این اے118، نادرا کی جانب سے سربمہر تھیلے کھول کر ووٹوں سے بھرنے کا انکشاف

عارف رانا  ہفتہ 7 جون 2014
22 اور 26 مئی کو اس خفیہ کارروائی کیلئے نادرا آفس کے مخصوص حصے کے سی سی ٹی وی کیمرے بھی بند کیے گئے، رائے نہیں دے سکتا، ترجمان نادرا  فوٹو: فائل

22 اور 26 مئی کو اس خفیہ کارروائی کیلئے نادرا آفس کے مخصوص حصے کے سی سی ٹی وی کیمرے بھی بند کیے گئے، رائے نہیں دے سکتا، ترجمان نادرا فوٹو: فائل

اسلام آباد: این اے 118 لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کی کامیابی کو قانونی جواز دینے کیلیے نادرا کی طرف سے حلقے کے ووٹوں کے درجنوں سربمہر تھیلے کھولے جانے۔

ان میں مزید ووٹ ڈال کر دوبارہ سربمہر کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، ترجمان نادرا نے اس رپورٹ کا انکار کیا نہ اقرار بلکہ صرف یہ کہنا ہے کہ معاملہ الیکشن ٹربیونل میں ہے، رائے نہیں دے سکتا۔ مئی 2013 کے عام انتخابات میں این اے118 سے مسلم لیگ(ن) کے ملک ریاض کامیاب ہوئے تھے مگر تحریک انصاف کے امیدوار حامد زمان نے ن لیگی امیدوار کی کامیابی کو چیلنج کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل میں رٹ دائر کردی تھی۔ این اے 118 ان چار حلقوں میں شامل ہے۔

جن کے نتائج کیخلاف تحریک انصاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کررہی ہے۔ الیکشن ٹربیونل نے این اے 118 کے ووٹوں کی انگوٹھوں کے نشانات سے تصدیق کیلئے ووٹوں کے تھیلے نادرا آفس بھجوائے تھے ، انتہائی ذمے دار ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایا کہ قائم مقام چیئرمین نادرا امتیاز تاجور، ڈی جی فنگر پرنٹ ویریفکیشن یونٹ کرنل خالد منظور خٹک اور فنگر پرنٹ ویریفکیشن یونٹ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر مظفر پر مشتمل گروہ نے این اے 118 کے ووٹوں کے سربمہر تھیلے کھولے اور ان میں مزید ووٹ ڈالے تاکہ ووٹوں کی تعداد کو نوٹیفائی تعداد کے برابر کیا جاسکے۔

دو روز میں اس سارے عمل کے بعد تھیلے دوبارہ سربمہر کردیئے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس گروہ نے تھیلے کھولنے کا غیرقانونی کام 22 مئی اور 26 مئی کو کیا۔ آدھا کام 22 مئی اور باقی آدھا چند دنوں کے وقفے سے 26 مئی کو کیا گیا۔ گروہ نے معاملے کی نزاکت کے پیش نظر بہت سی احتیاطی تدابیر بھی اختیار کیں اور تھیلے کھولنے، ان میں ووٹ ڈالنے اور دوبارہ سربمہر کرنے کا عمل انتہائی خفیہ رکھا۔ اس کے علاوہ 22 مئی اور 26 مئی کو نادرا آفس کے اس حصہ میں جہاں ووٹ اسٹور کیے گئے ہیں، کے سی سی ٹی وی کیمرے بند کیے گئے۔ مزیدبرآں اس کام کیلئے دفتر کے جس حصے کا انتخاب کیا گیا، اسے دفتر کے دیگر اعلیٰ حکام کیلیے بھی ’’نو گو ایریا‘‘ بنا دیا گیا۔

اس غیرقانونی عمل کے دو واضح مقاصد ہیں، پہلا یہ کہ جسٹس (ر) منیر مغل کی رپورٹ کوغلط ثابت کیا جائے، دوسرا بعد کے مراحل میں تحریک انصاف کے عام انتخابات میں دھاندلی کے دعوے کو جھٹلایا جاسکے۔نادرا میں ووٹوں کے اس تصدیقی عمل کے دوران پی ٹی آئی کے امیدوار حامد زمان کے نمائندے جسٹس (ر) منیر مغل تھے ،جو پہلے ہی اپنی رپورٹ میں کہہ چکے ہیں کہ اس حلقے کے نتائج میں ردوبدل کیاگیا ہے۔ این اے 118 میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا چیئرمین طارق ملک کو ہٹائے جانے سے براہ راست تعلق ہے۔ چیئرمین طارق ملک نے کیس کے ابتدائی مراحل میں کہا تھا کہ نادرا انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس بیان کے بعد طارق ملک کو لاہور بلایا گیا اور کہا گیا کہ بیان واپس لیں، انکار پر انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا، عدالت نے انھیں بحال کردیا مگر دباؤ کے باعث انھوں نے استعفیٰ دیدیا، انھیں خاندان کے اغوا کی دھمکی بھی دی گئی، استعفیٰ کے فوری بعد وہ بیرون ملک چلے گئے۔اس خبر کے حوالے سے نادرا کا موقف جاننے کیلیے قائم مقام چیئرمین سے ان کے موبائل فون اور دفتر کے نمبر پر رابطے کی بار بارکوشش کی گئی مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ بعدازاں اس اسٹوری کے حوالے بھجوائے جانیوالے طویل سوالنامے کے جواب میں ترجمان نادرا فائق علی نہ سے قبول کیا اور نہ ہی اسے مسترد کیا بلکہ انکی کی طرف سے صرف ایک سطرکا جواب دیا گیا کہ یہ معاملہ الیکشن ٹربیونل میں ہے، اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔سوالنامے میں پوچھا گیا تھا کہ جسٹس (ر) منیر کی رپورٹ کے مطابق این اے 118 میں ووٹوں کے جعلی تھیلے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عام انتخابات میں اس حلقے میں جعلی ووٹ ڈالے گئے۔

اس پر نادرا کا کیا موقف ہے؟ مزید پوچھا گیا تھا کہ ذرائع کے مطابق جسٹس(ر) منیر کی رپورٹ کے بعد مئی کے آخری ہفتے میں نادرا کے اعلیٰ حکام نے این اے 118 کے ووٹوں کے6 درجن سے زائد سربمہر تھیلے کھولے، جعلی ووٹ بھرے اور دوبارہ سربمہر کردیے۔ ذرائع کے مطابق نادرا حکام نے اس غیرقانونی عمل کے دوران نادرا آفس کے سی سی ٹی وی کیمرے بھی بند کردیے، یہ غیرقانونی عمل جسٹس(ر) منیر کی رپورٹ غلط ثابت کرنے اور تحریک انصاف کے امیدوار حامد زمان کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کیلیے کیا گیا، این اے 118 کا نتیجہ غیرقانونی طور پر بدلنے پر قائم مقام چیئرمین نادرا کا کیا موقف ہے؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔