کیا روم یونہی جلتا رہے گا؟

مقتدا منصور  جمعرات 12 جون 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اتوار کی شب کے ہونے والے دہشت گرد حملے  کے اثرات ابھی جاری تھے کہ منگل کو   ASFکے ہیڈکوارٹرپر دوبارہ دہشت گردوں کا حملہ ہوگیا۔بعد میں ایس پی ملیر نے وضاحت کی کہ اے ایس ایف اکیڈمی پر کوئی  حملہ نہیں ہوا تھا، کچھ شر پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر نے گڑبڑ کی تھی۔تاہم  اتوار کی شب ہونے والے دہشت گرد حملے میں کراچی ائیرپورٹ کی پرانی عمارت میں قائم ہینگراور وہاںکھڑے جہازوں کو نشانہ بنایاگیا تھا۔ان کے ارادے خطرناک تھے۔شاید وہ ائیر پورٹ پر کھڑے تمام جہازوں کو تباہ کرکے پاکستان کے ہوائی نظام کو تباہ کرنا چاہتے تھے یا پھر کچھ اہم شخصیات کو یرغمال بناکر اپنے مخصوص مطالبات کی تکمیل چاہتے تھے۔

بہر حال 17گھنٹے کی جاں گسل کارروائی کے بعدحکومت 7دہشت گردوں کوہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جب کہ 3دہشت گردوں نے خود کو اپنے جسم پر بندھے بموں سے اڑا لیا ۔اگر اس کارروائی کے دوران ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو دہشت گردی کے اس واقعے میں30کے قریب سیکیورٹی اہلکار اور ہوائی اڈے پر مصروف کار ملازمین کے علاوہ35کے قریب افراد زخمی ہوئے۔چھ جہازوں کو نقصان پہنچااور ہینگرمکمل طورپر تباہ ہوگیا۔اتنے بڑے نقصان کے بعدصر ف 7 دہشت گردوں کو مارنے پر حکومت کا بغلیں بجانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔

حکمرانوں کی ایک اور نااہلی پیرکی شام کو اس وقت سامنے آئی،جب اس نے مکمل جانچ پڑتال کیے بغیر ائیر پورٹ کو کلیر قرار دیدیا، حالانکہ ایک کمپنی کے 7ملازمین نے جان بچانے کے لیے کولڈ اسٹوریج میں پناہ لے رکھی تھی۔ جو22گھنٹے تک مخدوش عمارت میں بند رہنے کے باعث  جاں بحق ہوگئے۔انتظامیہ کی ناکامی اور اس میں استعداد کی کمی کا اندازہ منگل کو ائیر پورٹ سے ملحقہASFاکیڈمی اور ہاسٹل پر شر پسندوں کی فائرنگ سے لگایا جاسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری سلامتی کے ادارے مکمل طورپر مفلوج ہوچکے ہیں۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ یہ واقعات دہشت گردی نہیں بلکہ دہشت گردوں نے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کوئی نیا مظہر(Phenomenon)نہیں ہے ۔پاکستانی عوام گزشتہ دو دہائیوںسے اس کا شکار چلے آرہے ہیں۔لیکن سرکاری سطح پر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا ہے کہ عوام کو اس عفریت سے اگربوجہ نجات نہیں دلائی جاسکتی تو کم از کم اس سے ہونے والے نقصانات ہی کوکم کیا جاسکے ۔اس حوالے سے عوام کے ذہنوں میں ان گنت سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ مگر نہ حکومت ، نہ اسٹبلشمنٹ اورنہ ہی سیاسی قیادتوںکے پاس ان سوالات کا کوئی جواب ہے۔

عوام کو اس سے غرض نہیں کہ حکومت شدت پسند عناصر سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے یا ان کے خلاف سخت ایکشن لیناچاہتی ہے ۔ انھیں اپنی جان و مال کی حفاظت میں دلچسپی ہے، جومسلسل خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ اب تک قائم ہونے والی حکومتیںعوام کو تحفظ فراہم کرنے میںشاید اس لیے ناکام ہیں، کیونکہ ان میں ایسے واقعات سے نمٹنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی استعداد(Capacity) نہیں ہے یا پھر ان میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ ان معاملات کی نزاکت اور سنگینی کا ادراک کرسکیں ۔ لہٰذاان معاملات کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لینا انتہائی ضروری ہوگیا ہے ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ2001میں امریکا میں9/11ہوتا ہے ۔اس سانحے کو ان کی سلامتی کی ایجنسیوں کی لااپرواہی،عدم توجہی(Negligence)یا کمزوری  کچھ بھی نام دیا جاسکتاہے۔لیکن اس واقعے کے بعد سے اب تک 13برس کا عرصہ گذرگیا، وہاں اس نوعیت کا کوئی بڑا سانحہ نہیں ہوا۔برطانیہ میں7/7کا واقعہ رونماء ہوا،قیمتی انسانی جانوں کا زیاں اور کروڑوں پونڈ کی املاک کو نقصان پہنچا۔ اس واقعے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے وہاں کی سلامتی کی ایجنسیاں اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلی لائیں اور انھوں نے عوام کی جان و مال کی حفاظت کویقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔

نتیجتاً وہاں اس سانحے کے بعد کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوسکا ہے ۔ 26 نومبر 2014ء کو ممبئی میں دہشت گردی کا بڑاواقعہ رونماء ہوتا ہے ۔10دہشت گرد کلابہ کے علاقے میں دو بڑے ہوٹلوںکو یرغمال بناتے ہیں تو سیکیورٹی ایجنسیوں میں پائی جانے والی کمزوریاں ضرور سامنے آتی ہیں ۔ لیکن اس کے بعد وہ اپنا تحفظاتی نظام تبدیل کردیتی ہیں۔نتیجتاً  6برسوں کے دوران کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا ۔

اب اس تناظر میں پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو ایک جیسی نوعیت کے واقعات تسلسل کے ساتھ کئی برسوں سے رونما ہو رہے ہیں، مگر ہمارے ارباب اختیار حادثہ یا سانحہ رونما ہوجانے کے بعد کوئی مناسب حکمت عملیاں تیار نہیں کرسکے ہیں۔

مہران بیس پر حملہ، GHQپر حملہ، کامرہ ائیر بیس پر حملہ اوراس جیسے ان گنت چھوٹے بڑے حملوں کے واقعات اور اب کراچی کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر حملہ ایک طرف ۔جب کہ کراچی سمیت بڑے شہروں میں پبلک مقامات پر بم دھماکے، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں اور اسٹریٹ کرائمز کا بڑھتا ہوا رجحان ، سیاسی اورفرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور عقیدے کی بنیاد پر مخالفین کی بستیوں پر خود کش حملے وہ واقعات ہیں، جن میں عوام کے جان ومال براہ راست متاثر ہوتے ہیں ۔مگر دس برس سے زائد مدت گذرجانے کے باوجود حکومت اور متعلقہ ادارے ان واقعات کی مناسب روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اور مناسب پالیسی تیار نہیں کرسکے۔اس سے دو باتوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔اول، ہمارے منصوبہ ساز منافقت اور دہرے معیار کا شکار ہیں۔دوئم ریاستی اداروں میں استعداد میں کمی ہے یا یہ ایسے معاملات سے نمٹنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے ۔

جدید دنیا میں دہشت گردی اور جرائم کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ایسے جرائم پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے لیے روایتی بعد ازسانحہ اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، کیونکہ جو نقصان پہنچنا ہوتا ہے وہ پہنچ چکا ہوتا ہے۔بلکہ ایسے واقعات کے رونما ہونے سے قبل روک تھام کے لیے پولیس سمیت سیکیورٹی کے دیگر اداروں کو Proactive  کردارکے لیے تیار کیا جانا ہوتا ہے ۔لیکن پاکستان میں پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی جدید خطوط پر تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی اب تک آنے والی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی مناسب اقدام کیا ہے۔پھر عرض ہے کہ دہشت گردوں یا جرائم پیشہ افراد سے مذاکرات یا ان کے خلاف کارروائی حکومتی پالیسی کا معاملہ ہے، جس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں۔انھیں تحفظ چاہیے، جس کے لیے حکومت کو بہر حال اقدامات کرنا چاہئیں ۔

گزشتہ برس کراچی آپریشن سے قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 4ستمبرکو سینئر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں سے ملاقات کی تھی۔ اس میٹنگ میں راقم نے  آپریشن کے بارے میں اس لیے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں پولیس کا معیار اور استعداد اس سطح پر نہیں کہ وہ حساس نوعیت کے جرائم پر قابو پا سکے ۔ جب تک پولیس کوغیر سیاسیDepoliticiseنہیں کیا جاتا اور سپاہی سے نان کمیشنڈ افسران تک کی تقرریاں متعلقہ ضلع کے افراد میں سے میرٹ کی بنیاد پرنہیں کی جاتیں ، پولیس سےProactive اقدامات کی توقع کرنا عبث ہے۔

راقم نے دوسرا اعتراض رینجرز کو پولیس کے اختیارات تفویض کیے جانے پر اٹھایا تھا ۔ راقم کے خیال میں جرائم پر قابو پانا بنیادی طور پر پولیس کی ذمے داری ہوتی ہے  جب کہ دیگر سیکیورٹی ادارے اس کی مدد کرتے ہیں، لیکن اس کی ذمے داریاں انھیں تفویض کرنے یا حصے داربنانے سے مختلف نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے ۔

پھر عرض ہے کہ حکومت،اسٹبلشمنٹ اور سیاسی قیادتیں گومگو کی کیفیت سے باہر نکلیں اور ملک کو دہشت گردی کی شکل میں درپیش عفریت کی شدت کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں ۔ انھیں دو کلیدی فیصلے جلد یا بدیر بہرحال کرنا پڑیں گے ۔ اول ، یہ طے کرنا ہوگا کہ پاکستان کے وجود اور اس کے آئین کو تسلیم نہ کرنے والوں اور پاکستان کے عوام اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے۔ آیا مذاکرات کرنا ہیں یا سخت ایکشن لینا ہے؟

دوئم ، عوام کو ہر قسم کے جرائم اور دہشت گردی سے محفوظ کرنے کے لیے پولیس سمیت سیکیورٹی کے دیگر اداروں کی جدید خطوط پر تربیت اور انھیں حساس اسلحہ اور ضروری سازوسامان سے لیس کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پرترجیحی اقدامات کی ضرورت کا ادراک ۔اول الذکر معاملہ قومی سلامتی سے متعلق حساس اور نازک مسئلہ ہے جس کی حکمت عملی حکومت اور فوج نے تیار کرنا ہے ۔ لیکن پولیس سمیت سیکیورٹی کے دیگر اداروں کوProactive اقدامات کے لیے تیار کرنے کی خاطر ان کی تربیت کا اہتمام اورانھیں جدید اسلحہ اور دیگر سازوسامان کی فراہمی صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے ، جس کے لیے وفاقی حکومت سے تعاون بہر حال مانگا جاسکتا ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں روایتی سوچ کے سحر سے باہر نکلیں اور پولیس کے محکمے میں تطہیر اور اس کی میرٹ پر تشکیل نوکو یقینی بنانے کی کوشش کریں تاکہ عوام کو تحفظ فراہم ہو سکے ۔ اس مقصد کے لیے پولیس سمیت سیکیورٹی اداروں میںکی جانے والی تقرریوں کو شفاف بنانا ہوگا اور انھیں مختلف بدعنوانیوں سے پاک کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے ۔ایسا نہ ہو کہ ملک کا ہر شہر دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہے اور حکمران نیرو کی طرح بانسری بجاتے رہیں ۔اس لیے اب دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن اور اندرونِ ملک عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی فعال حکمت مرتب کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔