں یہ مضامین لکھے جو چیک قوم کے جیل کا نگراں محفوظ کرتا رہا،جب چیکو سلواکیہ آزاد ہوا تو ان مضامین کو اس کی بیوی نے کتابی شکل میں شایع کردیا۔

فوچک نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ’’ میں نے اپنی زندگی کی فلم کو سیکڑوں بار دیکھ لیا ہے میں اس کی ہزاروں تفصیلوں سے واقف ہوں اب میں اسے لکھ ڈالنے کوشش کرتا ہوں چاہے جلاد کی پھانسی کا پھندہ کتاب ختم کر نے سے پہلے ہی میر ا گلا گھونٹ دے پھر بھی لاکھوں ، کروڑوں انسان اس کاخوش آیند انجام دیکھنے کے لیے باقی رہ جائیں گے ‘‘ ایک انسان اور ایک ادب کے فرائض و مقاصد یکساں اور مشترک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اپنے ماحول کی ترجمانی کرتا ہے اور دوسرا اس سے متاثر ہوتا ہے، استحصال اور عدم مساوات کے خلاف ہمارے عوام کی جیت یقینی ہے، بس ہم سب کو اپنی جدوجہد اور تیز کرنا پڑے گی کیونکہ ہمارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں اور جیتنے کو ایک دنیا پڑی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔