سب کچھ ہو سکتا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 11 جون 2014

کہتے ہیں اپنی ذات کا درد کسی دور دراز کے ملک کے اس قحط سے زیادہ تکلیف دہ ہے جو لاکھوں افراد کی موت کا باعث ہوتا ہے اپنی گردن کا پھوڑا افریقہ کے چالیس زلزلوں سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے کارل نیڈبرگ کہتا ہے کہ ’’سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے‘‘ یہ ترقی جو آج آپ کو نظر آ رہی ہے کیا ہمارے آباؤ اجداد کا خواب نہیں تھی کیا وہ فضا میں خلا میں پرواز کرنا نہیں چاہتے تھے کیا وہ قدرت کے سر بستہ راز جاننا نہیں چاہتے تھے۔

آج وہ سب خواب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں کیونکہ خواب سے ہی سو چ جنم لیتی ہے اور سو چ ہی وہ ہتھیار ہے جو آپ کے ہر خواب کو حقیقت کا روپ دیتا ہے زندگی کی ہر جنگ آپ کو جتاتا ہے ، لیکن پاکستان میں سب کچھ ڈراؤنے خواب سے شروع ہوتا ہے پھر اس ڈراؤنے خواب سے ڈراؤنی سوچ جنم لیتی ہے اور پھر اس کے بعد ڈراؤ نے اقدامات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

اسی لیے تو کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شہر یا قصبے میں لوگ الٹے سر کے بل چلتے ہیں تو یقین جانیے میں سو چے سمجھے بغیر اس پر فوراً ایمان لے آؤں گا۔ کیونکہ پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے جس ملک میں اول درجے کے احمق بے وقوف اور جاہل بڑے بڑے اعلیٰ سرکاری و پبلک کے عہدوں پر براجمان ہوں اور ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہوں اگر سقراط افلاطون اور ارسطو آج زندہ ہوتے اور وہ ہمارے حکمرانوں کی حرکات، سکنا ت اور اقدامات کو بغور دیکھ رہے ہوتے تو وہ سر پیٹ پیٹ کر رہ جاتے کیونکہ ان سب حضرات کا اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ حکمران فلسفی یاد انشور ہونے چاہیں تا کہ ملک اور قوم محفوظ رہ سکیں اور ترقی کر سکیں ۔

جہاں عقل سے پیدل حضرات بڑے بڑے تجزیہ نگا ر بنے ہوئے ہوں وہاں سب کچھ ہو سکتا ہے جہاں راشی، کرپٹ، عوامی نمایندے ہوں جو عوام کی سننے کے بجائے مجر ے سنتے ہوں اور صرف اپنے فرنٹ مینوں کے فون سنتے ہوں وہاں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ جہاں ایسے لوگ مشیر بنے ہوئے ہوں جنہیں خود مشوروں اور مشیروں کی ضرورت ہو جہاں ایسے ایسے وزیر ہوں جن کی باتیں سن کر اللہ یا د آ جاتا ہو اور ساتھ ہی اس بات پر بھی یقین آ جاتا ہو کہ قیامت بہت قریب ہے۔

کیونکہ سنتے آئے ہیں کہ قیامت سے ذرا پہلے ایسی ایسی انہونیاں ہوا کریں گی کہ جس پر یقین ہی نہیں آئے گا جہاں وزیر دفاع اپنی ہی فوج کے خلاف زبان کھولے بیٹھے ہوں، جہاں ملک کی سلامتی و استحکام کی ضامن ایجنسی کے سر براہ کو ایک نجی ٹی وی چینل قصور وار کے طور پر دکھا رہا ہو۔ وہاں سب کچھ ہو سکتا ہے پاکستان ایسے عجیب و غریب ملک میں تبدیل ہو گیا ہے کہ جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہونی چاہیے وہ تو خالی ہاتھ ہیں اور جن کے ہاتھ خالی ہونے چاہیے ان کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے۔ اگر جن کے ہاتھوں میں ملک کی بھاگ دوڑ ہے ان سب کا ذہنی معیار اور کیفیت کا ٹیسٹ ہو جائے تو یہ سب حضرات اس ٹیسٹ میں فیل ہو جائیں گے۔

دنیا اور ہم میں فرق صرف سوچ کا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے آباؤاجداد بھی مثبت انداز میں نہیں سو چتے تھے شاہ جہاں اور کنگ ایڈورڈ دونوں بادشاہ اپنی بیویوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے دونوں کی بیویوں کی موت کینسر سے ہوئی۔ بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیوی کی یاد میں کروڑوں روپے خرچ کر کے تاج محل بنوایا جب کہ کنگ ایڈورڈ نے اپنی بیوی کی یاد میں University of Medical Research بنوائی تا کہ جس بیماری سے اس کی بیوی مری ہے ا س سے دوسروں کو بچایا جا سکے فرق صرف سوچ کا ہے ۔

اپنی سوچ کو تبدیل کیے بغیر ہم زندگی کی ہر جنگ ہارتے رہیں گے اور ہمیشہ ہی شکست خوردہ رہیں گے کہا جاتا ہے کہ اصلاح کی بنیاد انسان کی جہل سے شروع ہوتی ہے اور علم کی روشنی میں اس کا اختتام ہوتا ہے۔ جیمز لین ایلن اپنی کتاب ’’انسان کیسے سوچتا ہے‘‘ میں لکھتا ہے ’’جب کوئی شخص دوسرے لوگوں اور چیزوں کے متعلق اپنے خیالات بدلتا ہے تو وہ دیکھے گا کہ دوسرے لوگوں اور چیزوں کے رویے میں خود بخود تبدیلی پیدا ہو گئی ہے اگر کوئی انقلابی طور پر اپنے خیالات کو تبدیل کرے تو وہ اس تیز رفتار تغیر کو دیکھ کر حیران رہ جائے گا جو اس کے مادی حالات پر اثرانداز ہو گا انسان میں ان چیزوں کو اپنی طرف کھینچنے کی قدرت نہیں ہے۔

جنہیں وہ چاہتا ہے وہ دیوتا جو ہماری خواہشوں اور آرزؤں کو تکمیل کا روپ دیتے ہیں وہ خود ہم ہی ہیں انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ اس کے خیالات کا براہ راست نتیجہ ہوتا ہے ایک انسان محض اپنے خیالات کو بلند کر کے ابھار کر آگے بڑھا سکتا ہے ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے اور کامیابی کی کشتی میں سوار ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے خیالات کو ابھارنے سے انکار کر ے گا تو وہ صرف حقیر، کمزور، ادنیٰ اور شکستہ حال رہے گا۔ امریکا کے مشہور پیٹرگیر نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ڈائریکٹر کی حیثیت کیا تھا۔ بیٹ مین، رین مین اور مڈنا ئٹ ایکسپریس جیسی شاہکار فلمیں ڈائریکٹ کر کے اس نے اپنا لوہا منوا رکھا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران اس نے بتایا کہ 1979ء میں میرا ارادہ بیٹ مین شروع کرنے کا تھا میں نے جس کسی سے بھی اس پراجیکٹ کا ذکر کیا اس نے میری حو صلہ شکنی کی مجھے کہا گیا کہ یہ بچوں کا کردار ہے اسے ہر کوئی جانتا ہے لوگ کچھ اور ڈیمانڈ کرتے ہیں وغیرہ۔

لیکن مجھے یقین کامل تھا کہ یہ فلم کامیاب ہو گی میں مستقل مزاجی سے اس فلم کے پیچھے پڑا رہا اور آخر کار میں 1988ء میں یہ فلم بنانے میں کامیاب ہو گیا میری اور میرے ساتھیوں کی محنت رنگ لائی اور فلم سپرہٹ ثابت ہوئی۔ میری دوسری فلم رین مین تھی فلم کے اسکر پٹ کو 5 رائٹر وں نے دیکھا اور رد کر دیا یہاں تک کہ اسٹیون اسپیل برگ نے بھی مجھے مشورہ دیا کہ میں وقت اور پیسہ برباد نہ کروں۔ مجھے کہا گیا کہ لوگ اب مار دھاڑ، ایکشن اور سیکس کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔

تمہاری فلم میں باہمی تعلقات کی بات ہے تو اسے لوگوں نے کیا کرنا ہے مگر میں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور اسکر پٹ بدلنے یا فلم کو ختم کرنے سے صاف انکار کر دیا اس فلم نے 4 آسکر ایوارڈ حاصل کیے اور کامیابی کے نئے جھنڈے گاڑے۔ جب ان سے پوچھا گیا کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا تو پیٹر گیر کا جواب تھا۔ ڈر اور خوف مجھے مزید کام پر اکساتا ہے اور میں نت نئے منصوبے بناتا ہوں ایسے ماحول میں کام کرنے کا مجھے مزا آتا ہے۔ ولیم کالج میں موجود ایک کتبے پر تحریر ہے ’’اوپر چڑھو آگے بڑھو تمہاری منزل آسمان ہے ستارے چھولو۔‘‘ یہ سچ ہے کہ آج تک ہماری زندگی کی فلم بری طرح فلاپ ثابت ہوتی ہے لیکن یہ ضروری تو نہیں ہے کہ آیندہ بھی فلاپ ہی رہے گی ۔

آئیں ہم سب مل کر اپنی زندگی کی فلم کو سپر ہٹ بنانے کے لیے آج ہی سے اس کے اسکرپٹ پر کام شروع کر دیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو یکسر تبدیل کر دیں اپنے خوف اور ڈر کو اپنی طاقت بنا لیں اپنی زندگیوں کے فیصلوں کا اختیار دوسروں کو دینے کے بجائے خود کریں۔ لیٹروں، غاصبوں سے اپنی جان چھڑا لیں اپنے رویّے یکسر تبدیل کر دیں یاد رکھیں خسارہ یا ناکامی ہمار ا مقدر نہیں ہے ہم نے بہت دکھ اور تکلیفیں سہہ لی ہیں ترقی، کا میابی و خوشحالی اور بااختیار ہونا دنیا کی طرح ہمارا بھی حق ہے آج ہی سے اپنے نئے سفر کا آغاز کر دیں پھر دیکھیں کس طرح چپکے سے خوشحالی اور کامیابی ہمار ے گھروں میں داخل ہو جاتی ہے جسے دیکھ کر دنیا بھی کہے گی کہ پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔