تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو

رئیس فاطمہ  اتوار 8 جون 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں میں آج بھی بہت دلچسپی سے پڑھتی ہوں۔ مگر پتہ نہیں کیوں مجھے مافوق الفطرت عناصر کے محیر العقول واقعات والی کہانیاں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ طلسم ہوش ربا کے کردار جیسے ذہن سے نکل ہی نہیں پاتے۔ اور عمرو عیار کی زنبیل کا تو کیا کہنا۔ پورے پورے لاؤ لشکر اس کی زنبیل میں سما جاتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ نہایت منحنی سے شخص کو جو مصنف کے مطابق دیکھنے میں بھی اچھا نہیں ہے۔ اس کے نام کا تلفظ عموماً غلط کیا جاتا ہے لہٰذا قارئین سے گزارش ہے کہ اس نام کو اس طرح پڑھیے۔ (Amro Ayiyar) عمرو عیار۔ میں عرض کروں کہ اس کی بھرپور اور مناسب تشریح تو جناب انتظار حسین ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں یہاں گڑبڑ تلفظ کی ہے۔ جس کی طرف توجہ دلاؤ نوٹس کی ضرورت ہے۔

اسی طرح واشنگٹن ارونگ کی انگریزی میں لکھی ہوئی کہانیوں کا ترجمہ جناب غلام عباس نے ’’الحمرا کے افسانے‘‘ کے نام سے اردو میں کیا تھا۔ یہ کہانیاں بھی عجیب طلسماتی فضا کی حامل تھیں۔ یوں تو اس میں کئی کہانیاں تھیں لیکن ان میں ایک کہانی میں کبھی نہیں بھول پاتی۔ اس کا نام تھا۔ عرب کا نجومی۔ افسوس کہ یہ کتاب میرے ذاتی ذخیرے سے کوئی پڑھنے کے لیے لے کر گیا اور واپس نہیں کی۔ پھر یہ کتاب 1967ء میں انجمن ترقی اردو کے کتب خانے سے لے کر پڑھی۔ اسی طرح ایک اور کہانی بھی آج کل بہت یاد آ رہی ہے۔ عنوان تو یاد نہیں البتہ کہانی یاد ہے۔ جو اس طرح ہے۔

ایک بڑے بازار میں مٹھائی کی ایک مشہور دکان تھی جس کی مٹھائیاں بہت معیاری ہوتی تھیں۔ یہ ایک اکیلی دکان تھی۔ کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ لہٰذا مالک نے ایک بیکری بھی کھول لی جس کے کیک، پیسٹری، بسکٹ، باقر خانی اور خستہ کچوریاں بھی خوب بکنے لگیں۔ مالک بڑا ذہین تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کاروبار کی ترقی کے لیے حاکم شہر اور بااختیار لوگوں سے تعلقات بنا کے رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے وہ اکثر شہر کے حاکم، کوتوال اور بڑے لوگوں کی دعوتیں کرتا اور انھیں مختلف مواقعے پر تحائف بھی بھجواتا تھا۔ جواب میں اسے چینی، میدے، گھی، سوجی اور میوہ جات سستے داموں مل جاتے تھے کیونکہ وہ حکمرانوں کا دوست تھا۔ مٹھائی اور بیکری کے کاروبار میں منافع دیکھ کر کچھ اور لوگوں نے بھی وہاں دکانیں کھول لیں۔

یہ بات پہلے مالک کو گوارا نہ ہوئی۔ کیونکہ اس طرح اس کی آمدنی پہ فرق پڑ رہا تھا۔ اس نے مٹھائی فروشوں کی دکانیں تو انھیں ڈرا دھمکا کر بند کرا دیں کہ حکام بالا اس کے ساتھ تھے۔ لیکن سب پر اس کا بس نہ چلا۔ ایک بیکری والے نے یہ عقل مندی کی کہ اپنی دکان کے افتتاح والے دن سب کو گلاب جامن اور فروٹ کیک مفت تقسیم کیے۔ ساتھ ہی ان اشیا کی قیمتیں مشہور دکان سے کم رکھیں اور یہ بھی اعلان کیا کہ جو بھی اس کی دکان سے کوئی ایک مٹھائی بھی خریدے گا اسے ایک کیک مفت دیا جائے۔

ساتھ ہی اس ذہین شخص نے معیار کا بھی خیال رکھا کہ کوئی بھی چیز مشہور دکان کے مقابلے میں غیر معیاری نہ ہو۔ یہ کاروبار کا وہ گر تھا جس نے بہت جلد لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا اور مال دھڑا دھڑ بکنے لگا۔ کاروبار ترقی کرنے لگا لیکن پہلے والے مٹھائی فروش کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ اس کی موجودگی میں کوئی اور کاروبار کرے۔ ادھر کچھ اور لوگوں نے بھی ہمت پکڑی اور بیکریوں کے ساتھ ساتھ حلوہ پوری اور مٹھائی بیچنی شروع کر دی۔ لیکن وہ پہلے والے مٹھائی فروش کا مقابلہ آمدنی کے لحاظ سے نہ کر پاتے پھر بھی دکانیں چلتی رہیں۔

ایک دن کیا ہوا کہ حاکم شہر کے ایک قریبی رشتے دار نے پہلے مٹھائی فروش کو اپنے بیٹے کی شادی کے لیے ایک من موتی چور کے لڈو، ایک من مکھن پیڑے، چار سو باقرخانیاں اور ایک من پیڑوں کا آرڈر دیا۔ مٹھائی فروش نے خوشی خوشی ڈبے تیار کروائے اور مٹھائی ٹوکروں میں بھر کے بھجوا دی۔ دو تین دن گزر گئے لیکن مٹھائی کے پیسے ادا نہیں کیے گئے۔ تنگ آ کر مالک نے اپنے کارندے کو وصولی کے لیے بھیجا تو اسے مارپیٹ کر زخمی کر دیا گیا اور کہا کہ ان کی مجال کیسے ہوئی حاکم شہر کے بہنوئی سے رقم مانگنے کی۔ دکان کے مالک نے جب یہ جواب سنا تو آگ بگولا ہو گیا۔ اور چلا چلا کر حاکم شہر کو گالیاں دینے لگا اور اپنے زخمی ملازم کو لے کر گلی گلی محلے محلے گھومنے لگا۔ ساتھ ہی حاکم شہر کو بھی قصور وار ٹھہرانے لگا کہ اس کے قریبی رشتے دار نے منوں مٹھائی مفت ہضم کر لی۔

ہوتے ہوتے یہ خبر حاکم شہر تک بھی جا پہنچی۔ لیکن اس سے پہلے حاکم کا بہنوئی اور کچھ دوسرے مٹھائی فروش جو دل میں بغض لیے بیٹھے تھے انھوں نے خوب نمک مرچ لگا کر یہ خبر اسے سنا دی تھی۔ مٹھائی فروش اپنے زعم میں تھا کہ وہ اس شہر کا سب سے بڑا کاروباری ہے۔ نیز یہ کہ اس کی ذاتی دوستیاں بھی بڑے لوگوں سے ہیں، سو کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ لیکن مقبولیت اور طاقت کے نشے میں وار کچھ اوچھا پڑگیا۔ ایسا اوچھا کہ لینے کے دینے پڑگئے اور دونوں ایک دوسرے کے مقابل آ گئے۔ کچھ سیانوں نے سمجھایا کہ حاکم شہر اور اس کے بہنوئی سے معافی تلافی کر لو تو معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا اور تمہاری رقم بھی نہیں ڈوبے گی۔ لیکن وہ اپنی ضد پہ اڑا رہا اور مسلسل حاکم کو بدنام کرتا رہا۔

دوسری طرف کچھ چھوٹے مٹھائی فروشوں کی بن آئی۔ وہ روز تازہ ترین الزامات کی فہرست حاکم شہر کے بہنوئی کو پیش کر دیتے کہ شاید اس طرح ان کا مال بکنے لگے۔ لیکن ایک مٹھائی فروش ایسا بھی تھا جو اس صورت حال سے خوش نہیں تھا۔ یہ وہی تھا جس نے معیاری مٹھائی اور کیک کم قیمت پہ فروخت کر کے اپنی ساکھ بنائی تھی۔ اس نے کہا کہ کسی کی بربادی پہ خوش نہ ہو کہ اگلی باری تمہاری بھی ہو سکتی ہے۔ خدا نے جتنا رزق کسی کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اسے ضرور ملے گا۔ کاروبار میں برکت ایمان داری سے ہوتی ہے۔ سازشوں سے نہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر تم حاکم شہر کے غلام بن گئے تو کل وہ بھی تم سے مفت مال ہتھیانا چاہیں گے۔ اس لیے چپ چاپ بیٹھ جاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔

اب ہوا یوں کہ حاکم شہر نے ان تمام مراعات کی تفصیل طلب کر لی جو وہ اس مٹھائی فروش کو دیتا رہا تھا۔ ادھر مٹھائی فروش نے بھی وہ تمام راز طشت ازبام کر دیے تھے جو حاکم شہر کے خاندان سے وابستہ تھے۔ یہ بڑے گھناؤنے راز تھے۔ اب تو معاملہ بالکل ہی ہاتھوں سے نکل گیا اور صورت حال بہت خراب ہو گئی تو مٹھائی فروش کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اس کا کاروبار بالکل بند ہو گیا تھا، ملازم بے کار ہو گئے تھے اور دوسری جگہ ملازمت ڈھونڈ رہے تھے۔ حاکم شہر نے بہنوئی کی بے عزتی کو اپنی بے عزتی سمجھا۔ سیانوں نے جب بیچ میں پڑنے کی کوشش کی تو حاکم شہر نے کہا کہ مٹھائی فروش کو تحمل سے کام لینا چاہیے تھا۔ اس کے رشتے دار نے اگر مفت مٹھائی حاصل کرنی چاہی تھی تو اس کی شکایت براہ راست اس سے کرنی چاہیے تھی۔ لیکن جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بہت غلط تھا۔ اب وہ اسے معاف کرنے کو تیار نہ تھا اور ایسی کڑی سزا دینا چاہتا تھا جو وہ ہمیشہ یاد رکھے۔

جب یہ نوبت آ پہنچی تو مٹھائی فروش دوسرے مٹھائی والوں کے پاس پہنچا جن کا کاروبار چمک اٹھا تھا اور اس نے ان سے ساتھ دینے کے لیے کہا کہ وہ سب بھی احتجاجاً اپنی اپنی دکانیں بند کر دیں کہ معاملہ تاجر برادری کا ہے اس کی یہ بات سن کر وہی مٹھائی فروش سامنے آیا جس نے اعلیٰ معیار سے اپنی ساکھ بنائی تھی اور کہا کہ جناب! آج آپ کو ہمارے ساتھ کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ وقت بھول گئے جب آپ طاقت کے نشے میں چور اور حاکم شہر کی دوستی پہ اکڑتے پھرتے تھے۔ کئی مٹھائی فروش آپ کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر دکانیں بند کر کے بیٹھ گئے کہ آپ کی ذاتی دوستیاں بڑے لوگوں سے تھیں۔

جب آپ نے ہمارا خیال نہ کیا تو اب ہم سے کیونکر توقع رکھ سکتے ہیں کہ ہم آپ کا ساتھ دینگے۔ آپ تو ہم سب کو کسی خاطر میں نہ لاتے تھے لہٰذا ہمیں معاف کریں۔ اتنا کہہ کر اس نے باقی مٹھائی فروشوں سے کہا۔ اپنا اپنا کاروبار ایمان داری سے جاری رکھو اور اس لڑائی کا حصہ نہ بنو، نہ ہی اس موضوع پر اظہار خیال کرو۔ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ اور یاد رکھو کہ حاکم کی اگاڑی اور پچھاڑی دونوں سے بچو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔