دہشت گردی اور اصل چیلنجز

طلعت حسین  بدھ 11 جون 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

پاکستان اس وقت دو قسم کی دہشت گردی کا شکار ہے ۔ ایک براہ راست اور دوسر ی  بالواسطہ۔ ایک عمل ہے اور دوسرا نتیجہ۔ پہلی قسم کا نظارہ کراچی ایئر پورٹ پر حملے کی صورت میں تمام قوم نے کیا ۔ اس طرح کے حملے مقامی بندوق بردار گروپ نہیں کر سکتے ۔ اس میں صرف انتظام نہیں ، بہترین انتظام کارفرما ہے ۔ ان کو ترتیب دینے والے یقیناً ایسے دماغ ہیں جو پاکستان کو بہت عرصے سے دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔

پچھلے حملوں کی طرح اس حملے کا مقصد ملک کے اثاثوں کو تباہ کرنا اور اس سے کہیں زیادہ خطرناک اس خطہ زمین کے بارے میں یہ تصور پیدا کرنا مقصود ہے کہ یہاں پر اب کسی قسم کا امن ممکن نہیں۔ جہازوں کی آمدورفت اور ایئر پورٹ کی گہما گہمی بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے اپنے مال کے تحفظ کی نفسیا تی ضمانت گردانی جاتی ہے۔یہ ہو تو سرمایہ کاری نہیں ہوتی ۔ اور پھر کراچی کے ہوائی اڈے پر حملہ پاکستان کے معاشی استطاعت کے دل پر وار کے برابر ہے ۔ آنے والے دنوں میں ممکنہ طور پر یہ حملے تجارتی مراکز،بندرگاہوں اور فوجی تنصیبات پر مرکوز ہوں گے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اب یہ معاملہ رکنے کا نہیں ۔ اب حملہ آور سالوں یا مہینوں انتظار نہیں کریں گے ۔

دہشت گردی کی لہریں یکے بعد دیگرے اس ملک کو اپنی زد میں لا سکتی ہیں۔ پہلی نوعیت کی دہشت گردی میں پچھلے واقعات کی نسبت ریاست کا رد عمل چست اور کامیاب تھا۔ ہوائی اڈے کی سیکیورٹی فورس کے جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا۔ رینجرز اور فوج نے دہشت گردوں کو محدود کر کے تین گھنٹے میں یہ حملہ ناکام بنا دیا۔ صبح 3:30 کے بعدصرف باقی ماندہ خطرات کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے باقی کارروائیوں کے لیے کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دہشت گرد جہازوں کو تباہ نہیں کر سکے، اپنے پنجے جما نہیں سکے۔اغواء کرکے ملک کے لیے طویل دورانیہ کی شرمندگی کا باعث نہ بن سکے اور یا تو ماردیے گئے اور یا خود کشی پر مجبور ہو گئے ۔

یہ سب ایک کامیاب آپریشن کی نشانیاں ہیں۔ اگرچہ دہشت گردوں کا منصوبہ بنانا اور اس کو عملی جامع پہنانا از خود انتہائی فکر انگیز اور پریشانی کا امر ہے ۔ دہشت گرد گوریلا لڑائی کی اس تکنیک پر عمل کرتے ہیں کہ افراد ر،یاستی طاقت ور اداروں پر حملہ آور ہو کر اگر مر بھی جائیں تو ریاستی طاقت کو شدید نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اس زاویے سے دیکھیں تو ہوائی اڈے پر حملہ ہونا ہی پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکاہے ۔ مگر حملہ ہونے کے بعد ان کے منصوبے کو ناکام بنانا وہ کامیابی ہے جس کو ہم سرا سکتے ہیں۔ اس قسم کی دہشت گردی جاری رہے گی اور اس نپٹنے کے لیے ردعمل کی لڑائی دہشت گردوں کو مار دینا اس کارروائی کی طرح ہے جو بڑے پیمانے پر لگی ہوئی آگ کو بجھانے کے لیے فائر انجن کرتے ہیں۔ اور اگر آگ ہر دوسری جھاڑی میں لگائی جا رہی ہو تو پانی ڈالنے کی یہ کوشش کتنی مہنگی اور محنت طلب ہو سکتی ہے اس کا اندازہ ہم سب کو ہے ۔ اب آئیے دہشت گردی کی دوسری قسم کی طرف ۔ اس کا تعلق بین الاقوامی اور مقامی سازشوں سے بنے ہوئے اس جال سے نہیں ہے جس میں پاکستان اس وقت پھنسا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ نہ ہی اس کا ہدف جانتے بوجھتے ہوئے ملک کو تباہ کرنا ہے۔

اگرچہ بد قسمتی سے اس کے ہاتھوں ہوا نقصان دہشت گردوں کی کارروائیوں کے نتائج سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہے۔ میں اس انتظامی اور سیاسی افراتفری کا ذکر کر رہا ہوں جو کراچی ہوائی اڈے پر حملے کے دوران نظر آئی ۔ وزیر اعلی سے لے کر ڈی سی تک ادارے انتہائی گھبراہٹ اور حماقتوں کا منبع نظر آئے۔ دوران آپریشن وزیر اعلی ہوائی اڈے پر آن موجود ہوئے ۔ ان کے حواری تصویریں کھینچوانے اور پروٹوکول لینے دینے میں مصروف ہو گئے ۔ مظفر ٹپی بھی پہنچ گئے۔ یہ وہ انتظامیہ تھی جس کو آگ بجھانی تھی۔ ملبے میں دبے ہوئے افراد کو نکالنا تھا ، لوگوں کی معلومات کے لیے وہاں پر کوئی عارضی انتظام کرنا تھا، ان مشینوں اور افرادی قوت کا انتظام کرنا تھا جس نے کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے افراد کے لیے رستہ بنانا تھا ۔

وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ بنانا تھا ۔ کابینہ کے کلیدی ممبران کو ایمر جنسی میٹنگز کا اہتمام کرنا تھا۔ دوسرے الفاظ میں اوپر سے لے کر نیچے تک نظام کو غیر معمولی، تحریک، نظم ، اتحاد اور صلاحیت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ یہ ثابت کرنا تھا کہ ایسے حملوں پر رد عمل ٹی وی اور بیانات جاری کرنے تک محدود نہیں ہو گا۔ بڑے اور چھوٹے سب مل کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ عوام کو بدترین بد انتظامی کے مناظر دکھائے گئے۔ جو لوگ ریاست کے وسائل کھا کھا کر پھول چکے ہیں ، وہ کولڈ اسٹوریج میں چھپے ہوئے بدقسمت نوجوانوں کے لواحقین کو پانی پلوانا بھی بھول گئے۔ کام ایک دھیلے کا نہیں کیا۔

میٹنگز اور پریس کانفرنسز خوب کی۔ ٹی وی پر فون کے ذریعے بات چیت ایسے کرتے ہوئے سنائی دیے جیسے ان کو ہر پل کی خبر ہے اور یہ پہلو ان کے قابو میں ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ آگ بجھانے والا مواد بھی میسر نہیں تھا۔ما نگی تانگی مشینیں بھی اس وقت آئیں جب کیمروں کے سامنے کھڑے لواحقین پھٹ پڑے۔ اگر یہ بد نصیب خاندان واویلا نہ مچاتے تو کولڈ اسٹوریج کی لاشوں کو شاید ایک مہینے کے بعد ’’دریافت‘‘ کیا جاتا۔ ان خاندان کے پیارے ان کوتاہیوں کی وجہ سے اس دنیا سے چلے گئے، ان کو اس سے کیا غرض کہ ان کا نقصان دہشت گردوں کے ہاتھوں ہوا ہے یا نکمے حکمرانوں کے ذریعے ان کے لیے یہ بحث بے معنی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ وقتی طور پر جواب دینے کی صلاحیت اس نظام میں موجود ہے۔ مگر انتظامی اور سیاسی فیصلہ سازی کے بخیے اس طرح ادھیڑ چکے ہیں۔

ہمارے یہاں موجودہ صورت حال سے نپٹنے کے لیے دیرپا منصوبہ بندی کی کوئی بنیاد مو جود نہیں۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے آڑھے ترچھے انداز درست نہ کیے تو ان کی کو تاہیوں سے جنم لینے والا نقصان نا قابل تلافی ہو سکتا ہے۔بد قسمتی سے چھوٹے بڑے درجنوں واقعات ہونے کے باوجود سیاسی اور انتظامی نظام کی یہ کل درست نہیں ہو پا رہی۔ اس نظام کو چلانے والے اپنے طور طریقے نہیں بدل رہے۔ وہ کھانے کھلانے،پینے پلانے اور مواقعے گنوانے میں مصروف ہیں۔

وفاقی حکومت ہندوستان کے ساتھ سا ڑھی سفارت کاری میں مصروف ہے۔ قائم علی شاہ اس میں خوش ہیں کہ وہ ابھی تک قائم ہیں۔ عمران خان اپنے جلسے دیکھ کر اترا رہے ہیں۔ جب کہ بلوچستان میں بھی سیاسی ڈھانچہ اس خوش فہمی میں ہے کہ اچھا وزیر اعلیٰ مل جانے کے بعد حالات خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ پاکستان میں اصلی مسئلہ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی کا نہیں ہے، اس منصوبہ بندی کے فقدان کا ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کرنی ہے مگر وہ نہیں کر رہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔