ذرا آپ کی صلاحیت بھی جانچ لیتے ہیں !!!

شیریں حیدر  اتوار 8 جون 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہمارا بچپن آج کل کے بچوں سے بہت مختلف تھا، ہمارے کھیل ، پڑھائی، سوچیں ، ضروریات، خواہشات، تخیلات، تفکرات… سب کچھ مختلف تھا۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ فکر اپنی کتابوں اور دوستوں کی ہوتی، ہماری خواہشات یہی ہوتیں کہ ہم بہترین نمبروں سے کامیاب ہو جائیں… ہم نے بچپن، اسمارٹ فون تو کیا، لینڈ لائن کے بغیر بھی گزارا ہے، ہمارے گھر میں جب فون لگا تو میری عمر نو برس کے لگ بھگ تھی، اس فون سے ہمیں کوئی تعلق تھا نہ غرض۔ فیس بک، ای میل، ٹوئیٹر اور کئی نت نئی خرافات ہمارے زیراستعمال تو ہیں مگر ہماری ہی نسل اور عمر کے کئی لوگ ابھی تک اس سے نا آشنا ہیں، اس کی وجوہات کا اس کالم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بچپن کے کھیلوں میں ہم کسوٹی، پہیلیاں بوجھنا، اشاروں سے کہانی پہچاننا وغیرہ شامل تھیں۔ ایک دلچسپ کھیل ہمارے لیے اپنے سے چھوٹی جماعت کے امتحانی پرچہ جات حل کرنا ہوتا تھا اور ایک اس سے بڑھ کر دلچسپ، اپنی قابلیت بگھارنے کو، اپنی جماعت سے بڑی جماعتوں کے پرچہ جات کو حل کرنا … اس میں بھی ہم پچاس ساٹھ فیصد تک نمبر لے ہی جاتے تھے جب کہ چھوٹی جماعتوں کے پرچوں میں تو ہم سو میں سے سو سے زائد نمبر لے جاتے تھے کیونکہ اس میں تو ہم کمال کے درجے تک پہنچ چکے ہوتے تھے، اس سے اگلی جماعتوں میں ہونے کے باعث۔ اب زمانہ مختلف ہے، طالب علم پرچہ دے کر نکلتے ہیں،ان سے پوچھیں کہ فلاں سوال کا کیا جواب ہے تو اس کے منہ میں گویا زبان ہی نہیں ہوتی۔

آج دل چاہ رہا ہے کہ اس پرانے کھیل کو کھیل کر کسی کو آزمایا جائے… چلیں آپ بھی ان پرچوں کے سوال پڑھیں اور ہوسکے تو آپ میں سے کوئی ان کو حل کر دے۔آج کا امتحانی پرچہ اصل میں تو ہمارے وزیر خزانہ صاحب کے لیے ہے، انھوں نے حال ہی میں تنتالیس سو ارب (4300,00,00,00,00,00 ) روپے کا قومی بجٹ پیش کیا ہے) میرے ناقص علم کے مطابق اس رقم میں اتنے ہی زیادہ زیرو ہیں، تا ہم اگر میری گنتی غلط ہو تو معذرت اور اردو میں لکھے گئے اعداد کو کافی سمجھا جائے) ۔ اب دیکھیں نا… انھوں نے ایک قسم کا کتنا بڑا امتحان پاس کیا ہے۔ اب جیسے پی ایچ ڈی کے کسی طالب علم کو ہم نرسری جماعت کا پرچہ حل کرنے کو دے دیں اسی طرح ہم وزیر خزانہ کو آسان پرچے حل کرنے کو دیتے ہیں، ملک میں لاکھوں ماہرین اقتصادیات کے ماہرین موجود ہیں، اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو آزمانا چاہیں تو بہترین موقع ہے۔

… پہلا پرچہ ۔ ایک دیہاڑی دار مزدور کا بجٹ
… دوسرا پرچہ۔ ایک تنخواہ دار ملازم کا بجٹ
… تیسرا پرچہ۔ ایک کاروباری شخص کا بجٹ

پہلا پرچہ ( دیہاڑی دار مزدور، گھریلو ملازم، ریڑھی بان، قلی، رکشے چلانے والے وغیرہ)

میری روزمرہ دیہاڑی سات سو روپے ہے، مجھے پچیس دن ماہانہ کام مل سکتا ہے کیونکہ جمعے کا ناغہ ہوتا ہے، کئی دن تو کام ملتا بھی نہیں مگر میں نے پھر بھی آپ کو پچیس دن کہا ہے، گویا میں 00/- 175 روپے ماہانہ تک کما سکتا ہوں ، ایک کھولی میں اپنی بیوی، تین بچوں اور بیمار بوڑھی ماں کے ساتھ رہتاہوں ۔ ایک شخص کا ایک وقت کا کھانا سستے سے ہوٹل سے بھی پچاس روپے سے کم کا نہیں ملتا، میں دوپہرکو دو سوکھی روٹیاں سادے پانی کے ساتھ حلق سے اتارتا ہوں کہ کام کرنے کو کچھ تو توانائی چاہیے، اس پر میرا پچیس دن کا خرچہ 300/- روپے ہے۔

چھ آدمیوں کا ایک وقت کا کھانا اور ناشہ ہمیں مہینے میں روکھی سوکھی کھا کر بھی 9000/- کا پڑتا ہے، اس میں دال اور سبزی کے علاوہ ناشتے میں چائے اور سوکھے پاپے کا مینو ہوتا ہے جناب! اس سے زیادہ کسی عیاشی کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے، کوئی پھل یا میوہ ہمارے یا ہمارے بچوں کو کبھی نصیب نہیں ہوتا، گوشت ہمیں عید پر بھی نہیں ملتا کہ ہمارے رشتہ دار ہمارے ہی جیسے ہیں۔ کوئی بیمار پڑے تو لوٹ پوٹ کر خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے، ماں بھی باپ کی طرح خون تھوکتی اس دنیا سے چلی جائے گی، میری سکت میں ان کا علاج نہیں ہے۔ تعلیم کے نام سے میں واقف ہوا نہ میرے بچے، میں سرکاری اسکول میں بھی ان کو نہیں پڑھا سکتا۔

کھولی کہ جس میں جانور بھی نہیں رہ سکتے، اس کا ماہانہ کرایہ 7000/-ہے، اس کے علاوہ مدقوق سی روشنی کے تین بلب، بغیر ہوا دیے گھومتے ہوئے دو پنکھے، ان پر بجلی کا بل 1000/- روپے تک آ جاتا ہے۔ فرج اور ٹی وی نام کی نعمتیں ہمارے لیے نہیں بنیں۔کھولی سے مزدوروں کے اڈے پر جانے کے لیے پچیس دنوں کا کرایہ 1000/-روپے بن جاتا ہے، جسے بچانے کو کئی بار میں پیدل چلتا ہوں اور مزدوری کھو بیٹھتا ہوں۔ میرے بچوں، ماں اور بیوی کو سستے ہی سہی مگر تن ڈھانکنے کو کپڑے بھی چاہئیں۔ میری آمدنی 17500/- اور اخراجات کا کم از کم تخمینہ18300/- ہے، آپ بتائیں کہ اگر کوئی فالتو خرچہ ہے؟ میں تو اپنے گھر میں کسی کا مرنا بھی afford نہیں کر سکتا!!!

دوسرا پرچہ
میںنے ایم بی اے کیا، میرے ماں باپ نے اپنی عمر کی پونجی بیچ باچ کر مجھے ایم بی اے کروایا، اب میں چالیس ہزار روپیہ تنخواہ کا ملازم ہوں ، میرے دو بچے، ایک بیوی اور والدین کے علاوہ میری شادی شدہ بہنیں ہیں۔ میرے دو کمروں کے اپارٹمنٹ کا کرایہ 15000/- میرے پاس موٹر سائیکل ہے جس کی 2000/- روپے ماہانہ قسط دیتا ہوں ، میرے بچے عام سے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، ان کی فیس اور کتابوں اور یونیفارم وغیرہ ملا کر 3500/-روپے ماہانہ ہے، میرا پٹرول کا ماہانہ خرچ 6600/- انتہائی ضرورت کا ہے، میرے والدین کے ڈاکٹروں اور دواؤں کے اخراجات 5000/-روپے ماہانہ ہیں، ہمارے گھر میں گیس ، بجلی، ٹیلی فون، کیبل کے بل 8400/- ہیں، ان پر انتہائی سخت کنٹرول کیا جاتا ہے۔

کھانے کا لگ بھگ ماہانہ 15000/- روپے کا خرچہ ہے، اس میں کوئی عیاشی پھل یا گوشت کی شامل نہیں… ہاں گوشت اور پھل تب آتا ہے جب کوئی مہمان آتا ہے اور ہم اسے رحمت بھی نہیں کہہ سکتے، ان کے سامنے تو ہم ہنس ہنس کر بات کرتے ہیں مگر ان کے جاتے ہی گھر میں صف ماتم کا سا سماں ہوتا ہے، مہمانداری ماہانہ 4000/-روپیہ کم از کم کی ہوتی ہے،اس کے لیے ہم عموما رقم مختص کر دیتے ہیں اور کئی ضروریات پس پشت ڈال دیتے ہیں۔بیماری ہے، سفر کرنا پڑ جاتا ہے، عید شب برات ہوتی ہے، بچوں کے دلوں میں ننھی ننھی سی خواہشات ہوتی ہیں، میرے بوڑھے ماں باپ کو کبھی کبھار پھل کھانا ہوتا ہے، دودھ پینا ہوتا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی سب کے کپڑے بننا ہوتے ہیں، بہنوں کو کچھ دینے دلانے کے ارمان دل میں ہوتے ہیں، جنھیں سلا کر ہی رکھا جاتا ہے40,000/- کی آمدنی اور 59500/- کے وہ اخراجات جن سے مفر ممکن نہیں‘ کیا بجٹ بناتے ہیں آپ؟

تیسرا پرچہ( اس میں متوسط اور اچھے، سبھی کاروباری شامل ہیں)۔میں ایک کاروباری آدمی ہوں ، میری ماہانہ آمدن بچ بچا کرتین لاکھ تک ہو جاتی ہے میرے پاس اپنا گھر ہے، ماشا اللہ… مگر میرے اخراجات کا ایک کلی جائزہ کچھ یوں ہے۔ اپنے والدین کو میں ماہانہ 50,000/- روپے دیتا ہوں، ا سی سے ان کا چھوٹا سا گھر چلتا ہے۔ میرے گھر میں دو گاڑیاں ہیں، ایک میرے استعمال کے لیے اور ایک میرے بیوی بچوں کے استعمال کے لیے، ان کا پٹرول اور سروس وغیرہ کا ماہانہ خرچہ 50000/-روپے ہے، میرے تین بچے ایک اچھے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں، ان کی فیسیں ماہانہ 30,000/- روپے ہیں اور اس کے علاوہ ان اسکولوں کے کئی اللے تللے ہوتے ہیں جو 10,000/- ماہانہ کا اضافی خرچہ ہے۔

ٹرپ، پارٹیاں اور جانے کیا کیا، بچوں کو منع کرو تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ڈاکٹروں اور دواؤں پر ہمارا ماہانہ 20,000/- کا کم از کم کا خرچہ ہے جو کہ میرا اور میری بیوی کا ہے کیونکہ ہم دونوں بلڈ پریشر اور ذیا بیطس کے مریض ہیں ، ملازموںاور ڈرائیور کی تنخواہوں کی مد میں ہم ماہانہ 35000/- صرف کرتے ہیں، ملازموں کے کھانے کے لیے ہم انھیں ماہانہ5,000/-تنخواہ کے علاوہ دیتے ہیں۔ہمارے تینوں بچوں اور ہمارے پاس موبائل فون ہیں، اس کے علاوہ بجلی، گیس، کیبل، ٹیلی فون، انٹر نیٹ، دودھ، اخبار کے بلوں کی مد میں ہمارے ہاں 40,000/- کا کم از کم کا خرچہ ہے۔ کاروبار ہے تو ایک معیار زندگی بھی رکھنا پڑتا ہے، مہمانداری بھی ہوتی ہے۔

جس پر ہم ماہانہ 20,000/- خرچ کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے کھانے کا ماہانہ خرچ 40,000/- روپے کم از کم ہے۔ ہمارے اور بچوں کے کپڑوں لتوں کی مد میں بھی 30,000/- روپے ماہانہ تک کا خرچہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اخراجات ہیں جو کہ غیر متوقع ہوتے ہیں، مثلاً سفر درپیش ہو جاتا ہے، بچوں میں سے کسی کو ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے، خاندان میں تحفے تحائف دینا پڑ جاتے ہیں، زکوۃ، صدقات اور قربانی کرنا ہوتی ہے، کسی کی سالگرہ منانا پڑ جاتی ہے… ان اخراجات کو میں شامل ہی نہیں کر رہا، فقط آپ کو بتا رہا ہوں ۔ آپ بتائیں کہ میں اپنی آمدن اور اپنے status کیمطابق کن اخراجات کو کنٹرول کر سکتا ہوں، محنت کر کر کے بیماریاں بھی پال لی ہیں مگر مقصد یہی ہے کہ بچوں کو اچھا معیار زندگی دیا جائے۔

جتنا مرضی کما لو، اس ملک میں مہنگائی کا عفریت منہ کھول کر ہم سب کو نگلنے کو تیار ہے۔جی…ماہرین اقتصادیات… اور بالخصوص ، ہمارے قابل ترین وزیر خزانہ صاحب سے درخواست ہے کہ اس چیلنج کو قبول کریں اور یہ تین گھروں کے بجٹ بنا کر دکھائیں… کچھ ان کو بھی ریلیف دیں، خصوصا پہلے دو طبقوں کو، وہ بھی انسان ہیں، پیٹ پالینے کے دھندے کرتے، اپنے اندر حسرتوں کو دفن کیے، جانوروں کی طرح عمریں بتا کر ایک تلخ ترین اوقات کی زندگی بسر کر کے مر جاتے ہیں!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔