انتہا پسند بھارتی کابینہ

عبید اللہ عابد  اتوار 8 جون 2014
بھارتی قوم کے باپو گاندھی جی اور لاکھوں مسلمانوں کی قاتل جماعت کی حکمرانی میں ملک کا اصل دارالحکومت ناگپور ہوگا؟۔ فوٹو: فائل

بھارتی قوم کے باپو گاندھی جی اور لاکھوں مسلمانوں کی قاتل جماعت کی حکمرانی میں ملک کا اصل دارالحکومت ناگپور ہوگا؟۔ فوٹو: فائل

گزشتہ برس ستمبر میں جب نیویارک میں (جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر) پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ملاقات ہوناتھی، نریندرمودی نے من موہن سنگھ کو طعنہ دیاتھا: ’’ ہمیں شک ہے کہ جب آپ( من موہن سنگھ) نوازشریف سے ملیں گے تو آپ ان سے یہ نہیں پوچھ پائیں گے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر ہمیں کب واپس ملے گا اور یہ کہ آپ کچھ اور لائیں یانہ لائیں، ان جوانوں کے سرضرور لے آئیے گا جو پاکستانی فوجی کاٹ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے‘‘۔

اس وقت بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مودی ایسی جوشیلی باتیں صرف اپوزیشن میں رہ کر ہی کرسکتے ہیں، جب وہ خودمسنداقتدارپر بیٹھیں گے تو انھیں حقائق کی دنیا میں سفرکرنا پڑے گا، پھر ایسا جوش نظرنہیں آئے گا۔ یہ خیال گزشتہ ہفتے اس وقت غلط ثابت ہوا جب نریندرمودی نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اورپاکستانی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی، تب وہ ایک سخت گیر حکمران کے طورپر دیکھنے کو ملے۔ یہ وہی مودی نکلے جو لڑکپن سے آج تک ہندوتوا کا پرچم بلندکئے پھرتے ہیں، وہ نہ صرف بھارت کو ایک ہندومملکت کے روپ میں دیکھناچاہتے ہیں بلکہ اردگرد کے ممالک میں بھی ہندوتوا کا پرچم لہرا کر اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرناچاہتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح صہیونی گریٹراسرائیل کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

مودی کس قسم کی ہندومملکت اور اکھنڈ بھارت بناناچاہتے ہیں؟ دنیا نے اس کا ایک منظر اس روز دیکھ لیاجب مودی حلف اٹھارہے تھے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ ہی کی بیان کردہ کہانی کے مطابق تقریب حلف برداری کے دن بھارت کے مختلف حصوں میں انتہاپسند ہندئوں نے مسلمانوں سے شدیدنفرت کا اظہارکیا اور انھیں مختلف اندازمیں ہراساں کیا۔ برقعہ پوش مسلمان خواتین پر گلال پھینکنے اور پتھرمارنے کے واقعات رونما ہوئے۔ شدت پسند ہندئوں نے مسلمان کسانوں کی سبزیوں کے کھیت اور پھلوں کے باغات کو بھی نقصان پہنچایا۔ ایک ستم کے بعد دوسرا ستم یہ ہوا کہ فسادات کے بعد گرفتاریوں کا مرحلہ شروع ہواتو پولیس نے زیادہ تر مسلمانوں ہی کو گرفتارکرلیاگیا۔

بھارتیہ جنتاپارٹی نے انتخابی مہم کے دوران اپنے امیدوار برائے وزیراعظم نریندرمودی کو ’’ مین آف ڈیویلپنگ انڈیا‘‘ کے طورپر پیش کیا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران مودی نے کمال ہوشیاری سے اپنی قوم کے ہرفرد اور ہرطبقہ سے اس کے ذہن میں موجود توقعات کے مطابق بات کی اور اس کا ووٹ حاصل کیا۔ گویا انھوں نے کہاکہ ایک بار حکومت میں آنے دیں ، پھر ہرایک کا مسئلہ ہوگا چٹکیوں میں حل۔ اب ان کے سامنے مہنگائی، بے روزگاری، بدعنوانی، کسانوں کی بدحالی، خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں بلندترین اضافہ، توانائی کے مسائل، صحت عامہ اور امن وامان سمیت بے شمارداخلی اور خارجی مسائل ہیں جنھیں حل نہ کرنے پر قوم نے کانگریس حکومت کو کوڑے دان میں ڈال دیا، اب ایک طرف یہ سنگین مسائل اور دوسری طرف ہندوتوا کا ایجنڈا۔

مودی مشکل میں ہیں، قوم کی دشمنی بھی اچھی نہیں اور آرایس آیس کو بھی ناراض کرناممکن نہیں جو اکھنڈ بھارت کی علمبردار ہے اور مودی جس کے کارکن رہے ہیں۔ مودی بظاہر راشڑیہ سوایمسیوک سنگھ(آر ایس ایس) اور قوم کے سامنے پراعتماد نظرآنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ سب کچھ بیک وقت کرسکیں گے؟ کیا وہ بھارتی مسلمانوں، پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف آرایس ایس کا جنگجویانہ ایجنڈا لے کراپنے عوام کو خوشحالی دے سکیں گے؟

جہاں تک پاکستان سے متعلق سوال ہے ، اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں نریندرمودی کے پہلے اور دوسرے دن کی سرگرمیوں کا مطالعہ کرناہوگا۔ان میں پاکستان کے لئے ایک خاص پیغام تھا، جس کا ایک اظہار نئی بھارتی کابینہ کی تشکیل سے ہورہاہے اور دوسرا اظہار وزیراعظم نوازشریف اور مودی ملاقات کے دوران کیاگیاجہاں مودی نے اپنے پانچ مطالبات پاکستانی وزیراعظم کے سامنے رکھے جبکہ پاکستانی وزیراعظم نے بھارتی ہم منصب کو بھرپورعوامی مینڈیٹ کا واسطہ دیتے ہوئے امن کی دہائی دی کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے خدشات دور کرنے چاہیں ، دونوں حکومت نے نئے دور کا آغاز کیاہے ، مضبوط مینڈیٹ ملاہے ، عوام کی توقعات پر پورا اترناچاہیے ، غربت اور ناخواندگی پر توجہ دیں ،ہماری ترجیح عوام کی خدمت ہونی چاہیے۔

میاں نوازشریف نے انھیں سمجھایا کہ تصادم کی راہ چھوڑکر تعاون کی راہ اختیار کریں۔ تاہم بھارتی وزیراعظم کو یہ بات سمجھ نہیں آئی اور وہ پہلے دن پاکستان کو دبائو میں لانے کی حکمت عملی پر اڑے رہے۔ وہ ایسا کیوں نہ کریں، آرایس ایس کا دبائوبہت سخت ہے۔ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد اب پوری دنیا کی نظریں ان کے انداز کارکردگی پر ٹکی ہیں۔کیا واقعی اب بھارتی حکومت ناگپورسے چلائی جائے گی؟ اگرمودی کابینہ کا جائزہ لیاجائے تو وزرا کی اکثریت آرایس ایس ہی کی تربیت یافتہ ہے، بعض لڑکپن ہی سے اس انتہاپسند تنظیم میں شامل ہوگئے تھے اور بعض جوانی میں اس سے جڑے۔ ایسے میں اندازہ لگانامشکل نہیں کہ یہ وزرا بھارت کے اندرمسلمانوں سمیت تمام اقلیتیوں سے کس طرزعمل کا مظاہرہ کریں گے اور پاکستان کے بارے میں ان کا رویہ کیساہوگا؟

اب وزیراعظم نریندر دامودر داس مودی ہی کو لیجئے، موصوف متنازع شخصیت کے مالک ہیں، ان کے مخالفین انھیں فسادی قراردیتے ہیں۔ ایک غریب خاندان میں جنم لینے والے مودی کو بچپن میں سنیاسی بننے کا خیال آتا تھا، 17 سال کی عمر میں جشودا بین سے ان کی شادی ہوئی لیکن دونوں کبھی ساتھ نہیں رہے۔ جوانی ہی میں ہندو انتہاپسند تنظیم ’آر ایس ایس‘ میں شمولیت اختیار کر لی اور 70ء کی دہائی سے ہندو پرچارک یا مبلغ کے طور پرکام کرنے لگے ۔1991ء میں جب رام مندر کی تعمیر کے لیے مسٹر اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا نکالی تھی تو اس کا انتظام نریندر مودی ہی کے پاس تھا۔

مودی وزیر اعلیٰ گجرات بنے تو چند ہی مہینوں بعدگجرات میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جوبعدمیں مودی کے گلے کی ہڈی بنے۔ فسادات میں دوہزار مسلمان شہیدہوئے، مسٹر مودی نے فسادات روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ نتیجتاً اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی مسٹر مودی سے استعفیٰ مانگ رہے تھے لیکن ایل کے اڈوانی نے ان کی کرسی بچائی۔ اسی سبب امریکہ نے انھیں ہمیشہ ویزا جاری کرنے سے انکار کیا۔ حال ہی میں پاکستان میں  بھارت کے سابق ہائی کمشنرمانی شنکر آئر نے ایک مضمون میں نریندر مودی کا موازنہ ہٹلر کے ساتھ کیا ہے اور کہا ہے کہ جس طرح ہٹلر انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے آیا تھا اسی طرح نریندر مودی بھی انتخابات میں کامیاب ہوکر ابھرے ہیں۔

مودی کابینہ میں وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ بھارتیہ جنتاپارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کے پیش رو نیتن گڈکری پر کرپشن کے الزامات تھے جن کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبورہوئے۔ کسان گھرانے میں پیدا ہونے والے فزکس کے لیکچرر، 13برس کی عمر میں ہی آرایس ایس سے جڑ گئے اورطویل عرصہ تک تعلق نبھایا۔ واجپائی کابینہ میں وزیرزراعت بھی رہے۔اترپردیش کے وزیراعلیٰ بھی رہے لیکن محض ایک سال اور پانچ ماہ۔ راج ناتھ سنگھ ان لوگوں میں شامل ہیں جو بابری مسجد کو رام مندر بنانے کے ایشوپر کسی قسم کی لچک دکھانے کے روادارنہیں۔ اسی طرح راج ناتھ انگریزی زبان کے سخت خلاف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس زبان نے بھارتی قوم کی اقدارکو نقصان پہنچایا ہے۔

نیتن گڈکری کو ہٹایا گیا تو آر ایس ایس نے راج ناتھ کو پارٹی صدارت کے لئے بہترین انتخاب قراردیا۔ راج ناتھ کی زبان پر اکثر یہی بیان جاری رہتاہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرارہی ہے۔ گزشتہ کانگریسی حکومت کے دوران وہ بیان دیتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے مسئلہ پرپاکستان سے سخت احتجاج کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ من موہن سنگھ حکومت پر دہشت گردی کے معاملے میں نرم رویہ رکھنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

حالیہ انتخابی مہم میں انھوں نے کہاتھاکہ ان کی پارٹی اقتدارمیں آکر چین کی توسیع پسندی کو برداشت کرے گی نہ ہی پاکستان کی طرف سے دراندازی کو۔ ان کے بقول ’’چین باقاعدگی سے ہماری سرزمین پر اپنے فوجی بھیج رہاہے، اور ہمیشہ ہمارے فوجی ان سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتے ہیں کہ وہ واپس چلے جائیں۔ پاکستان بھی دہشت گرد دراندازوں کی مدد کرتاہے، حتیٰ کہ پاکستانی فوجی بارڈر کراس کرتے ہیں، ہمارے فوجیوں کے سرکاٹ کراپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ تاثر پیدا کیاجاتاہے کہ ہمارے فوجی کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں‘‘۔

نئی وزیرخارجہ سشما سوراج آر ایس ایس کے ایک نمایاں رہنما کی بیٹی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد( آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم) سے وابستہ ہوگئیں۔ یہ طلبہ تنظیم پرتشدد کارروائیوں پر یقین رکھتی ہے۔ سشما سوراج سات بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں، محض پچیس برس کی عمر میں ہریانہ کی ریاستی حکومت کی سب سے کم عمر وزیربننے کا اعزازحاصل کرچکی ہیں، دہلی کی وزیراعلیٰ بھی رہی ہیں۔ کسی نے اینٹ ماری ہو یا نہ ماری ہو لیکن سشما سوراج اسے پتھر سے جواب دینے پر یقین رکھتی ہیں۔

جنوری2013ء میں بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پاکستانی فوجی کنٹرول لائن پار کرکے آئے اور ہیم راج نامی ایک بھارتی فوجی کا سرکاٹ کر لے گئے اور پھر واپس بھی نہیں کررہے ۔ اس پر سشماسوراج دھاڑیں کہ ہیم راج کے بدلے دس پاکستانی فوجیوں کے سرکاٹ کے لائے جائیں۔وہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف ’’جرات مندانہ‘‘ فیصلے کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

نئے وزیردفاع و خزانہ و کارپوریٹ افئیرز ارون جیٹلی بھی زمانہ طالب علمی میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد( آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم) سے وابستہ رہے۔ من موہن سنگھ کے دورمیں پاکستان اور بھارت کے مابین جیسے بھی مذاکرات ہورہے تھے، ارون جیٹلی اور ان جیسے دوسرے لوگ اس پر بھی تلملارہے تھے، ان کاکہناتھا کہ وہ اقتدارمیں آکرمذاکراتی عمل پر نظرثانی کریں گے۔ وہ بطوراپوزیشن رہنما حکومت پر زوردیاکرتے تھے کہ وہ پاکستان سے خالی خولی لفظوں کے احتجاج کے بجائے اس پر حملہ کرے۔ وہ حکومت سے کہاکرتے تھے کہ پاکستان کے خلاف تمام آپشنز کھلے رکھے اور اپنی ریڈلائنز کھینچے۔

اربن ڈویلپمنٹ اور پارلیمانی امور کے وزیر وینکیا نائیڈو 2002ء سے2004ء تک بی جے پی کے سربراہ رہے ہیں، واجپائی حکومت میں وہ رورل ڈویلپمنٹ کے وزیررہے ہیں۔ بچپن ہی سے انتہاپسند ہندوتنظیم آر ایس ایس سے منسلک ہوگئے، زمانہ طالب علمی میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد( آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم) سے وابستہ رہے، جب بی جے پی میں شامل ہوئے تو ان کی پہچان ہروقت لڑنے مرنے پرتیارشخص کی سی تھی۔ اب وہ پارٹی کے اندر تمام حلقوں کے لئے ایک قابل قبول شخصیت بن چکے ہیں۔ گزشتہ سال جب ایڈوانی اور مودی کے درمیان کشمکش پیداہوئی تو انھوں نے مصالحت کاری کی ذمہ داری کامیابی سے سرانجام دی۔ یہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کاچہرہ پاکستان کا نام سنتے ہی سرخ ہوجاتاہے۔مذاکرات کے مخالف اور پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے ہرلمحہ اصرارکرنے والی شخصیت۔

روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز، شپنگ کے وزیرنیتن گڈکری بی جے پی کے سربراہ بھی رہے ہیں،متوسط طبقہ کے ہندوبرہمن خاندان کے ہاں پیداہوئے، لڑکپن میں بی جے پی کی لڑکوں کے لئے ذیلی تنظیم ’بھارتیہ جنتا یووا مورچا‘ سے منسلک ہوئے، بعدازاں آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد میں شامل ہوگئے۔ وہ پاکستان کے بارے میں اکثرسخت ترین بیانات دیتے رہے ہیں، چندروز پہلے وزیربننے کے بعد بھی حسب عادت ایک بیان جاری کیاکہ ہمیں کانگریس نہ سمجھنا، ہم بہت سخت طریقے سے نمٹیں گے۔ وہ دسمبر2010ء میں اسرائیل کا چھ روزہ دورہ بھی کرچکے ہیں۔ یادرہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا میں اسرائیل کے بہترین دوستوں میں پہلے نمبر پرہے۔ بی جے پی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہترسے بہترین کرناچاہتی ہے۔

اومابھارتی وشواہندوپریشد کی ’رام جنم بھومی موومنٹ‘ کا فعال حصہ رہی ہیں، اسی تحریک نے بابری مسجد شہید کی اور رام مندرکی تعمیرکابیڑہ اٹھارکھاہے۔ بابری مسجد کی شہادت میں باقاعدہ پورا حصہ لیا، بعدازاں لبراہن کمیشن نے ان کے کردار کی تصدیق بھی کی۔ انتہائی غریب کسان خاندان میں پیداہونے والی اوما نے سکول میں صرف چھٹی کلاس تک پڑھالیکن پھر ہندومت کی مذہبی تعلیم حاصل کرنے میں جت گئیں۔ بابری مسجد کی شہادت کی مہم میں اومابھارتی کی اشتعال انگیز تقریروں نے خوب آگ لگائی۔ اگرچہ کمیشن نے انھیں مجرم قراردیاتاہم وہ ایک طرف کہتی رہیں کہ انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن دوسری طرف کہتی تھیں کہ انھوں نے جو بھی کیا، اس پر انھیں کوئی شرمندگی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بابری مسجد کی شہادت کی اخلاقی طورپر ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔ ان کاکہناہے کہ میں ہرقسم کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہوں، حتیٰ کہ جیل جانے کے لئے بھی تیار۔ ایک بیان میں اوما نے تسلیم کیا کہ بی جے پی نے اس واقعے سے سیاسی فائدے اٹھائے۔1994ء میں ہبلی فسادات میں اوما ملوث پائی گئیں، نتیجتاً ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے، یوں انھیں مدھیہ پردیش کی وزرات اعلیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے بھارتیہ جن شکتی پارٹی کے نام سے نئی جماعت قائم کرلی، انھوں نے اعلان کیاکہ وہ آر ایس ایس کے نظریات پر پارٹی کو چلائیں گی۔تاہم ان کی سیاسی دکان نہ چل سکی۔تین برس قبل وہ لوٹ کر بی جے پی میں آگئیں۔

گوپی ناتھ پنڈرانگ مونڈی دیہاتی ترقی کے وزیر ہیں، ان صاحب نے بھی آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشدمیں ایک طویل عرصہ گزارا۔ انھیں انتہاپسندتنظیم میں شامل کرانے والے پرامود مہاجن تھے جو بذات خود شدت پسند ہندونوجوان تھے۔بعدازاں گوپی ناتھ آر ایس ایس کے اندر اس قدرنمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ انھیں پونا میں آرایس ایس کے ٹریننگ کیمپ کا انچارج بنادیاگیا۔ بعدازاں وہ ریاستی سے مرکزی سطح تک آرایس ایس اور پھر بی جے پی میں اہم عہدوں پر کام کرتے رہے۔

اننتھ کمارجنھیں کیمیکلز اینڈ فرٹیلائزرز کی وزارت ملی ہے، بھی آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد میں پلے بڑھے ہیں۔ ایک ریاست کے سیکرٹری جنرل سے لے کر مرکزی جنرل سیکرٹری تک کے عہدے ان کے پاس رہے ہیں۔ بعدازاں بی جے پی میں شامل ہوئے اور یہاں بھی مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ عام آدمی پارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق موصوف ملک میں چوٹی کے 25کرپٹ سیاست دانوںمیں سے ایک ہیں۔

وزیرقانون و انصاف روی شنکر پرشاد کے والد ٹھاکر پرشاد انتہاپسند ہندو ایڈووکیٹ تھے، وہ جن سنگھ( اب بی جے پی) کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ باپ نے بیٹے کی تربیت اسی اندازمیں کی، بیٹابھی آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد میں رہا۔ بعدازاں آر ایس ایس اورپھر بی جے پی میں پہنچ گیا۔ روی شنکرنے بابری مسجد کو شہیدکرنے والے انتہاپسندہندئوں سمیت مختلف مسلم کش فسادات میں ملوث شدت پسند ہندوئوں کے مقدمات لڑنے میں خوب ’’نام‘‘ کمایاہے۔

ہیوی انڈسٹریز اینڈ پبلک انٹرپرائزز کی وزارت بدنام زمانہ ہندوانتہاپسند تنظیم ’ شیوسینا‘ کے اننت گیتی کوملی ہے۔ نریندرسنگھ تومار کے حصے میں منسٹری آف مائنز، سٹیل، لیبراینڈ ایمپلائمنٹ آئی، ان صاحب کوبھی کابینہ میں شامل کرنے کے لئے آرایس ایس نے ایڑی چوٹی کا زورلگایا۔ ہرش وردھان صحت اور خاندانی بہبود کے وزیر ہیں،لڑکپن ہی سے آرایس ایس سے منسلک ہوئے اور پھر ساراکچھ اسی تنظیم کے لئے قربان کردیا ۔

جس آرایس ایس کے یہ لوگ تربیت یافتہ ہیں، اسی کے ایک سرگرم کارکن نتھورام گوڈسے نے بھارتی قوم کے باپو گاندھی کو قتل کیاتھا۔ اسے گاندھی جی پر غصہ تھا کہ انھوں نے قیام پاکستان کوتسلیم کرلیاتھا اور پاکستان کے حصے کے مالی وسائل روکنے پر احتجاج کیا تھا۔ آرایس ایس کی اولاد بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ہندو ازم سے اتنی محبت نہیں جتنی اسلام سے نفرت ہے۔ بی جے پی ہندوئوں کی دوست کم اور مسلمانوں کی دشمن زیادہ ہے۔اس کے نزدیک گائے کا ذبیحہ غلط لیکن مسلمانوں کا قتل عام سب سے اچھا کام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اِدھر مودی نے حلف اٹھایا ، اُدھر ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوگئیں، اِدھرمودی سرکار نے کام شروع کیا، اُدھر بھارت میں اذان فجر پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیاجانے لگا۔ عین اس روز جب پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف بھارت میں مہمان کے طورپر موجود تھے ، بھارتی انتہا پسند تنظیم شیوسینا کا سربراہ ادھو ٹھاکرے مطالبہ کررہاتھاکہ نریندرمودی کوپاکستان پر ایٹم بم چلا دینا چاہیے۔

مودی سرکارکی یہ ابتداء ہے، آنے والے دن کیسے ہوں گے، اندازہ کرنازیادہ مشکل نہیں۔ ظاہرہے کہ نریندرمودی حکومت مثبت اندازاختیارکرنے کی توقع کرنا خاصا مشکل ہے ۔کیونکہ اس حکومت کو لانے میں سنگھ پریوار کی کوششوں کا بڑا دخل ہے، یہ پہلا الیکشن تھا جس میں آرایس ایس کی ہدایت پر اس کی ساری برادرتنظیمیں انتخابی مہم میں بی جے پی کی حمایت میںکود پڑیں۔ بی جے پی حکومت اپنی بھاری اکثریت کے بل بوتے پر سنگھ پریوار کے منصوبوں پر عمل کرسکتی ہے۔ مودی سنگھ پریوار کے پروردہ ہیں۔ یہ آرایس ایس ہی تھی جس نے انتخابات سے بہت پہلے مودی کو وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کردیاتھا، ایڈوانی سمیت بی جے پی کے متعدد ممتاز رہنما اس فیصلے پر دل گرفتہ تھے لیکن وہ آرایس ایس کے فیصلے سے اختلاف کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔

ایسے میں کیسے سوچاجاسکتاہے کہ مودی سرکار آرایس ایس کے ایجنڈے سے پیچھے ہٹ سکیں گے۔ ساری پالیسیاں آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹرز میں بنائی جائیں گی، بھارتی پارلیمنٹ صرف ان پالیسیوں پر مہر انگوٹھا لگائے گی۔ یہ بہت مشکل ہے کہ مودی آرایس ایس کی ان حرکتوں پر پابندی لگاسکیں جو بھارت میں نفرت اور فسادات کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اگرمودی نے ناگپور سے ملنے والی ہدایات پر عمل درآمد میں سستی کی یا پس وپیش سے کام لیاتو جس دھوم دھام سے انھیں مسنداقتدارپر بٹھایاگیاہے، اسی اندازمیں انھیں وزیراعظم ہائوس سے نکال باہرکیاجائے گا۔

مودی اور اسرائیل

اہم ترین خبر یہ بھی ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں غیرمعمولی تیزی سے آگے بڑھے گا۔ مودی جنوبی ایشیا میں اسرائیل کے بہترین دوست ہیں، وہ 13برس تک ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ رہے، ان کے دور میں اسرائیل نے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری گجرات میں کی۔اس سارے عرصہ میں گجراتی حکمران اسرائیل اور اسرائیلی حکمران گجرات کے دورے کرتے اور تجارتی معاشی تعلقات مضبوط سے مضبوط ترکرتے رہے۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے تمام ریاستی حکمران اسرائیل سے خوب فوائدسمیٹ رہے ہیں۔ بی جے پی اور اسرائیل تعلقات ہی کا جائزہ لے لیاجائے تو اس کے لئے کئی ابواب لکھناپڑیں گے۔

اسرائیل کے ممبئی میں قونصل جنرل جوناتھن ملرکہتے ہیں کہ اسرائیل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبے میں کام کرنے کا اشتیاق رکھتاہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تعلقات بھی بڑھاناچاہتاہے۔ گزشتہ برس ٹوکیو(جاپان ) کے ایک آن لائن میگزین’دی ڈپلومیٹ‘ نے لکھاتھا کہ مودی وزیراعظم بن گئے تو بھارت اسرائیل تعلقات ڈرامائی طورپر مضبوط ہوں گے۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات 1992ء میں کانگریس دورحکومت میں قائم ہوئے تھے لیکن بی جے پی کے دورحکومت میں یہ خوب پھلے پھولے۔ ’’ڈپلومیٹ‘‘ کے مطابق اس عرصہ میں صرف دونوں ملکوں کے دوران صرف سیکورٹی پارٹرشپ ہی مضبوط نہیں ہوئی بلکہ مذہبی اور نظریاتی تعلقات بھی خوب مضبوط ہوئے۔

2003ء میں بی جے پی کے دورحکومت میں قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا نے واشنگٹن ڈی سی میں امریکن جیوش کمیونٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بھارت، اسرائیل اور امریکہ پر مشتمل ایک سہ فریقی اتحاد قائم کرنے پر زوردیا ’’جو مشترکہ طورپر آج کی بدہیئت دہشت گردی کا مقابلہ کرے، ایک ایسا اتحاد جس کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جرات مندانہ فیصلے کرنے کی اخلاقی برتری اور سیاسی عزم موجود ہو‘‘۔ بعدازاں اسی سال ایریل شیرون پہلے اسرائیلی وزیراعظم قرارپائے جنھوں نے بھارت کا سرکاری دورہ کیا۔ یادرہے کہ اس دورے پران کے خلاف بھارتی مسلمانوں اور بائیں بازو کے لوگوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔

مودی کے منظرنامہ پر ابھرنے سے بہت پہلے دائیں بازو کی ہندوقوم پرست شخصیات اسرائیل کی تعریف اور حمایت کرتی رہی ہیں۔ یہ ہمیشہ صہیونیت مخالف سرگرمیوں کی مذمت کرتے رہے اور قیام اسرائیل پرمہرتصدیق ثبت کی۔ اگرچہ بھارت سعودی عرب اور ایران کے تیل پر انحصارکرتاہے تاہم وہ اسرائیل کے ساتھ بڑے بڑے معاہدے بھی کرتارہا۔دونوں ملکوں کے درمیان10ارب ڈالرکے دفاعی معاہدے ہوچکے ہیں۔یادرہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ اسلحہ اسرائیل سے آرہاہے۔

مجرموں سے بھری پارلیمنٹ

بھارتی سول سوسائٹی کے ایک ادارے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے اراکین سے بھری ہوئی موجودہ پارلیمنٹ سب سے زیادہ کریمینل لوگوں پر مشتمل ہے۔ سن 2004ء کو منتخب ہونے والی پارلیمنٹ میں ایسے ارکان کی شرح 24فیصد تھی جن پر سنگین جرائم کے الزامات تھے، سن 2009ء کی پارلیمان میں ایسے لوگوں کی شرح30فیصد جبکہ سن 2014ء میں 34فیصد۔ 541رکنی پارلیمان میں ان کی تعداد 186ہے۔زیادہ ترمقدمات قتل، اغوا اور خواتین کے خلاف جرائم کے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے ٹکٹ پر جیت کر پارلیمان کا حصہ بننے والے 35فیصد ارکان پر سنگین مقدمات چل رہے ہیں۔

یادرہے کہ بی جے پی کے 281ارکان ہیں جن میں سے98 ارکان نے تسلیم کیاہے کہ ان پر سنگین مقدمات چل رہے ہیں۔ان میں سے 63ارکان انتہائی سنگین مقدمات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ معروف بھارتی اداکار اور کرپشن کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش عامرخان افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں کریمینل پس منظر کے حاملین کو اس لئے ٹکٹ دیتی ہیں کہ انھیں کسی بھی صورت میں پارلیمان میں سیٹیں حاصل کرناہوتی ہیں۔ پھر یہی لوگ پارلیمان میں بیٹھ کر ملک کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔

آر ایس ایس

بھارت کی دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس1925ء میں ناگپور میں قائم ہوئی، بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار تھا۔ یہ ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے۔ اس تنظیم کا اہم ترین مقصد بھارت کو ہندو مملکت بناناہے۔ بھارت میں برطانوی حکومت نے ایک بار، اور آزادی کے بعد حکومتِ ہند نے تین بار اس تنظیم کو ممنوع کر دیا۔

بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرت ہے۔1927ء کا ناگپور فساد اولین اور اہم ترین ہے۔ 1948ء میں اسی تنظیم کے ایک رکن نتھورام ونائک گوڑسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔1969ء میںاحمد آباد فساد ، 1971ئمیں تلشیری فساد اور1979ء میں بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں ملوث رہی۔6 دسمبر1992ء کو اسی تنظیم کے اراکین (کارسیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اسے شہیدکردیا۔ حکومتی کمیشنوں نے آر ایس ایس کو 1969ء کے احمدآباد فسادات،1971ء کے بھیونڈی فسادات،1971ء کے تلشیری فسادات،1979ء کے جمشیدپور فسادات، 1982ء کے کنیاکماری فسادات اور 1989ء کے بھاگلپور فسادات میں باقاعدہ ملوث قراردیا۔

آرایس ایس کی ہم خیال تنظیموں میںسنگھ پریوارشامل ہے۔ آر ایس ایس کے آدرشوں کے مطابق سرگرم تنظیموں کو عام طور پر ’سنگھ پریوار‘ کہتے ہیں۔آر ایس ایس کی دوسری ہم خیال تنظیموں میں وشوا ہندو پریشد ، ون بندھو پریشد ، راشٹریہ سیوکا سمیتی ، سیوا بھارتی ، اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد ، ونواسی کلیان آشرم ، بھارتی مزدور سنگھ ، ودیا بھارتی وغیرہ بھی ہیں۔مالیگاؤ بم دھماکہ،حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکہ،اجمیر بم دھماکہ،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ جیسی ملک دشمن سرگرمیوں میں سنگھ پریوار تنظیمیں ملوّث پائی گئی ہیں۔

جرائم پیشہ کروڑپتی وزیر

نئی کابینہ کے 91فیصد وزرا کروڑپتی ہیں۔ اوسطاً ایک وزیر کے پاس13.47کروڑ روپے ہیں۔ پانچ وزرا ایسے ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 30کروڑ سے زائد ہے۔ وزیردفاع ارون جیٹلی کے اثاثوں کی مالیت ہے113کروڑ روپے جبکہ ہرسمرات کور بادل 108کروڑ روپے مالیت کے اثاثے رکھتی ہیں۔ مونڈے،مانیکا گاندھی اورپیوش گوئل کے اثاثے30کروڑ روپے سے زیادہ ہیں۔

13وزرا ایسے ہیں جن پرکریمینل کیسز ہیں۔ان میں سے 8ایسے وزرا ہیں جو سنگین مقدمات میں ملوث ہیں مثلاً قتل، اغوا، فسادات اور بلوے، انتخابات میں فراڈ۔اوما بھارتی پر قتل کا مقدمہ ہے، اسی طرح وہ مذہبی بنیادپر فسادات اور بلوے کرانے میں ملوث پائی گئیں۔ اسی طرح ان پر انتخابی مہم دوران غیرقانونی رقوم بانٹنے کا بھی مقدمہ ہے۔ اوپندر کوشوانا اور رام ولاس پسوان پر رشوت لینے کے مقدمات ہیں۔گوپی ناتھ منڈے اغوا کے مقدمات میں ملوث ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔