ایک آزمائش

سید محسن کاظمی  اتوار 8 جون 2014
mohsin014@hotmail.com

[email protected]

متحدہ قومی مومنٹ کے قائد تحریک الطاف حسین کسی تعریف کے محتاج نہیں ۔ اب تو پوری دنیا میں یہ نام جانا پہچانا ہے۔17ستمبر1953میں مولانامفتی رمضان حسین کے برخوردار نذیر حسین کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام الطاف حسین رکھا گیا ۔ ان کے والد نذیر حسین کا 13مارچ 1967میں انتقال ہوا اوران کی والدہ محترمہ خورشید بیگم 5دسمبر1985میں انتقال کرگئیں۔ اس جوان نے1969میں جیل روڈ ااسکول سے میٹرک کیا اور1970میں سٹی کالج پھر اسلامیہ کالج سے BScمیڈیکل کیا اور کراچی یونیورسٹی سے BPharmacyپھر Seven Dayاسپتال میں بطور Traineeرہے۔ یونیورسٹی میں جہاں بہت سی طلباء تنظیمیں تھیں جو خاص طور پر مہاجر طلباء کو نظر اندازکرتی تھیں اس وقت اس نوجوان کو احساس ہوا کیوں نہ اس مظلوم طبقہ کو یکجا کیا جائے، اس کی خاطر اس جوان نے اپنے دوستوں کو مشورہ دیا کہ 20بیس روپے جمع کر کے ایک کتابچہ شائع کرتے ہیں اور تمام مہاجر طلبا کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کر کے ان کے لیے جدو جہد کرتے ہیں۔

16جون1978میں اس طلباء تنظیم کا نام APMSO رکھا گیا اور جدوجہد شروع کی اس جدوجہد کے نتیجے میں 18اگست1979میں گرفتار ہوئے اور نو ماہ تک قید کی صعوبتوں کو برداشت کیا لیکن اس جوان کے عزم میں کمی کے بجائے پختگی پیدا ہوئی اور اپنی جدوجہد کو اپنے چند اہم ساتھیوں کے ساتھ جاری رکھا جس میں خاص طور پر ڈاکٹر فاروق ستار جیسے ساتھی آج بھی اسی لگن اور محبت سے اس جوان کا ساتھ دے رہے ہیں۔اس جدوجہد میں اس وقت ایک سیاسی قوت حاصل کی جب 18مارچ 1984کو مہاجر قومی مومنٹ کے نام سے سیاسی جماعت کا اعلان ہوا۔

اس تحریک نے بہت شہرت حاصل کی اور اس کے بانی و قائد الطاف حسین کے جانثاروں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تنظیم پاکستان کی سب سے زیادہ منّظم سیاسی جماعت بن گئی اور الطاف حسین کی شخصیت کے سحر نے سندھ بھر کے شہری علاقوں میں 80فیصد حمایت حاصل کی۔ قائد الطاف حسین نے اپنی تنظیم کو ہمیشہ اصولوں کی بنیاد پر چلایا اور تمام کارکناں کو نظم وضبط کی بہترین تعلیم دی۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی منّظم کوئی سیاسی جماعت قائم نہ ہوئی۔

اس ایم کیو ایم کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں جس طرح پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی لوگوں کو حقوق حاصل ہیں ،ویسے ہی حقوق ان لوگوں کو بھی ملنے چاہئیں جن کے والدین نے پاکستان کی محبت میں ہندوستان سے ہجرت کی جن کی تیسری نسل اسی پاک سر زمین پر پیدا ہوئی اور اسی زمین کو اپنا وطن قرار دیا ، اپنا جینا مرنا اسی زمین سے وابستہ رکھا اور ایم کیو ایم کے اس مقصد میں بڑی رکاوٹیں آئیں۔ پوری مہاجر قوم کو غدار بنانے کی کوشش کی مگر جدوجہد بڑھتی رہی یہاں تک کہ16جون1992میں اس ایم کیو ایم کے خلاف غیر ضروری اور پرتشّدد انداز میں فوجی آپریشن کیا گیا۔

یہ آپریشن دراصل کرپٹ لوگوں کے خلاف کرنے کا اعلان ہوا تو ایم کیو ایم کے قائد نے پورا تعاون کیا کیونکہ ان کی جدوجہد میں کرپشن سے پاک معاشرہ شامل تھا ۔ اس کی خاطر قائد تحریک الطاف حسین نے اپنی سیاسی جماعت میں لفظ مہاجر ختم کردیا کیونکہ 1997تک پاکستان میں مہاجروں کو ایک مقام ایک باعزت شہری کے طور پر تمام دوسری قوموں نے تسلیم کر لیا تھا۔ یہ قائد تحریک الطاف حسین کی زبردست کامیابی تھی اور اس کامیابی نے مہاجر قومی مومنٹ کا پہلا ہدف مہاجروں کی پہچان ان کو برابری کی بنیاد پر حقوق دینا جیسی حقیقت کو تسلیم کیا جاچکا تھا اس لیے26جولائی1997میں اس کا نام مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا ۔

جس کا مقصد یہ تھا کہ اب یہ تحریک صرف مہاجروں کی جدو جہد نہیں بلکہ تمام مظلوم قوموں، غریبوں، مزدوروں، طلباء اور سفید پوش لوگوں کے حقوق کی تحریک ہو جائے گی۔ شاید ہمارے روایتی سیاستدانوں نے اس جدوجہد کو پسند نہ کیا۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے1967میں پی پی پی بنا کر عام غریب لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تو اس وقت کے تمام روایتی سیاستدان جو انتہائی مالدار، زمیندار، چودھراہٹ اور برادری کی بنیاد پر سیاست کرتے تھے اور اقتدار کسی صورت غریب کو نہیں دینا چاہتے تھے انھوں نے بھی ایک سازش کے ذریعے اس وقت کے مقبول قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا کر دم لیا اسی طرح آج کے اسی سوچ کے سیاست داں قائد تحریک الطاف حسین سے خوفزدہ ہیں۔ پہلے تو ان کی جان کے پیچھے پڑ گئے ان پر جان لیوا حملے ہوتے رہے تو پارٹی کے لوگوں نے ان کو پاکستان سے باہر جانے کا مشورہ دیا جب کہ وہ کسی صورت ملک سے باہر جانے پر رضامند نہ تھے۔

انھوں نے ہمیشہ پرامن وطن سے محبت کا درس دیا اور یقین محکم اور تنظیم کے اصولوں کو بڑی مضبوطی سے قائم رکھا یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ قائدتحریک کو پاکستان سے گئے ہوئے 22سال ہو گئے ہیں مگر ان کے چاہنے والوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں وہ واحد سیاسی رہنماہیں جنھیں پاکستان کے ہر مکتبہء فکر کے علمائے کرام بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیںاور ایم کیو ایم کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک کارکن بھی علماء، فضلاء اور صحافی حضرات کا بڑا احترام کرتے ہیں۔

اس وقت لندن میں ان پر منی لانڈرنگ کے نام پر جو ہراس منٹ پیدا کی گئی ہے وہ ناقابل فہم اس لیے ہے کہ منی لانڈرنگ کا براہ راست تعلق کسی صورت پارٹی کے سربراہ سے نہیں ہوتا اور نہ ہی لندن کی گزشتہ تاریخ میں کسی منی لانڈرنگ کے مجرم کے ساتھ اس انداز کا سلوک کیا گیاہے بلکہ میں سمجھتا ہوں یہ ہمارے کچھ ایسے نادانوں کا کام ہے جو قائد تحریک الطاف حسین کی سندھ کے شہری علاقوں اور اندرون سندھ میں پھیلتی ہوئی مقبولیت کا سیاسی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے اس انداز کی سازش شروع کی جس انداز کی ذوالفقارعلی بھٹو کو سیاسی راہ سے ہٹانے کی گئی تھی اور میں سمجھتا ہوں یہ معاملہ منی لانڈرنگ تک نہیں رہے گا اس کا رخ دہشت گردی کے الزامات اور عمران فاروق کے قتل سے جوڑا جائے گا جب کہ قائد تحریک کا ان معاملات سے دور دور تک واسطہ نہیں۔

انھوں نے لندن میں رہ کر نہ وہاں کا کلچر اپنایا نہ وہاں کی سیاست کا حصہ بنے بلکہ مسلسل انھوں نے اپنی سیاسی، تاریخی و دینی معلومات میں اضافہ کیا اور اپنے عزم کو مضبوط بنایا ۔ ان کا مزاج یہ ہے کہ جو بھی ان کا ہمدرد ہے ان کا چاہنے والا ہے ان کا کارکن ہے ان کی جماعت کا نمایندہ ہے وہ کسی کو کسی مشکل میں نہیں دیکھ سکتے ، وہ اپنی پارٹی کے لوگوں سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسے باپ اپنی اولاد سے ، اسی وجہ سے دنیا نے دیکھا کہ جب چند دنوں پہلے انھیں گرفتار کیا گیا تو ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا اور کارکنوں نے جو جذبات، جوش میں تھے انھوں نے انتہائی پر امن رہ کر اپنے جذبات کا اظہار دھرنوں کی صورت میں کیا۔

ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر قائد تحریک الطاف حسین پر سازش کے بجائے اپنے مروجہ قوانین کے ذریعے تحقیقات کی جائے تو ہر حال میں وہ تمام الزامات سے بری الزمہ قرار پائیں گے۔ حکومت برطانیہ کی یہ ذمے داری ہے کہ اس سازش کو تلاش کیا جائے ان لوگوں کو بے نقاب کیا جائے جنھوں نے ایم کیو ایم کے اس قائد جس نے برطانیہ میں کبھی کوئی قانون شکنی نہیں کی، اس پر اس انداز سے تحقیقات کرنا خود حکومت برطانیہ کو داغدار کرنا ہے۔ برطانیہ وہ ملک ہے جہاں کی عدالتوں میں واقعی انصاف ملتا ہے۔ اگر ہماری حکومت نے اخلاقی اور قانونی معاونت کی تو یقینا بہت جلد قائد تحریک الطاف حسین تمام الزامات سے بری الزمہ قرار پائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔