رویے زار زار کیوں؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 12 جون 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

شاعر نے غلط نہیں کہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پیرکی صبح کراچی ایئرپورٹ پہ دہشت گردوں کے حملے کی خبر سے ہوئی کہ ہم دیر رات گئے جاگنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ نہ ہی سارا دن ٹیلی ویژن دیکھنے کی فرصت ہے نہ عادت ۔ ایکسپریس کی ہیڈلائن پڑھتے ہی ٹی وی کھولا تو دیکھا ایک اور ماتم اس شہر کا مقدر بن چکا ہے۔دھواں، آگ، لاشیں، کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے نجی کمپنی کے 7  ملازمین جو دہشت گرد حملہ آوروں سے بچنے کے لیے پناہ ڈھونڈتے ہوئے کولڈ اسٹوریج میں بند ہوگئے۔ شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ کراچی جیسے یتیم اور لاوارث شہر کو اپنے اپنے مفادات کی خاطر موت کے سوداگروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ یہاں کہیں پناہ نہیں۔ سڑک پہ چلتے ہوئے، ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے، پارکوں میں، مارکیٹوں میں ، ہر جگہ ان کا راج ہے۔

ایک عام شہری نے بھی محسوس کرلیا کہ مہران بیس حملوں میں خاصی مماثلت ہے۔ تقریباً ایک ماہ پہلے ہی اداروں کو اطلاع دے دی گئی تھی کہ ’’ہائی الرٹ‘‘ رہیں۔ انتہاپسند تیاریاں کر رہے ہیں۔ حملہ آور ہمیشہ جدید ترین اسلحے سے لیس اور تربیت یافتہ کمانڈو ہوتے ہیں۔ جنھیں سرنگ لگانے میں معاونت اندر سے فراہم کی جاتی ہے اور یہاں ہر بار ’’گھر کا بھیدی‘‘ ہی لنکا ڈھاتا ہے۔ حادثے کے بعد ہمیشہ کی طرح اسٹیج سج گئے، بیانات آنے لگے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے لگیں۔ حدود پہ لڑنے لگیں۔

بالکل تھانے داروں کی طرح جو کسی بھی حادثے کی ذمے داری قبول نہیں کرتے، اپنی اپنی حدود کا تعین کرکے ایف آئی آر تک درج نہیں کرتے۔ لیکن کسی سڑک پہ انسانی لاشوں کے بجائے اگر قیمتی سامان گرگیا ہو تو سارے تھانے جو اس علاقے کی حدود میں آتے ہیں مال ہتھیانے کے لیے فوراً موجود ہوتے ہیں۔ افسوس کہ سول ایوی ایشن  وفاقی حکومت کے باتحت ادارہ ہے۔ تو پھر سندھ کے وزیر اعلیٰ اور دیگر وزرا وہاں کیوں آئے تھے؟ کیا صرف تصویریں کھنچوانے؟ وزیر اعلیٰ اب عمر کے جس حصے میں ہیں (خدا انھیں عمر خضر عطا فرمائے) اس میں انھیں اپنے ناتواں کاندھوں پہ وزیر اعلیٰ کی برائے نام ذمے داری قبول نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن کیا کریں کہ ’’سائیں‘‘ کا حکم اور انعام دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔

دوسری طرف ان سات اہل کاروں کو انتہائی مجرمانہ غفلت برتنے پر کس کو ذمے دار ٹھہرایا جائے اور کس کو سزا وار۔ اداروں کی، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی یہ غیر انسانی حرکت جس میں جان بوجھ کر 7 خاندانوں کے گھر ماتم بپا کروایا گیا …کون اس کی سزا بھگتے گا… چلیے سندھ کے انتہائی فعال اور مقبول وزیر اعلیٰ جب شاہ زیب خان زادہ کے پیچھے کھڑے تھے اور ان کے ساتھ ایک اور بہت سرگرم شخصیت بھی نظر آرہی تھی تو جاگتی آنکھوں نے دیکھا کہ شاہ زیب خود بھی آبدیدہ تھے اور گھر بیٹھے ناظرین بھی ناقابل برداشت تکلیف محسوس کر رہے تھے۔

دکھی دلوں کے ساتھ وہ تمام لوگ جو ایکسپریس نیوز کی ’’لائیو‘‘ ٹیلی کاسٹ دیکھ رہے تھے۔ سب کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے دعائیں کر رہے تھے کہ وہ زندہ ہوں۔ لیکن حکومتی نمایندوں کی بے حسی قابل دید تھی۔ بے تاثر چہرے کیمروں کی طرف منہ کرکے جلوہ آرائی اور فوٹو سیشن کے چند منٹوں کے بعد وہاں سے ایسے غائب ہوگئے جیسے۔۔۔۔؟ رہنے دیجیے ایک کہاوت یاد آگئی۔ ذہین قارئین سمجھ گئے ہوں گے۔

چلیے مان لیا کہ کراچی ایئرپورٹ وفاق کی ذمے داری ہے۔ لیکن مرنے والے انسان تھے، کوئی بے جان سامان نہیں۔ کیا ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کراچی میں رہتے تھے۔ جس کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ 70 فیصد ریونیو کماکر دینے والا شہر آئے دن حادثات، جلاؤ گھیرو اور دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں رہتا ہے۔ افسوس کہ وفاق اس کی آمدنی میں تو حصے دار ہے لیکن لاشیں اٹھانے میں نہیں۔

مجھے کہنے دیجیے کہ کراچی کے شہری اب سنجیدگی سے یہ کہنے لگے ہیں کہ آخر ان کا قصور کیا ہے۔ کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ کہ انھیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے؟ سارے منصوبے، تمام سہولیات صرف دوسروں  کے لیے کیوں مخصوص کردی گئی ہیں۔ جہاں میٹرو ٹرین چلنی چاہیے وہاں اب انتہائی غیر محفوظ چنگچی رکشوں کا راج ہے۔ نہ یہاں بجلی ہے، نہ پانی۔ لینڈ مافیا کے سرپرست وہ بڑے اور بااثر لوگ ہیں جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ اگر سندھ کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہوتے تو کراچی کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اور جو سانحہ ایئرپورٹ پہ ہوا ہے۔ وہاں سب سے پہلے پہنچنے والوں میں بھی شہباز شریف ہی ہوتے کہ وہ ذمے دار لیڈر ہی نہیں ایک دردمند اور حساس انسان بھی ہیں۔ کاش چند سالوں کے لیے ڈیپوٹیشن پر ہی وفاقی حکومت انھیں سندھ کا وزیر اعلیٰ مقرر کردے۔

یہ بھی وفاق کی ذمے داری ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں خاطر خواہ کام کرنے کے بجائے صرف اپنے اپنے گاؤں، قصبوں، مقبروں اور برسیوں تک خود کو محدود کیے ہوئے ہیں تو ان سے باز پرس کی جائے کہ وہ فنڈز جو شہر اور شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے مختص کیے گئے تھے وہ کہاں خرچ ہوئے ،اندرون ملک اور بیرون ملک جو اثاثے بنائے گئے، محلات تعمیر بھی ہوئے اور خریدے بھی گئے کن ذرایع سے وہ رقم حاصل کی گئی۔ لیکن یہ کوئی برطانیہ تو ہے نہیں جہاں کوئی بھی شے خریدتے وقت ذریعہ آمدنی اور ذرایع آمدن دونوں بتانا پڑیں۔

اور اب آخر میں اسی شعر کی طرف آؤں گی کہ اگر منصوبہ بندی کرلی جاتی، سابقہ واقعات سے سبق سیکھا جاتا تو یہ المناک سانحہ نہ ہوتا۔ افسوس کہ آپس کی سیاسی لڑائی نے دہشت گردوں اور حملہ آوروں کو خوب موقع فراہم کیا۔ اب اس آپس کی لڑائی کا نتیجہ دیکھ لیجیے۔ اس لڑائی میں بہت سوں نے دادا جی کی فاتحہ کے لیے مٹھائی کی دکان منتخب کرلی۔ لیکن جن ’’مقدس‘‘ ہستیوں کو اپنے بارے میں بات کرنا بہت برا لگا تھا اور ہمیشہ لگتا ہے خود انھوں نے بھی یہ نہیں سوچا کہ انسان اہم ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ پاکستان سے کسی حکمراں  کو کوئی ہمدردی نہیں۔ اسی لیے شاہ زیب خان زادہ روتا رہا اور مدد کے لیے حکمرانوں کو پکارتا رہا۔ لیکن کوئی نہ آیا۔ کیونکہ وہ وقت ان کا کچھ کھانے پینے اور خوش گپیوں اور نام نہاد میٹنگوں کا تھا۔ انسان مر رہے تھے۔ لیکن فوٹو سیشن جاری تھا۔

بقول غالب:

روئیے زار زار کیا‘ کیجیے ہائے ہائے کیوں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔