چلیے! ماضی کے میدانوں میں

عتیق احمد عزمی  اتوار 8 جون 2014
موجودہ شکل میں کھیلی جانے والی فٹ بال باقاعدہ ایک سائنس کا درجہ حاصل کرچکی ہے،  فوٹو: فائل

موجودہ شکل میں کھیلی جانے والی فٹ بال باقاعدہ ایک سائنس کا درجہ حاصل کرچکی ہے، فوٹو: فائل

فٹ بال دنیا بھر کا ایک ایسا مقبول کھیل ہے جس کے چاہنے والے تقریباً دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے فٹ بال یا اس سے مشابہ کھیلوں کا ذکر قدیم یونانی تہذیب میں بھی ملتا ہے۔

مشہور ماہرِآثاریات اور کئی کتابوں کے مصنف اسٹیفن جی ملر نے اپنی کتاب ’’قدیم یونانی ایتھلیٹکس‘‘ میں لکھا ہے کہ قدیم یونانی تہذیب میں فٹ بال سے ملتا جلتا کھیل کھیلا جاتا تھا۔ اس کھیل کو ’’ایپسکیروز‘‘ کہتے تھے اور یہ سالانہ کھیلوں کے مقابلے کا اہم ترین ایونٹ ہوتا تھا۔ بعد میں رومن عہد میں بھی اس کھیل کو مقبولیت حاصل ر ہی۔ رومن عوام اس کو کھیل کو ’’ہارپاستم‘‘ پکارتے تھے۔ تاہم کئی ادوار گزرنے کے بعد موجودہ شکل میں کھیلی جانے والی فٹ بال جسے ’’ ایسوسی ایشن فٹ بال ‘‘کہا جاتا ہے، اب باقاعدہ ایک سائنس کا درجہ حاصل کرچکی ہے، جس میں قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کے علاوہ کھلاڑیوں کو ہر دم اور لمحے زبردست اختراعی صلاحیتوں کا مظاہر ہ بھی کرنا ہوتا ہے۔

سوچ سمجھ کر انتہا درجے کی مشقوں کے بعد پیدا ہونے والی یہ صلاحیتیں ہمیں کھیل کے دوران اکثر نظر آتی ہیں جب کھلاڑی مختلف انداز کی حکمت عملیاں اپنا کر ایک دوسرے کو پاس دیتے ہوئے مربوط حملے کرتے ہیں یا پھر انتہائی مُنظّم انداز میں تشکیل دیا ہوا دفاع مخالف ٹیم کے جارحانہ حملوں کو ناکام بنانے میں جتا رہتا ہے۔ بلاشبہہ کھلاڑیوں کی یہی مہارت، محنت اور قابلیت فٹ بال کی مقبولیت کی اہم ترین وجہ ہے اور پھر جب مقابلے تقریباً ہم پلہ ٹیموں کے مابین ہوں تو کھلاڑیوں کی چابک دستی اور مہارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔

فٹ بال کے مقابلے سال بھر جاری رہتے ہیں۔ اس دوران نہایت اعلیٰ درجے کے ٹورنامنٹ بھی منعقد کیے جاتے ہیں، جنہیں شائقین فٹ بال بڑی دل جمعی اور جذبے کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ تاہم فٹ بال کا وہ مقابلہ جس کا انتظار انتہائی شدت سے کیا جاتا ہے ’’فیفا فٹ بال ورلڈ کپ‘‘ ہے، جس کے ایک ایک لمحے اور مرحلے سے تماشائی نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں، بل کہ ان لمحات کو ساری زندگی اپنی یادوں میں بسائے رکھتے ہیں۔ وہ ممالک جو اس پر جوش ایونٹ میں حصہ لیتے ہیں بلاشبہہ ان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح فٹ بال ورلڈ کپ میں شرکت کرنا ہر فٹ بال کے کھلاڑی کا دیرینہ خواب ہوتا ہے اور جب اسے اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ بہتر سے بہتر کارکردگی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس کارکردگی کے دوران ایسے کئی مواقع آتے ہیں جو کھلاڑی کی عزت و توقیر میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ مواقع دراصل وہ ریکارڈز ہوتے ہیں جو اس کھلاڑی سے یا اس کی ٹیم سے منسوب ہوجاتے ہیں۔ زیرنظر تحریر میں ’’بیسویں فیفا فٹ بال ورلڈ کپ دوہزار چودہ‘‘ سے قبل منعقد ہونے والے ’’انُیس فیفا فٹ بال ورلڈکپ مقابلوں‘‘ کے ریکارڈز اور اہم اعداد و شمار پر نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جو آج بھی اپنی انفرادی پہچان رکھتے ہیں۔

ورلڈکپ میں ٹیموں کے ریکارڈ

٭پہلی پوزیشن کا اعزاز: دنیائے فٹ بال کا ذکر برازیل کے بغیر ادھورا ہے۔ برازیل کی ٹیم ہمیشہ سپر اسٹار کھلاڑیوں سے پُر نظر آتی ہے اور انہی کھلاڑیوں کی بدولت برازیل کو سب سے زیادہ مرتبہ عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز بھی ملا جو اس نے پانچ مرتبہ حاصل کیا ہے۔ برازیل کی ٹیم نے انیس سو اٹھاون، انیس سو باسٹھ، انیس سو ستر، انیس سو چورانوے اور دوہزار دو میں فٹ بال کے میدانوں پر حکم رانی کی جب کہ اٹلی چار مرتبہ اور جرمنی تین مرتبہ یہ اعزاز حاصل کرچکا ہے۔

٭دوسری پوزیشن کا اعزاز:جرمنی وہ ٹیم ہے جو چار مرتبہ فائنل میں ناکام رہی۔ اس طرح اس نے سب ے زیادہ مرتبہ دوسری پوزیشن حاصل کی جب کہ نیدرلینڈ تین مرتبہ اور ارجنٹائن، برازیل، چیکو سلواکیہ، ہنگری اور اٹلی دد دد مرتبہ فائنل ہار کر دوسری پوزیشن پر رہے ہیں۔

٭تیسری پوزیشن کا اعزاز: فائنل سے قبل ہمت ہار کر تیسری پوزیشن حاصل کرنے کے حوالے سے بھی جرمنی پہلے نمبر پر ہے۔ جرمنی کی ٹیم مجموعی طور پر چار مرتبہ تیسری پوزیشن کی کا حق دار رہی ہے، جب کہ برازیل، فرانس، پولینڈ اور سوئیڈن نے یہ درجہ دو دو مرتبہ حاصل کیا ہے، جب کہ اس شعبے میں تیسرے نمبر پر آسٹریا، چلی ، کروشیا، اٹلی، پرتگال، ترکی اور امریکا ہیں۔ ان ٹیموں نے ایک ایک مرتبہ تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔

٭ فائنل کھیلنے کا اعزاز : برازیل اور جرمنی نے بالترتیب سات سات مرتبہ فائنل کھیل کر سب سے زیادہ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ان دونوں کے بعد اٹلی چھے مرتبہ اور ارجنٹائن چار مرتبہ فائنل تک رسائی حاصل کر کے دوئم اور سوئم درجے پر فائز ہیں۔

٭تین اول پوزیشنوں کی مجموعی صورت حال : پہلی، دوسری یا تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں جرمنی کا پلڑا بھاری ہے جرمنی ان تینوں پوزیشنوں پر مجموعی طور پر گیارہ مرتبہ فائز رہا ہے، جس میں پہلی پوزیشن تین مرتبہ، دوسری پوزیشن چار مرتبہ اور تیسری پوزیشن بھی چار مرتبہ حاصل کی ہے، جب کہ برازیل اس حوالے سے نو مرتبہ اور اٹلی سات مرتبہ ان تینوں پوزیشنوں کا مزہ چکھ چکا ہے۔

٭ مقابلوں میں شرکت: موجودہ ورلڈکپ کے میزبان ملک برازیل کو اب تک ہونے والے تمام انیس عالمی مقابلوں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ دوسرے نمبر پر جرمنی (مشرقی اور مغربی) اور اٹلی مشترکہ طور پر سترہ سترہ مرتبہ ان مقابلوں میں شریک ہوچکے ہیں اور ارجنٹائن پندرہ مرتبہ شرکت کرکے تیسرے نمبر پر فائز ہے۔

٭مسلسل چیمپیئن:  اس حوالے سے برازیل اور اٹلی سرفہرست ہیں برازیل نے انیس سو اٹھاون اور انیس سو باسٹھ میں لگاتار دو مرتبہ عالمی فاتح کا اعزاز حاصل کیا، جب کہ اٹلی نے یہ کارنامہ انیس سو چونتیس اور انیس سو اڑتیس کے عالمی کپ لگاتار جیت کر انجام دیا۔

٭ فائنل میں لگاتار شکست : نیدرلینڈ وہ بدقسمت ٹیم ہے جو دو مرتبہ لگا تار فائنل ہاری ہے۔ نیدرلینڈ کو ان شکستوں کا سامنا انیس سو چوہتر اور انیس سو اٹھتر کے ورلڈ کپ میں کرنا پڑا۔

٭لگاتار تیسری پوزیشن : جرمنی کی ٹیم پچھلے دو ورلڈکپ دوہزار چھے اور دوہزار دس سے تیسری پوزیشن حاصل کررہی ہے۔

٭دفاع سے انکار: اولین ورلڈ کپ انیس سو تیس کے فاتح یوراگوئے نے بطور احتجاج اگلے ورلڈ کپ انیس سو چونتیس میں شرکت نہیں کی تھی۔ کسی بھی دفاعی چیمپئن کی جانب سے بطور احتجاج عدم شرکت کا یہ واحد واقعہ ہے ۔

٭عالمی اعزاز میں طویل وقفہ : اٹلی نے اگرچہ اب تک چار عالمی کپ جیتے ہیں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ اس نے اپنا دوسرا عالمی اعزاز انیس سو اڑتیس اور پھر تیسرا عالمی اعزاز چوالیس سال کے وقفے کے بعد انیس سو بیاسی میں حاصل کیا۔ اس طرح دو عالمی کپ کی فتوحات میں یہ سب سے طویل وقفہ ہے۔

٭اولین میزبانی اور فتح: یوراگوئے، اٹلی، انگلینڈ، جرمنی اور ارجنٹائن وہ ممالک ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ عالمی کپ کی میزبانی کرتے ہوئے عالمی چیمپئن بن کر اپنی اپنی قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔

٭میزبان فاتح: اب تک کھیلے گئے انیس ورلڈ کپ میں چھے ملک ایسے ہیں، جنہوں نے عالمی کپ کی میزبانی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے لیے عالمی کپ جیتنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ ان ممالک میں یوراگوئے انیس سو تیس، اٹلی انیس سو چونتیس، انگلینڈ انیس سو چھیاسٹھ، جرمنی انیس سو چوہتر، ارجنٹائن انیس سو اٹھتر اور فرانس انیس سو اٹھانوے میں بحیثیت میزبان عالمی کپ جیت چکے ہیں۔

٭بدقسمت میزبان: دوہزار دس کے عالمی کپ کے میزبان جنوبی افریقہ کو یہ منفی اعزاز حاصل ہے کہ اس نے بہ طور میزبان سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیسویں پوزیشن حاصل کی تھی اور کسی بھی عالمی کپ میں پہلا موقع تھا۔ جب میزبان ملک پہلے ہی رائونڈ میں ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا۔

٭اعزاز کا دفاع: صرف دو ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عالمی اعزاز کا اگلے ٹورنامنٹ میں بھی کام یابی سے دفاع کیا ہے۔ یہ کارنامہ اٹلی نے انیس سو چونتیس کے بعد انیس سو اڑتیس اور برازیل نے انیس سو اٹھاون کے بعد انیس سو باسٹھ میں انجام دیا۔

٭دفاعی چیمپئن کی خراب کارکردگی: عالمی اعزاز کا دفاع کرتے ہوئے خراب ترین کارکردگی کا اعزاز فرانس کو حاصل ہے، جس نے بہ طور میزبان اگرچہ انیس سو اٹھانوے کا فائنل جیتا، لیکن دو ہزار دو میں ہونے والے اگلے عالمی کپ میں اعزاز کا دفاع تو درکنار اس کی پوزیشن اٹھائیسویں رہی۔ اسی طرح انیس سو باسٹھ کے دفاعی چیمپیئن برازیل نے انیس سو چھیاسٹھ میں گیارہویں پوزیشن اور دفاعی چیمپئن اٹلی نے ایسی ہی خراب کارکردگی دو مرتبہ انیس سو پچاس اور سن دوہزار دس میں دکھاتے ہوئے انیس سو پچاس میں ساتویں پوزیشن اور دو ہزار دس میں پندرہویں پوزیشن حاصل کی ۔

٭فائنل میں شکست: نیدرلینڈ کی ٹیم تین مرتبہ عالمی کپ کا فائنل کھیل چکی ہے، لیکن ابھی تک عالمی کپ کا لمس محسوس نہیں کرسکی۔ اسے یہ ناکامیاں انیس سو چوہتر، اٹھتر اور دو ہزار دس میں ملیں۔

٭سب سے زیادہ میچ: جرمنی کی ٹیم سترہ ورلڈ کپ میں شرکت کے بعد مجموعی طور پر ننانوے میچز کھیل کر سب سے زیادہ میچز کھیلنے کا اعزاز ر کھتی ہے، جب کہ برازیل ستانوے میچز کھیل کر دوسرے نمبر پر ہے۔ تیسرے نمبر پر اسّی میچوں کے ساتھ اٹلی ہے اور سب سے کم میچ کھیلنے کا اعزاز انڈونیشیا کے پاس ہے جس نے انیس سو اڑتیس کے اپنے اب تک کے واحد ورلڈ کپ میں صرف ایک میچ کھیلا تھا۔

٭سب سے زیادہ فتوحات: برازیل تمام ورلڈ کپ مقابلوں کے بعد سڑسٹھ میچوں میں کام یابی حاصل کرکے اب تک کی سب سے کام یاب ٹیم ہے، جب ک برازیل کے پندرہ میچ ڈرا ہوئے اور پندرہ ہی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمنی ساٹھ اور اٹلی چوالیس کام یابیوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر فائز ہیں۔

٭سب سے زیادہ گول: برازیل نے مجموعی طور پر دو سو دس گول کیے ہیں اور اس کے خلاف اٹھاسی گول ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ اس فہرست میں بھی اول درجے پر ہے۔ دوسرے نمبر پر جرمنی دوسو چھے اور اٹلی تیسرے نمبر پر ایک سو چھبیس گولوں کے ساتھ موجود ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جرمنی پر مخالف ٹیموں نے ایک سو سترہ گول کیے ہیں۔ اس طرح گول ہونے کے حوالے سے جرمنی سرفہرست ہے۔

٭سب سے زیادہ شکستیں: میکسیکو چودہ ورلڈ کپ کے انچاس مقابلوں میں شرکت کے بعد چوبیس میچوں میں شکستوں کا سامنا کرچکا ہے۔ اس طرح سب سے زیادہ شکستوں کا منفی ریکارڈ میکسیکو کے پاس ہے۔

٭سب سے زیادہ ڈرا: اٹلی مجموعی طور اسّی میچز میں سے اکیس میچوں کو ڈرا کرنے میں کام یاب رہ کر سرفہرست ہے۔

٭فتح کا انتظار: بلغاریہ کی ٹیم نے اپنی اول فتح مجموعی طور پر اپنے سترہویں میچ میں حاصل کی تھی۔ اس طرح وہ پہلی فتح کے لیے طویل انتظار کے حوالے سے سرفہرست ہے ۔

٭باہم میچ: مختلف ورلڈ کپ مقابلوں میں سب سے زیادہ باہم میچ کھیلنے کے حوالے سے برازیل اور سوئیڈن سرفہرست ہیں، جو سات مرتبہ ایک دوسرے کے مدمقابل آئے ہیں۔ اسی طرح جرمنی اور سربیا بھی سات میچ باہم کھیل چکے ہیں۔

٭باہم فائنل: برازیل اور اٹلی انیس سو ستر اور انیس سو چورانوے کے عالمی کپ کے فائنل آپس میں کھیل چکے ہیں۔ اسی طرح ارجنٹائن اور جرمنی بھی انیس سو چھیاسی اور انیس سو نوے میں فائنل میں مدمقابل آچکے ہیں۔ اس طرح یہ چاروں ٹیمیں آپس میں سب سے زیادہ فائنل کھیلنے کا اعزاز رکھتی ہیں۔

٭سب سے زیادہ انفرادی فتح:کسی بھی ایک ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ میچ جیتنے کا اعزاز بھی برازیل کے پاس ہے، جو اس نے دوہزار دو میں جاپان اور جنوبی کوریا میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں قائم کیا تھا۔ اس موقع پر عالمی اعزاز اپنے نام کرنے کے دوران برازیل نے تمام سات کے سات میچوں میں فتح حاصل کی تھی۔

٭زیادہ فتوحات مگر ناکامی: دوہزار دس کے عالمی کپ میں نیدرلینڈ کی ٹیم فائنل سے قبل ناقابل شکست رہی اور سات میں سے چھے میچ جیتی، مگر ساتواں میچ فائنل میں اسپین کے ہاتھوں ہارگئی اور عمدہ کارکردگی کے باوجود عالمی چیمپیئن نہ بن سکی، جب کہ اسپین رائونڈ کا ایک میچ ہار کر بھی عالمی فاتح بن گیا تھا۔

٭کم فتوحات مگر فاتح:  اٹلی وہ خوش قسمت ملک ہے جو سات میچوں میں سے تین میں شکست کا سامنا کرنے کے باوجودانیس سو بیاسی میں عالمی کپ جیتنے میں کام یاب رہا۔

٭ابتدائی رائونڈ میں شکست : اٹھائیس ٹیمیں ایسی ہیں جنہوں نے گروپ کے ابتدائی تینوں میچ ہارے لیکن میکسیکو اس لحاظ سے سرفہرست ہے کہ اس نے یہ بری کارکردگی تین مختلف عالمی کپ کے مقابلوں میں د کھائی۔

٭بغیر اضافی وقت کے فتح:  انیس سو ستر اور دوہزار دو کے عالمی کپ میں برازیل کی فتح کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ اس نے تمام میچ مقررہ وقت کے اندر ہی جیتے اور کوئی بھی میچ ایکسٹرا ٹائم یا پنالٹی شوٹ پر ختم نہیں ہوا۔

٭ سب سے زیادہ گول: ایک عالمی کپ میں سب زیادہ گول کرنے کا اعزاز ہنگری کے پاس ہے۔ ہنگری نے انیس سوچون کے عالمی کپ میں مجموعی طور پر ستائیس گول کیے تھے۔ اس کے باوجود اسے جرمنی کے ہاتھوں فائنل میں شکست ہوئی۔ اسی ٹورنامنٹ میں جنوبی کوریا کے خلاف مجموعی طور پر سولہ گول ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے۔

٭زیادہ گول اور چیمپیئن: عالمی اعزاز کے حصول میں سب سے زیادہ گول کرنے کا اعزاز جرمنی کے پاس ہے۔ جرمنی نے انیس سو چون میں ٹورنامنٹ میں فتح حاصل کر تے ہوئے مجموعی طور پر پچیس گول کیے تھے۔ تاہم اسی ٹورنامنٹ میں اس کے خلاف چودہ گول بھی ہوئے، جو عالمی کپ جیتنے والی ٹیم پر سب سے زیادہ گول ہونے کا ریکارڈ بھی ہے۔

٭لگاتار کام یابی: برازیل تین ورلڈ کپ کے مقابلوں میں لگاتار تیرہ میچ جیت کر اس حوالے سے سر فہرست ہے۔ اس نے یہ سلسلہ انیس سو اٹھاون، انیس سو باسٹھ اور پھر انیس سو چھیاسٹھ کے ورلڈ کپ میں بلغاریہ کو شکست دینے تک جاری رکھا تھا۔

٭بغیر فتح کے میچ: بلغاریہ نے انیس سو باسٹھ سے انیس سو چورانوے کے درمیان لگاتار سترہ میچوں میں شکست کھائی جو ایک ریکارڈ ہے۔

٭ مخالف گول کے بغیر فتح: اٹلی کی ٹیم انیس سونوے کے ورلڈکپ میں لگاتار پانچ میچ جیت کر سیمی فائنل تک پہنچی تھی۔ ان میچوں میں اس کے خلاف ایک بھی گول نہیں ہوا تھا جو ایک ریکارڈ ہے۔

٭بڑے فرق سے فتح: انیس سو چون میں ہنگری نے جنوبی کوریا کو صفر کے مقابلے میں نو گول سے شکست دی تھی اسی طرح یوگوسلاویہ نے بھی افریقی ملک زائر کو انیس سو چوہتر میں صفر کے مقابلے میں نو گول سے شکست دے کر بڑے فرق سے فتح کا ریکارڈ قائم کیا۔

٭ایک میچ میں ایک ٹیم کے گول :  ہنگری نے انیس سو بیاسی میں ایل سلواڈور کے خلاف دس گول کیے۔ یہ ایک ٹیم کی جانب سے ایک میچ میں سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ ہے ۔

٭ایک میچ میں مجموعی گول: انیس سو چون میں آسٹریا اور سوئٹرزلینڈ کے میچ میں مجموعی طور پر بارہ گول ہوئے، جن میں آسٹریا نے سات اور سوئٹزرلینڈ نے پانچ گول کرکے ایک میچ کے دوران سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ بنایا۔

٭میچ ڈرا: دو مواقع پر میچ چار چار گول سے ڈرا ہوئے ہیں پہلا موقع انیس سو چون میں انگلینڈ اور بیلجیئم اور دوسرا موقع انیس سو باسٹھ میں سوویت یونین اور کولمبیا کے مابین میچ میں پیش آیا۔

٭خسارے کے بعد فتح: دو مواقع پر ٹیمیں تین گول کے خسارے میں جانے کے باوجود کام یاب رہیں۔ پہلا موقع انیس سو چون میں آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کا میچ تھا، جس میں آسٹریا تین صفر سے ہار رہا تھا، لیکن میچ کے اختتام پر سات کے مقابلے میں پانچ گول سے سرخ رو ہوا، جب کہ دوسرا موقع انیس سو چھیاسٹھ کے ورلڈکپ میں آیا، جب پرتگال نے شمالی کوریا کو تین گول کے خسارے میں جانے کے بعد تین کے مقابلے میں پانچ گول سے شکست دی۔

٭خسارے کے بعد ڈِرا: دو مرتبہ دو ٹیموں نے تین صفر کے خسارے میں جانے کے بعد میچ ڈرا کیا۔ ان میں پہلا موقع انیس سو باسٹھ میں آیا، جب کولمبیا نے سوویت یونین سے تین گول سے خسارے میں ہونے کے بعد چار چار سے ڈرا کیا، جب کہ دوسرے موقع پر یہی کارکردگی یورا گوئے نے دوہزار دو میں دکھائی، جب وہ سینی گال سے تین صفر سے ہار رہا تھا لیکن میچ کے اختتام پر نتیجہ تین تین گول سے برابر رہا ۔

٭اضافی وقت میں گول: انیس سو ستر کے عالمی کپ کا اٹلی اور جرمنی کا میچ اس لحاظ سے یادگار ہے کہ اس میں اضافی وقت میں مجموعی طور پر پانچ گول ہوئے، جن میں اٹلی نے تین اور جرمنی نے دو گول کیے تھے۔

٭فائنل میں گول : کسی بھی ایک ٹیم کی جانب سے کسی ایک فائنل میں سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ برازیل کے پاس ہے، جو اس نے انیس سو اٹھاون میں پانچ گول کرکے بنایا تھا۔ اس میچ میں مجموعی طور پر سات گول ہوئے تھے۔ برازیل کی مدمقابل ٹیم سوئیڈن نے دو گول کیے تھے۔ اس طرح کسی بھی فائنل میں دونوں ٹیموں کی جانب سے کیے جانے والے گولوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد بھی ہے۔

٭خسارے کے بعد فائنل میں فتح: انیس سو چون میں جرمنی نے ہنگری کو دو کے مقابلے میں تین گول سے شکست دی تھی۔ اس میچ یں جرمنی دو صفر سے ہار رہا تھا۔ اس کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری اور فائنل جیتنے میں کام یاب رہا۔

٭انفرادی گول : انیس سو چوہتر کے ایک میچ میں جو یوگوسلاویہ اور زائر کے مابین ہوا یوگوسلاویہ نے نو گولوں سے فتح حاصل کی تھی۔ اس میچ میں یوگوسلاویہ کے سات کھلاڑیوں نے گول کرکے ایک میچ میں انفرادی حیثیت میں گول کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔

٭کام یاب کوچ: اٹلی کے ’’ویٹوریا پوزے‘‘ ورلڈ کپ کے حوالے سے سب سے کام یاب کوچ ہیں۔ ان کی کوچنگ میں اٹلی نے انیس سو چونتیس اور پھر انیس سو اڑتیس کا ورلڈ کپ جیتا۔

 ورلڈ کپ میں کھلاڑیوں کے ریکارڈز

٭فاتح ٹیم کا حصہ : برازیل کے عظیم کھلاڑی ’’ پیلے‘‘ دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اُن تین برازیلین ٹیموں کا حصہ تھے، جن ٹیموں نے تین عالمی کپ مقابلوں میں فتح حاصل کی۔ انہیں یہ اعزاز انیس سو اٹھاون ، انیس سو باسٹھ اور انیس سو ستر میں حاصل ہوا مجموعی طور پر پیلے نے چار ورلڈ کپ مقابلوں میں شرکت کی تھی۔

٭گول :’’پیلے‘‘ اور جرمنی کے ’’اووہا زیلر‘‘ کو باہم یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے چار مختلف ورلڈ کپ کھیلتے ہوئے ان چاروں مقابلوں میں اپنی اپنی ٹیم کی طرف سے گول بنائے۔

٭ورلڈ کپ میں شرکت: میکسیکو کے ’’انتونیو کارباجال‘‘ اور جرمنی کے ’’لوتھرمیتوس‘‘ پانچ پانچ ورلڈ کپ میں شرکت کرکے سب سے زیادہ ورلڈ کپ کھیلنے والوں کی فہرست کے مشترکہ ریکارڈ ہولڈر ہیں۔

٭انفرادی میچز:جرمنی کے لوتھر میتوس پانچ ورلڈکپ کے پچیس مقابلوں میں شرکت کے بعد ورلڈ کپ میںسب سے زیادہ میچز کھیلنے والے کھلاڑی کا اعزاز رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ کارنامہ انیس سو بیاسی سے انیس سواٹھانوے کے درمیان انجام دیا۔

٭فتوحات میں شریک:برازیل کے دفاعی کھلاڑی ’’کافو‘‘ نے سب سے زیادہ فتوحات والے میچوں میں شرکت کی انہوں نے انیس سو چورانوے اور دو ہزار چھے کے ورلڈ کپ مقابلوں کے دوران برازیل کی نمائندگی ایسے سولہ میچوں میں کی جس میں ٹیم فتح سے ہم کنار ہوئی۔

٭دو ملکوں کی جانب سے شرکت :’’لوئیس مونٹی‘‘ وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے دو مختلف ملکوں کی جانب سے ورلڈکپ کے فائنل میں کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ پہلا ورلڈ کپ انہوں نے انیس سو تیس میں ارجنٹائن کی جانب سے کھیلا۔ ان کی ٹیم فائنل میں ہار گئی۔ دوسرا ورلڈ کپ انہوں نے انیس سو چونتیس میں اٹلی کی طرف سے کھیلا جس میں اٹلی نے فائنل میں فتح حاصل کی۔

٭طویل ترین کپتانی: ارجنٹائن کے ’’ڈیگو میراڈونا‘‘ انیس سو چھیاسی کے ورلڈ کپ سے انیس چورانوے کے ورلڈ کپ تک کپتان رہے۔ اس دوران انہوں نے سولہ میچوں میں کپتانی کرکے ورلڈکپ میں سب سے زیادہ میچوں میں کپتانی کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

٭کم عمر ترین کھلاڑی :آئر لینڈ کے’’نارمن وائٹ سائیڈ‘‘ انیس سو بیاسی کے ورلڈ کپ میں سترہ سال اکتالیس دن کی عمر میں شرکت کرکے سب سے کم کھلاڑی کا اعزاز رکھتے ہیں۔

٭کم عمر ترین کھلاڑی۔ فائنل:پیلے نے انیس سو اٹھاون کے ورلڈ کپ کے فائنل میں جب شرکت کی تو ان کی عمر سترہ سال دو سو انچاس دن تھی۔ اس طر ح وہ سب سے کم عمر کھلاڑی قرار پائے، جس نے نہ صرف ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا بل کہ سوئیڈن کے خلاف اس میچ میں ایک گول بھی داغا۔

٭کم عمرترین کپتان:امریکا کے’’ٹیونی میولا‘‘ کو ورلڈکپ کے سب سے کم عمر کپتان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے یہ اعزاز اکیس سال ایک سو نودن کی عمر میں انیس سو نوے کے ورلڈ کپ میں حاصل کیا تھا۔

٭عمر رسیدہ کھلاڑی :کیمرون کے’’راجر ملا‘‘ کو ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ عمر میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے انہوں نے یہ اعزاز بیالیس سال انتالیس دن کی عمر میں انیس سو چورانوے میں اپنے دوسرے ورلڈ کپ میں قائم کیا۔ اسی ٹورنامنٹ میں جب انہوں نے روس کے خلاف گول کیا تو وہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں گول کرنے والے سب سے عمر رسیدہ کھلاڑی بھی بن گئے۔

٭فائنل کا عمررسیدہ کھلاڑی اور کپتان:انیس سو بیاسی کے ورلڈ کپ کے فائنل میں شرکت کرنے والے اٹلی کے گول کیپر ’’ڈینو زوف ‘‘ نے یہ میچ چالیس سال ایک سو تینتیس دن کی عمر میں کھیل کر سب سے عمر رسیدہ فائنل کھیلنے والے کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا، کیوں کہ وہ اس فائنل میچ میں اٹلی کی ٹیم کی کپتانی کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے، لہٰذا انہیں سب سے عمر رسیدہ فائنل کھیلنے والے کپتان کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

٭عمررسیدہ کپتان، میچ: انگلینڈ کے ’’پیٹر شیلٹن‘‘ نے انیس سو نوے کے ورلڈ کپ میں چالیس سال دوسو بانوے دن کی عمر میں کپتانی کے فرائض انجام دے کر سب سے عمر رسیدہ کپتان کا اعزاز حاصل کیا ۔

٭سب سے زیادہ عمر میں پہلا ورلڈکپ : انگلینڈ ہی کے ’’ڈیوڈ جیمز‘‘ نے اپنا پہلا ورلڈ کپ دوہزار دس میں انتالیس سال تین سو اکیس دن کی عمر میں کھیل کر سب سے زیادہ عمر میں ورلڈ کپ کا آغاز کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

٭سب سے زیادہ انفرادی گول: برازیل کے ’’رونالڈو‘‘ ورلڈکپ میں اب تک پندرہ گولوں کے ساتھ سب سے آگے ہیں دوسرے نمبر پر چودہ گولوں کے ساتھ جرمنی کے دو کھلاڑی ’’ میرو سلاوکولوز ‘‘ اور ’’جیرد مولر‘‘ ہیں رونالڈو نے اور میروسلاوکولوز نے انیس انیس میچ جب کہ جیرد مولر نے محض تیرہ میچوں میں یہ کارکردگی دکھائی ہے۔

٭ایک عالمی کپ میں گول : فرانس کے ’’جسٹ فونتائن‘‘ نے انیس سو اٹھاون کے ورلڈ کپ میں تیرہ گول کیے تھے۔ اس طرح وہ کسی بھی ایک ورلڈکپ میں سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

٭ایک میچ میں زیادہ گول: کسی ایک میچ میں سب سے زیادہ گول کرنے کا اعزاز روس کے ’’او لیخ سالنکو‘‘ کو حاصل ہے، انہوں نے پانچ گولوں کے ساتھ یہ اعزاز انیس سو چورانوے میں کیمرون کے خلاف بنایا تھا۔

٭پنالٹی شوٹ پر گول:  میچ کے دوران پنالٹی شوٹ پر سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ پرتگال کے ’’اوہا زبیو ڈی سلوا‘‘، نیدرلینڈ کے ’’راب ر ینسن برنک‘‘ اور ارجنٹائن کے ’’گبرئیل باتستوتا‘‘ کے پاس ہے۔ ان تینوں نے چار چار گول کیے ہیں، جب کہ پنالٹی شوٹ ضائع کرنے کا ریکارڈ گھانا کے ’’آساموہ گیان‘‘ کے پاس ہے۔ انہوں نے دوہزار چھے اور دوہزار دس میں دو پنالٹی شوٹ ضائع کی تھیں۔

٭تیزرفتار گول : میچ کا آغاز ہوتے ہی برق رفتاری سے گول کرنے کا اعزاز ترکی کے ’’ہاکان شکور‘‘ کے پاس ہے۔ انہوں نے دوہزار دو کے ورلڈ کپ میں میچ شروع ہونے کے دس اعشاریہ نواسی سیکنڈ بعد ہی جمہوریہ کوریا کے خلاف گول کردیا تھا۔

٭تمام میچوں میں گول: ورلڈ کپ کی تاریخ میں صرف دو کھلاڑ ی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے پورے ایک ٹورنامنٹ میں کھیلے گئے تمام میچوں میں فائنل تک شرکت کی اور اپنی ٹیم کی جانب سے ہر میچ میں گول کیے اور ٹیم کو ورلڈ چیمپئن بنوایا۔ ان میں ایک برازیل کے ’’جیرزینیو‘‘ نے انیس سو ستر میں چھے میچوں میں سات گول کیے اور دوسرے کھلاڑی یوراگوئے کے ’’آلیسیدس گیگیا‘‘ ہیں، جنہوں نے انیس سو پچاس کے ورلڈکپ میں چار میچوں میں چار گول کرکے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔

٭اپنی ٹیم کے خلاف گول:  اب تک کسی بھی عالمی کپ میں ایسے گول جو کھلاڑیوں نے غلطی سے اپنی ہی ٹیم کے خلاف کردیے، کی سب سے زیادہ تعداد چار ہے۔ تاہم یہ چار گول تین مرتبہ تین مختلف عالمی مقابلوں انیس سوچون، انیس سو اٹھانوے اور دو ہزار چھے میں مختلف کھلاڑیوں سے ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک میچ میں دونوں ٹیموں کی جانب سے اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کرنے کا واحد واقعہ سن دوہزار دو کے ورلڈکپ میں پیش آیا تھا، جب پرتگال کے ’’جارج کوسٹا‘‘ اور امریکا کے ’’جیف اگوس‘‘ سے اپنی اپنی ٹیم کے خلاف ہی گول ہوگیا تھا۔

٭دونوں ٹیموں کے لیے گول: اس حوالے سے دل چسپ ریکارڈ نیدرلینڈکے ’’ارنی برا ندتس‘‘ کے پاس ہے، جنہوں نے انیس سو اٹھتر کے ورلڈ کپ میں اٹلی کے خلاف کھیلتے ہوئے اٹھارویں منٹ میں پہلے غلطی سے اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کردیا۔ تاہم پچاسویں منٹ میں انہوں نے اٹلی کے خلاف گول کرکے اس غلطی کی تلافی کردی۔ اس طرح ایک میچ میں دونوں ٹیموں کے لیے گول کرنے کے منفرد ریکارڈ کے مالک بن گئے۔

ورلڈ کپ مقابلوں کے اعداد شمار

٭برازیل میں ہونے والے موجودہ ورلڈ کپ سے قبل انیس ورلڈ کپ منعقد ہوچکے ہیں۔

٭ اولین ورلڈ کپ انیس سو تیس میں یوراگوئے میں ہوا، جس میں تیرہ ٹیموں نے حصہ لیا۔ مجموعی طور پر اٹھارہ میچوں میں ستر گول ہوئے۔ میزبان یوراگوئے ہی عالمی چیمپئن بنا۔ بہترین کھلاڑی ارجنٹائن کے گیری موستابیلی قرار پائے۔

٭دوسراورلڈ کپ انیس سو چونتیس میں اٹلی میں ہوا۔ سولہ ٹیموں کے مابین سترہ میچوں میں ستر گول ہوئے اور میزبان ملک اٹلی ہی عالمی چیمپئن بنا۔ بہترین کھلاڑی قرار پائے چیکوسلواکیہ کے الودرش نیدیلی۔

٭تیسرا ورلڈ کپ انیس سو اڑتیس میں فرانس میں ہوا مجموعی طور پر پندرہ ٹیموں کے مابین اٹھارہ میچز ہوئے اور چوراسی گول ہوئے اٹلی نے کام یابی سے اپنے اعزاز کا دفاع کیا۔ بہترین کھلاڑی کا اعزاز برازیل کے لیونداس ڈی سلوا کو ملا۔

٭ انیس سو بیالس اور انیس سو چھیالیس کے عالمی کپ دوسری جنگ عظیم کے باعث منسوخ کردیے گئے۔

٭چوتھا ورلڈ کپ انیس سو پچاس میں برازیل میں ہوا۔ تیرہ ٹیموں کے مابین بائیس میچوں میں اٹھاسی گول ہوئے ایک مرتبہ پھر یوراگوئے عالمی چیمپیئن بنا۔ برازیل کے ایڈی مرمارکیوس بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

٭پانچواں ورلڈکپ انیس سو چون میں سوئٹزرلینڈ میں ہوا۔ سولہ ٹیموں نے چھبیس میچ کھیلے، جن میں مجموعی طور پر ایک سو چالیس گول ہوئے۔ پہلی مرتبہ جرمنی عالمی چیمپیئن بنا۔ بہترین کھلاڑی ہنگری کے ساندور کوچیس قرار پائے۔

٭چھٹا ورلڈ کپ انیس سو اٹھاون میں سوئیڈن میں ہوا۔ ٹیموں کی تعداد تھی سولہ، جنہوں نے پینتیس میچ کھیلے۔ مجموعی طورپر ایک سو چھبیس گول ہوئے اور پہلی مرتبہ برازیل عالمی چیمپئن بنا۔ بہترین کھلاڑی کا اعزاز فرانس کے جسٹ فونتائن نے پایا۔

٭ساتواں ورلڈ کپ انیس سو باسٹھ میں چلی میں ہوا۔ سولہ ٹیموں نے بتیس میچ کھیلے۔ نواسی گول ہوئے۔ برازیل نے کام یابی سے اپنے اعزاز کا دفاع کیا۔ بہترین کھلاڑی برازیل کے گار ینشا قرار پائے۔

٭آٹھواں ورلڈ کپ انیس سو چھیاسٹھ میں انگلینڈ میں ہوا۔ سولہ ٹیموں نے بتیس میچ کھیلے۔ نواسی گول ہوئے۔ میزبان انگلینڈ عالمی اعزاز کا حق دار بنا۔ بہترین کھلاڑی پرتگال کے اوہا زبیو ڈی سلوا قرار پائے۔

٭نواں ورلڈ کپ انیس سو ستر میں میکسیکو میں ہوا سولہ ٹیموں نے بتیس میچ کھیلے پچانوے گول ہوئے ایک مرتبہ پھر برازیل عالمی چیمپئن بنا۔ بہترین کھلاڑی کا اعزاز برازیل کے پیلے نے حاصل کیا۔

٭دسواں ورلڈکپ انیس سو چوہتر میں جرمنی میں ہوا۔ سولہ ٹیموں نے اڑتیس میچوں میں ستانوے گول کیے۔ میزبان ملک جرمنی ہی عالمی چیمپیئن بنا۔ بہترین کھلاڑی نیدرلینڈ کے جان کرایف قرار پائے۔

٭گیارہواں ورلڈ کپ ارجنٹائن میں انیس سو اٹھتر میں ہوا۔ سولہ ٹیموں نے اڑتیس میچ کھیلے ایک سو دو گول ہوئے ایک مرتبہ پھر میزبان ملک ہی عالمی چیمپیئن بنا۔ بہترین کھلاڑی کا اعزاز ارجنٹائن کے ماریو کیمپس نے پایا۔

٭بارہواں ورلڈ کپ انیس سو بیاسی میں اسپین میں ہوا، جس میں ٹیموں کی تعداد بڑھا کر چوبیس کر دی گئی، جن کے مابین باون میچوں میں ایک سو چھیالیس گول ہوئے۔ اٹلی تیسری مرتبہ عالمی چیمپیئن بنا۔ بہترین کھلاڑی اٹلی کے پائولو روسی قرار پائے۔

٭تیرہواں ورلڈ کپ انیس سو چھیاسی میں میکسیکو میں ہوا۔ چوبیس ٹیموں نے باون میچوں میں ایک سو بتیس گول کیے۔ ارجنٹائن دوسری مرتبہ ورلڈ چیمپیئن بنا۔ بہترین کھلاڑی قرار پائے ارجنٹائن کے ڈیگومیراڈونا۔

٭چودہواںورلڈکپ انیس سو نوے میں اٹلی میں ہوا۔ چوبیس ٹیموں نے باون میچوں میں ایک سو پندرہ گول کیے، جب کہ جرمنی تیسری مرتبہ عالمی چیمپئن بنا۔ اٹلی کے سلواتور سکیلاتشی بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

٭پندرہواں ورلڈ کپ انیس سو چورانوے میں امریکا میں ہوا۔ چوبیس ٹیموں نے باون میچوں میں ایک سو اکتالیس گول کیے۔ برازیل چوتھی مرتبہ عالمی چیمپیئن بنا۔ بہترین کھلاڑی کا اعزاز برازیل کے روماریو کو ملا۔

٭سولہواں ورلڈکپ انیس سو اٹھانوے میں فرانس میں ہوا۔ پہلی مرتبہ بتیس ٹیموں نے شرکت کی۔ ان ٹیموں کے مابین چونسٹھ میچوں میں ایک سو اکھتر گول ہوئے۔ میزبان ملک فرانس عالمی چیمپیئن بنا۔ بہترین کھلاڑی کا اعزاز برازیل کے رونالڈو کے حصے میں آیا۔

٭سترہواں ورلڈ کپ دوہزار دو میں دو ایشیائی ملکوں جنوبی کوریا اور جاپان میں مشترکہ طور پر منعقد کیا گیا، جس میں بتیس ٹیموں نے شرکت کرتے ہوئے چونسٹھ میچوں میں ایک سو اکسٹھ گول کیے۔ برازیل نے پانچویں مرتبہ فتح کا ذائقہ چکھا۔ بہترین کھلاڑی جرمنی کے اولیور کان قرار پائے۔

٭اٹھارواں ورلڈکپ دو ہزار چھے میں جرمنی میں منعقد کیا گیا۔ بتیس ٹیموں کے مابین چونسٹھ میچ ہوئے، جن میں ایک سو سینتالیس گول ہوئے۔ اٹلی چوتھی مرتبہ عالمی چیمپئن بنا۔ بہترین کھلاڑی فرانس کے زین الدین زیدان قرار پائے۔

٭انیسواں ورلڈ کپ دوہزار دس میں جنوبی افریقہ میں منعقد ہوا۔ بتیس ٹیموں کے مابین چونسٹھ میچ ہوئے، جن میں ایک سو پینتالیس گول ہوئے۔ اسپین نے پہلی مرتبہ عالمی اعزاز حاصل کیا۔ بہترین کھلاڑی کا اعزاز یوراگوئے کے ڈیگو فورلان کو ملا۔

٭انیس سو اٹھانوے کے ورلڈکپ میں سب سے زیادہ ایک سو اکھتر گول ہوئے۔

٭انیس سو تیس اور چونتیس کے ورلڈکپ میں سب سے کم ستر گول ہوئے۔

٭انیس سو اٹھاون کے ورلڈکپ میں ایک سو گیارہ کھلاڑیوں نے گول کرکے ریکارڈ قائم کیا۔

٭تمام انیس ورلڈکپس میں آٹھ مختلف ممالک عالمی چیمپیئن بنے ہیں، جن میں برازیل پانچ مرتبہ، اٹلی چار مرتبہ، جرمنی تین مرتبہ، ارجنٹائن اور یوراگوئے دو دو مرتبہ اور انگلینڈ، فرانس اور اسپین ایک ایک مرتبہ عالمی اعزاز حاصل کرنے میں کام یاب رہے ہیں۔

٭کسی بھی ورلڈ کپ کے میچ میں سب سے زیادہ تماشائی انیس سو پچاس کے ورلڈ کپ میں برازیل اور یوراگوئے کے فائنل کے دوران آئے تھے۔ اس میچ میں ایک لاکھ نناوے ہزار آٹھ سو چون تماشائیوں نے میچ دیکھا تھا۔ یہ میچ برازیل کے ریو ڈیو جینیرو میں واقع ’’اسٹیڈیم ماراکانا‘‘ میں کھیلا گیا تھا، جب کہ سب سے کم تماشائی انیس سو تیس کے ورلڈ کپ میں رومانیہ اور پیرو کے میچ میں آئے تھے۔ یوراگوئے کے ’’پوکیتوس اسٹیڈیم‘‘ میں کھیلے جانے والے اس میچ کو صرف تین سو تماشائیوں نے دیکھا تھا۔

٭تمام انیس ورلڈکپس میں مجموعی طور پر سات سو بہتر میچ ہوئے ہیں، جن میں دوہزار دو سو آٹھ گول ہوئے۔ اس دوران مختلف ملکوں کے مختلف شہروں میں تین کروڑ چالیس لاکھ ستر ہزارآٹھ سو سینتیس تماشائیوں نے اسٹیڈیمز میں جاکر یہ میچ دیکھے۔ جب کہ دنیا کے چھیتر ممالک نے اب تک ورلڈ کپ مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔ اگرچہ برازیل پانچ ورلڈکپ جیتنے کے ساتھ پہلی پوزیشن پر ہے، تاہم جرمنی واحد ٹیم ہے جو بارہ ورلڈ کپ میں ابتدائی چار پوزیشنوں پر فائز رہی ہے۔

اب تک تمام ورلڈکپس کے فائنل صرف براعظم یورپ اورجنوبی امریکا کے خطے کی ٹیموں کے مابین ہوئے ہیں، جن میں یورپی ٹیموں نے دس اور ساؤتھ امریکن ٹیموں نے نو مرتبہ ٹائٹل جیتا ہے۔ صرف دو ٹیمیں ایسی ہیں جو ان دونوں خطوں کی ٹیموں کے علاوہ سیمی فائنل میں پہنچی ہیں۔ ان میں ایک امریکا کی ٹیم انیس سو تیس میں اور دوسری ایشیا سے تعلق رکھنے والی جنوبی کوریا کی ٹیم ہے، جو دوہزار دو میں سیمی فائنل میں پہنچی تھی، جب کہ کسی بھی افریقی ٹیم کا سب سے بہتر ریکارڈ کوارٹر فائنل تک ہی پہنچنے کا ہے، جس میں کیمرون، سینی گال اور گھانا کی ٹیمیں شامل ہیں۔

ریفری

٭کسی ایک عالمی کپ میں سب سے زیادہ میچ سپر وائز کرنے کا اعزاز تین ریفریوں کے پاس ہے، جنہوں نے پانچ میچوں میں ریفری کے فرائض انجام دیے۔ ان میں میکسیکو کے ’’بنتو آرچندیا‘‘ نے دوہزار دو، ارجنٹائن کے ’’ہوراکیو ایلزندو‘‘ نے دوہزار چھے اور ازبکستان کے ’’روشن ارماتوف‘‘ نے یہ اعزاز دوہزار دس کے عالمی کپ میں حاصل کیا۔

٭مختلف ورلڈکپ مقابلوں میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ میچ سپروائز کرنے کا ریکارڈ بھی تین ریفریوں کے پاس ہے، جنہوں نے آٹھ آٹھ میچوں میں ریفری کے فرائض انجام دیے۔ ان میں فرانس کے ’’جیوئل کیونیو‘‘، میکسیکو کے ’’بنتو آر چندیا ‘‘ اور یوراگوئے کے ’’جورج لاریوندا‘‘ شامل ہیں۔

٭اب تک کے سب سے کم عمر ریفری کا اعزاز اسپین کے ’’جان گاردیا زیبل‘‘ کے پاس ہے۔ انہوں نے انیس سو اٹھاون کے ورلڈ کپ میں ریفری کے فرائض چوبیس سال ایک سو ترانوے دن کی عمر میں انجام دیے تھے۔ اس کے برعکس سب سے عمررسیدہ ریفری کا اعزاز انگلینڈ کے جارج ریڈر کے پاس ہے۔ انہوں نے انیس سو پچاس کے ورلڈ کپ میں ریفری کے فرائض تریپن سال دوسو تریسٹھ دن کی عمر میں انجام دیے تھے۔

٭ورلڈکپ کی تاریخ میں اب تک پندرہ ایسے ریفری گزرے ہیں جنہوں نے تین عالمی کپ کے مقابلوں میں ریفری کے فرائض انجام دیے ہیں۔

معطلی اور اخراج

٭کسی بھی میچ میں کھلاڑی کو ریڈ کارڈ دکھا کر باہر بھیجنے کے حوالے سے تیز ترین ریڈ کارڈ انیس سو چھیاسی میں یوراگوئے کے ’’جوئیس بتستا‘‘ کو دیا گیا۔ انہیں میچ شروع ہوتے ہی چھپن سیکنڈ بعد ریڈ کارڈ کے ذریعے میچ سے باہر کردیا گیا تھا۔

٭ارجنٹائن کے ’’کلاڈیو کانیگیا‘‘ واحد کھلاڑی ہیں جنہیں دوہزار دو کے عالمی کپ کے دوران میچ کے بجائے ٹیم کی بینچ سے ریڈ کارڈ دکھاکر گرائونڈ سے باہر بھیج دیا گیا تھا، کیوں کہ وہ ٹیم کے آفیشلز کے مخصوص حصے سے بار بار باہر نکل کر ٹیم کو ہدایات دے رہے تھے۔

٭مجموعی طور پر سب سے زیادہ ریڈ کارڈ حاصل کرنے والوں میں فرانس کے ’’زین الدین زیدان‘‘ اور کیمرون کے ’’ریگوبرت سونگ ‘‘ ہیں۔ دونوں کو یہ خفت دو دو مرتبہ مرتبہ اٹھانی پڑی ہے۔ ٭دوہزار چھے کے ورلڈکپ میں مجموعی طور پر اٹھائیس کھلاڑیوں کو ریڈ کارڈ دکھائے گئے، جو ایک ہی ٹورنامنٹ میں ریڈکارڈ دکھانے کے حوالے سے ریکارڈ ہے۔٭تمام ورلڈکپس میں کسی بھی ٹیم کو مجموعی طور پر ملنے والے ریڈ کارڈز کے حوالے سے برازیل سرفہرست ہے، جس کے گیارہ کھلاڑی اب تک ریڈ کارڈ حاصل کرچکے ہیں۔٭انیس سو نوے کے ورلڈکپ کا فائنل اس لحاظ سے یادگار ہے کہ اس میں ارجنٹائن کے دو کھلاڑیوں کو جرمنی کے خلاف سنگین فائول کرنے پر میدان سے نکالا گیا تھا۔

ورلڈ کپ کے کسی فائنل میچ میں ایک ٹیم کے دو کھلاڑیوں کو ریڈ کارڈز ملنے کی یہ واحد مثال ہے۔٭دوہزار چھے کے ورلڈکپ میں پرتگال اور نیدرلینڈ مدمقابل تھے۔ اس میچ میں دونوں ٹیموں کے دو دوکھلاڑیوں کو میدان بدر کیا گیا۔ اس طرح کسی ایک میچ میں چار کھلاڑیوں کو ریڈ کارڈ دینے کا یہ اب تک کا واحد موقع ہے۔٭سب سے زیادہ طویل معطلی کا سامنا ارجنٹائن کے ’’ڈیگو میراڈونا‘‘ کو کرنا پڑا ہے۔ انہیں پندرہ ماہ کے لیے معطل کیا گیا تھا۔ میرا ڈونا کو یہ سزا انیس سو چورانوے کے عالمی کپ میں نائجیریا کے خلاف میچ کے بعد ڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد دی گئی تھی۔ اس معطلی کے باعث میراڈونا کا ورلڈ کپ کیر یر بھی ختم ہوگیا تھا۔

٭بدتمیزی کے باعث سب سے طویل معطلی کا سامنا اٹلی کے ’’ماریو تاسوتی‘‘ کو کرنا پڑا۔ انہیں انیس سو چورانوے میں اسپین کے خلاف خطرناک فائول کرنے پر آٹھ میچوں کے لیے معطل کیا گیا، جب کہ عراق کے ’’سمیر شاکر محمود‘‘ کو انیس سو چھیاسی کے ورلڈکپ کے ایک میچ میں ریفری کے منہ پر تھوکنے پر ایک سال کے لیے معطل کیا گیا تھا۔

ایوارڈز

ورلڈ کپ کے اختتام پر دیے جانے والے انفرادی انعامات میں گولڈن بال ایوارڈ، گولڈن بوٹ ایوارڈ، گولڈن گلوز ایوارڈ، بہترین نوجوان کھلاڑی اور فیفا فیئر پلے ٹرافی شامل ہے۔ اب تک برازیل سات گولڈن بال ایوارڈ اور پانچ گولڈن بوٹ ایوارڈز حاصل کرکے سرفہرست ہے۔ گولڈن گلوز ایوارڈ جو گول کیپروں کے لیے مخصوص ہوتا ہے، کے حصول میں یورا گوئے تین ایوارڈز کے ساتھ اول پوزیشن پر ہے۔ بہترین نوجوان کھلاڑی کا ایوارڈ جرمنی کے تین کھلاڑیوں نے حاصل کرکے ا س شعبے میں اول پوزیشن حاصل کر رکھی ہے، جب کہ پانچ مرتبہ کی عالمی چمپیئن برازیل ٹیم چار مرتبہ فیفا فیئر پلے ٹرافی حاصل کرنے میں بھی کام یاب رہی ہے۔

آل اسٹار ٹیم

ورلڈکپ مقابلوں کے اختتام پر تمام ٹیموں کے بہترین کھلاڑیوں کے انتخاب کے بعد ’’آل اسٹار ٹیم‘‘ تشکیل دی جاتی ہے۔ اس ٹیم میں صرف دو ایسے کھلاڑی ہیں جو تین مختلف عالمی مقابلوں کے بعد آل اسٹار ٹیم کا حصہ بنے ان میں ایک جرمنی کے ’’فرانز بیکن باویئر‘‘ اور دوسرے برازیل کے ’’جیلما سانتوس‘‘ ہیں، جب کہ اکیس کھلاڑی ایسے ہیں جو دو مرتبہ آل اسٹار ٹیم میں منتخب ہوئے ہیں۔ عظیم کھلاڑی ’’پیلے‘‘ پہلی مرتبہ انیس سواٹھاون اور دوسری مرتبہ انیس سو ستر کے ورلڈکپ کے بعد آل اسٹار ٹیم کا حصہ بنے اس طرح پیلے وہ واحد کھلاڑی ہیں جو بارہ سال کے وقفے کے باوجود آل اسٹار ٹیم میں شامل ہوئے۔

کسی ایک ملک کی جانب سے آل اسٹار ٹیم میں سب سے زیادہ تعداد میں کھلاڑیوں کی شرکت کا اعزاز اٹلی اور یوراگوئے کے پاس ہے۔ یوراگوئے کے انیس سو تیس میں اور اٹلی کے دو ہزار چھے میں سات سات کھلاڑی آل اسٹار ٹیم میں شامل کیے گئے تھے، جب کہ اب تک کھیلے گئے انیس ورلڈ کپ مقابلوں کے بعد مجموعی طور پر برازیل کے چوالیس کھلاڑی آل سٹار ٹیم کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں آٹھ کھلاڑی ایسے ہیں جو دو مرتبہ آل اسٹار ٹیم کا حصہ بنے ہیں۔ اس طرح انفرادی لحاظ سے برازیل کے چھتیس کھلاڑی آل اسٹار ٹیم میں جگہ بنانے میں کام یاب رہے ہیں۔

دوسری طرف براعظم ایشیا کے صرف دو کھلاڑی اس اعزاز کو حاصل کرسکے ہیں اور یہ دونوں جنوبی کوریا کے ’’ہونگ مینگ بو‘‘ اور ’’یوسینگ چل‘‘ ہیں۔ اسی طرح براعظم افریقہ کے بھی صرف دو کھلاڑی کیمرون کے ’’راجر ملا‘‘ اور سینی گال کے ’’الحاجی ضیوف‘‘ آل اسٹار ٹیم کا حصہ بن سکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ارجنٹائن کی ٹیم جس نے انیس سو چھیاسی کا ورلڈ کپ جیتا تھا، اُس کا صرف ایک کھلاڑی ڈیگو میرا ڈونا اُس وقت کی آل اسٹار ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈنمارک وہ واحد ٹیم ہے جس کے دو بھائی ’’برائن لادروب‘‘ اور ’’مائیکل لادروب‘‘ انیس سو اٹھانوے کے ورلڈ کپ کے بعد آل اسٹار ٹیم کا حصہ بنے ۔

’’لوئیس مونٹی‘‘ وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہیں دو مختلف ملکوں کی جانب سے ورلڈکپ کھیلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پہلا ورلڈکپ انہوں نے انیس سو تیس میں ارجنٹائن کی جانب سے کھیلا دوسرا ورلڈکپ انیس سو چونتیس میں اٹلی کی طرف سے کھیلا اور اپنے شان دار کھیل کے باعث دونوں عالمی کپ کے مقابلوں کے بعد آل اسٹار ٹیم میں بھی منتخب کیے گئے۔

عروج و زوال

انیس سو تیس کے اولین یوراگوئے ورلڈ کپ میں شریک ٹیموں کے لیے کوالیفائی میچز نہیں رکھے گئے تھے، صرف مجموعی طور پر اچھی کارکردگی کی بنیاد پر ٹیموں کو ورلڈکپ میں شرکت کا پروانہ دیا گیا تھا، کیوں کہ اٹلی کی کارکردگی ورلڈکپ سے قبل خاصی خراب رہی تھی، لہٰذا اسے انیس سو تیس کے ورلڈکپ میں شرکت کی اجازت نہیں ملی۔ تاہم انیس سو چونتیس میں ہونے والے اگلے ورلڈکپ میں جس کا میزبان اٹلی تھا، اٹلی نے بطور میزبان کھیلتے ہوئے ورلڈکپ جیت کر سب کو حیران کردیا۔

اسی طرح انیس سو پچاس کے ورلڈکپ میں جو برازیل میں ہوا مغربی جرمنی پر سیاسی بنیادوں پر پابندی لگا دی گئی۔ تاہم اگلا انیس سو چون کا ورلڈ کپ جو سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوا، میں جرمنی نے عالمی اعزاز حاصل کیا۔ اس حوالے سے سب سے حیران کن کارکردگی فرانس کی رہی، جو انیس سو چورانوے میں امریکا میں ہونے والے ورلڈکپ کے لیے کوالیفائی ہی نہ کرسکا تھا، لیکن سخت محنت اور لگن کے باعث انیس سو اٹھانوے کا اگلا ورلڈکپ جو فرانس ہی میں منعقد ہوا، میزبان ملک اس کا فاتح بن کر سامنے آیا، لیکن دو ہزار دو میں ہونے والے اگلے ٹورنامنٹ میں اعزاز کا دفاع تو درکنار فرانس کی پوزیشن اٹھائیسویں نمبر پر رہی۔

ناقابل شکست

برازیل دنیا کی واحد ٹیم ہے جو سات ورلڈ کپ کے مقابلوں میں ایک بھی میچ نہیں ہاری، جس میں پانچ مرتبہ تو عالمی ٹائٹل حاصل کرنے والے ایونٹس تھے جس میں انیس سو اٹھاون اور انیس سو باسٹھ کے دونوں ورلڈ کپ کے مقابلوں میں برازیل نے بالترتیب چھے میں سے پانچ میچ جیتے اور ایک ڈِرا کیا تھا۔ اسی طرح انیس سو چورانوے میں سات میچوں میں سے پانچ میں فتح اور دو میچ ڈرا کیے تھے، جب کہ انیس سو ستر اور دوہزار دو کے ورلڈ کپ کے تمام میچ جیتے تھے۔

مذکورہ پانچ ورلڈکپ جن میں برازیل نے عالمی اعزاز حاصل کیا، کے علاوہ دو ورلڈ کپ ایسے تھے جن میں برازیل کی ٹیم کوئی میچ تو نہیں ہاری مگر چمپیئن بننے سے قاصر رہی۔ ان دونوں ورلڈکپس میں پہلا انیس سو اٹھتر کا ورلڈ کپ تھا، جس میں برازیل نے سات میں سے چار میچ جیتے اور تین ڈرا کیے اور پوائنٹس ٹیبل میں سرفہرست نہ ہونے کے باعث اسے فائنل میں رسائی نہ ملی۔ اُس وقت کے فارمیٹ کے مطابق دو گروپوں کے سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے آپس میں فائنل کھیلتے تھے، جب کہ دوسرا ورلڈکپ انیس سو چھیاسی کا تھا، جس کے کوارٹرفائنل میں برازیل اور فرانس کا میچ مقررہ وقت میں برابر رہنے کے باعث میچ کا فیصلہ پنالٹی شوٹ پر ہوا تھا، جس میں فرانسیسی ٹیم نے برازیل کی ٹیم کو پچھاڑ دیا تھا۔ واضح رہے کہ فیفا کی جانب سے ایسے تمام میچوں کو جن کا فیصلہ پنالٹی شوٹ پر ہوتا ہے ڈرا قرار دیا جاتا ہے۔

ہیٹ ٹرکس

عالمی کپ کے مقابلوں کے دوران چار کھلاڑی ایسے ہیں جنہیں دو دو ہیٹ ٹرکس کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان میں ہنگری کے ’’ساندور کوچیس‘‘ کو انیس سو چون میں اولین ہٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے یہ کارنامہ جنوبی کوریا کے خلاف انجام دیا تھا۔ اسی ٹورنامنٹ میں انہوں نے جرمنی کے خلاف بھی ہیٹ ٹرک کی تھی۔ ساندرو کوچیس ہی کی طرح دو ہیٹ ٹرکس کا اعزاز فرانس کے ’’جسٹ فونتائن‘‘، جرمنی کے ’’جیرد مولر‘‘ اور ارجنٹائن کے ’’گیبرئیل باتستوتا‘‘ کو بھی حاصل ہے۔ جسٹ فونٹائن نے دونوں ہیٹ ٹرکس انیس سو اٹھاون اور جیرد مولر نے انیس سو ستر کے ورلڈ کپ میں بنائی تھیں، جب کہ گبرئیل باتستوتا نے انیس سو چورانوے اور اٹھانوے کے ورلڈ کپ میں ہیٹ ٹرکس بنانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

٭تیز ترین ہیٹ ٹرک: ہنگری سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی ’’لاس زیلو کس‘‘ نے صرف آٹھ منٹ میں ہیٹ ٹرک بناکر تیزترین ہیٹ ٹرک کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ انہوں نے بطور متبادل کھلاڑی شرکت کے بعد یہ کارنامہ انیس سو بیاسی میں ایل سلواڈور کی ٹیم کے خلاف انجام دیا تھا۔

٭کم عمری میں ہیٹ ٹرک: کم عمری میں بنائی گئی ہیٹ ٹرک کا اعزاز ’’پیلے‘‘ کو حاصل ہے۔ انہوں نے نے انیس سو اٹھاون میں فرانس کے خلاف سترہ سال دو سو چوالیس دن کی عمر میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا، جب کہ زیادہ عمر میں بنائی گئی ہیٹ ٹرک کا ریکارڈ سوئیڈن کے ’’ٹور کیلر‘‘ کے پاس ہے۔ انہوں نے یہ ہیٹ ٹرک انیس سو اڑتیس میں تینتیس سال ایک سو انسٹھ دن کی عمر میں کیوبا کے خلاف بنائی تھی۔

٭اولمپک گول

ایسی کارنر ہٹ جو بغیر کسی کھلاڑی کی مدد کے گول پوسٹ میں چلی جائے اسے اولمپک گول کہتے ہیں۔ ورلڈکپ کی تاریخ میں اب تک صرف ایک اولمپک گول کیا گیا ہے۔ یہ گول کولمبیا کے ’’مارکوس کول‘‘نے سوویت یونین کے خلاف انیس سو باسٹھ کے ورلڈ کپ میں کیا تھا۔

کام یاب گول کیپر

٭انگلینڈ کے ’’پیٹر شیلٹن‘‘ اور فرانس کے’’فابین بارتیز‘‘ سب سے کام یاب گول کیپر رہے ہیں۔ دونوں نے اپنے عالمی کپ کے کیریر کے دوران دس ایسے میچ کھیلے ہیں جن کے دوران ان کی ٹیم پر ایک بھی گول نہ ہوسکا۔

٭ناکام گول کیپر:میکسیکو کے ’’انتونیو کارباجل‘‘ اور سعودی عرب کے ’’محمد عبدالعزیز الدعیع‘‘ پر مجموعی طور پر پچیس پچیس گول ہوئے اس طرح یہ دونوں ناکام گول کیپر کی فہرست میں اول درجے پر فائز ہیں۔

٭پنالٹی شوٹ : میچ کے دوران ملنے والی پنالٹی شوٹ روکنے کے حوالے سے پولینڈ کے گول کیپر ’’جان تومازسکی‘‘ نے انیس سو چوہتر کے ورلڈ کپ میں مجموعی طور پر دو پنالٹی شوٹ روکیں تھیں، جب کہ امریکا کے ’’براڈ فریڈل‘‘ نے دوہزار دو کے ورلڈ کپ میں یہی کارنامہ انجام دیا تھا۔

٭گول کیپرایوارڈ : جرمنی کے گول کیپر ’’اولیور کان‘‘ واحد گول کیپر ہیں جنہیں دوہزار دو کے ورلڈ کپ میں بہترین کارکردگی پر دو ایوارڈز دیے گئے، جن میں فارورڈز کھلاڑیوں کے لیے مخصوص ایوارڈ گولڈن بال اور گول کیپر ز کے لیے مخصوص گولڈن گلوز ایوارڈ شامل تھا۔

٭ایک ٹورنامنٹ میں خراب گول کیپنگ: جنوبی کوریا کے گول کیپر ’’ہونگ ڈیونگ ینگ‘‘ کے خلاف انیس سو چون کے عالمی مقابلے میں سولہ گول ہوئے تھے۔ اس طرح ان کا نام خراب گول کیپنگ میں اول درجے پر درج ہے۔

٭ایک میچ میں خراب گول کپینگ : ایل سلوڈور کے گول کیپر ’’لوئیس گویریا مورا‘‘ انیس سو بیاسی میں ہنگری کے خلاف میچ میں دس گول کرواکر ایک میچ کی خراب ترین گول کیپنگ میں سرفہرست ہیں۔

اولین عالمی کپ کا آخری کھلاڑی

تیس اگست دوہزار دس کو جب سو سال کی عمر میں ارجنٹائن کے سابق اسٹرائیکر ’’فرانسیسکو انتونیو وارلو‘‘ کے انتقال کے ساتھ ہی انیس سو تیس کے یوراگوئے ورلڈکپ کی آخری زندہ یادگار بھی مٹ گئی۔ یاد رہے کہ آنجہانی فرانسیسکو انتونیو وارلو اولین ورلڈکپ کے آخری زندہ کھلاڑی تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔