کراچی: اُجڑ چکا ہے شہر یا اُجڑنے والا ہے۔۔۔؟

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 12 جون 2014
بجلی لوڈ شیڈنگ، قلت آب کا مسئلہ، تعلیم وصحت کی سہولیات کا فقدان۔   فوٹو : فائل

بجلی لوڈ شیڈنگ، قلت آب کا مسئلہ، تعلیم وصحت کی سہولیات کا فقدان۔ فوٹو : فائل

قیامت خیز گرمی میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور قلتِ آب کے علاوہ کراچی شہر دہشت گردی اور بدامنی سمیت بے شمار مسائل کا شکار ہے۔

شہری آئے روز اپنے مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں لیکن انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کے افسران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی اداروں میں سہولیات کی فراہمی کے نام پر عوام سے ٹیکس وصول کرکے اپنی جیبیں بھری جارہی ہیں۔

پچھلے دنوں اس کرپشن کا پردہ چاک ہوا اور ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے بدعنوان افسر اور اس کے مددگار بینک ملازمین کو گرفتار کرلیا۔ یہ کروڑوں روپے کی بدعنوانی کا کیس ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ اس کی شفاف اور مکمل تحقیقات کے بعد ملزمان کو سخت ترین سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی افسر عوام کا حق مارنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔

ایک طرف دہشت گردی، بدامنی، منہگائی اور بے روزگاری کا عذاب شہریوں کے سروں پر مسلط ہے اور دوسری جانب ٹیکس کی ادائیگی اور دوسری ذمہ داریاں پوری کرنے کے باوجود عوام صحّت، تعلیم، ذرایع آمدو رفت سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان حالات میں عوام کا حکومت اور منتخب نمائندوں سے مایوس ہونا فطری امر ہے۔

دوسری طرف حزبِ اختلاف کی جماعتیں فقط اپنے سیاسی مطالبات کی منظوری کے لیے میدان میں نظر آتی ہیں، البتہ جماعتِ اسلامی نے عوام کے لیے ایک غیرسیاسی اور خالصتاً عوامی منشور پیش کر کے کراچی کے باسیوں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔

یہ ایک عرصے کے بعد کسی جماعت کا پہلا اور بڑا عوامی مورچہ ہے جس سے وفاق کی جانب مطالبات کی بارش کی جارہی ہے۔ اسے عوامی چارٹر کا نام دیا گیا ہے۔ جماعتِ اسلامی کی قیادت نے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف سے شہر کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک کھرب روپے کے خصوصی پیکیج کی اپیل کی ہے۔

اس سلسلے میں شہر کے مختلف علاقوں میں کیمپس قائم کر کے جماعتِ اسلامی کے اراکین یہاں کے باسیوں کو سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں، جو ہر طرح سے برباد ہوتے ہوئے کراچی کو بچانے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔

کراچی ملک کا معاشی حب قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کی تعمیر و ترقی پر توجہ نہیں دی جارہی۔ شہریوں کے لیے ہر سطح پر سہولیات کا فقدان ہے، جس سے مزید مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جماعتِ اسلامی (کراچی) کے امیرِ حافظ نعیم الرحمن کی طرف سے پریس کانفرنس میں کراچی عوامی چارٹر کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا کہ امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے لیے اقدامات، شفاف عدالتی نظام، ٹھوس اقدامات کے ذریعے اسٹریٹ کرائمز کا خاتمہ، سیکیوریٹی اداروں میں سیاسی بھرتیوں کی روک تھام، پولیس کی تنظیمِ نو کی جانی چاہیے۔

معاشی تجاویز میں کراچی کی صنعتوں کی دوسرے صوبوں میں منتقلی روکنے کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان، صنعتوں میں گیس اور بجلی کی مستقل فراہمی، تاجروں کو اغوا اور بھتا خوری سے بچانے کے لیے خصوصی اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ شہر میں ٹیکس فری زونز کا قیام، کراچی کے لیے پانچوں کوریڈورز میں میٹرو بس اور سرکلر ریلوے کی بحالی کے اقدامات کا جائزہ لینے اور ٹریفک پولیس کی تنظیمِ نو کے ساتھ ساتھ رشوت ستانی کا خاتمہ کیا جائے۔

شہر میں معیاری اور پُرسکون ماحول میں تعلیم دینے کے لیے دو سرکاری یونی ورسٹیوں، دو میڈیکل کالجز اور آئی ٹی یونی ورسٹی کے ساتھ خواتین کے لیے جامعہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس کے ساتھ 50 نئے کالجز بھی قائم کیے جائیں۔ اس عوامی منشور میں صحت کے شعبے میں اصلاحات، ٹاؤن میں سرکاری ایمرجینسی ہیلتھ سینٹر اور اضلاع میں امراض قلب کے اداروں کا قیام عمل میں لانے کے ساتھ کم از کم ہزار بستروں پر مشتمل دو نئے اسپتالوں کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

ان دنوں شدید گرمی کی وجہ سے پانی کا استعمال بڑھ گیا ہے، لیکن بجلی کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے واٹر بورڈ اور دیگر متعلقہ ادارے شہر میں پانی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے سے معذوری ظاہر کر رہے ہیں۔ ماضی میں بھی کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے درمیان اس پر تنازع پیدا ہوا تھا، جس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑا۔ اب بھی مختلف علاقوں میں کئی روز تک پانی کی عدم فراہمی سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جماعتِ اسلامی کے عوامی منشور میں پانی سے متعلق ’کے فور‘ منصوبے پر عمل درآمد پر زور دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے پلانٹ لگانے کی بات کی گئی ہے، جو یقیناً نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے بجلی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ’کے الیکٹرک‘ کو معاہدے کے مطابق نئے پاور پلانٹس لگانے پر آمادہ کرنے کی بات کرتے ہوئے اوور بلنگ کی روک تھام پر زور دیا ہے، جو بلاشبہ عوام کی حقیقی آواز ہے اور ایک اہم مسئلہ ہے۔ ان بنیادی نکات کے ساتھ یہ عوامی چارٹر شہریوں کے احساسات اور جذبات کا ترجمان ثابت ہوا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ منی پاکستان اور معاشی حب کہلانے والے اس شہر میں ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ تعلیم، صحت، تجارت، کھیل اور ٹرانسپورٹ و دیگر شعبے برباد ہو رہے ہیں، لیکن اربابِ اختیار اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہیں۔ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام تر سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہر اور شہریوں کے دکھوں کا مداوا کرے اور عوام دوست ہونے کا ثبوت دے۔

ان دنوں جہاں شہر میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں، وہیں بہت سے علاقوں میں کئی دن تک پانی کی عدم فراہمی پر شہری سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ حب ڈیم میں پانی کی کمی کے باعث واٹر بورڈ نے شہری علاقوں میں ’ناغہ سسٹم‘ رائج کیا تھا اور کئی علاقوں کو 48 گھنٹے کے وقفے سے پانی سپلائی کیا جارہا تھا، تاہم اس دوران یہ شکایات سامنے آئیں کہ شیڈول کے مطابق فراہمیِ آب کے سلسلے میں ناانصافی کی جارہی ہے اور ٹینکر مافیا کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ مقامی رہائشیوں کے حصّے کا پانی ہائیڈرینٹس سے ٹینکروں کے ذریعے منہگے داموں شہریوں کو فروخت کیا جارہا ہے۔

قلتِ آب کے ستائے شہری ٹینکر مافیا کے ہاتھوں لُٹ رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی عدم دل چسپی اور بیوروکریسی کے عوام دشمن رویے کے باعث کراچی کو 60 کروڑ گیلن یومیہ فراہمی آب کا ’ کے فور‘ منصوبہ فائلوں میں پڑا سڑ رہا ہے۔ اس منصوبے پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے پانی کے بحران کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ حق پرست ارکان سندھ اسمبلی نے بھی اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی اور بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کراچی کے عوام کے ساتھ زیادتی کے مترادف قرار دیا ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، وزیر اعلیٰ سندھ اور متعلقہ وفاقی و صوبائی وزرا سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں ’کے فور‘ منصوبے سمیت دیگر ضروری اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کیے جائیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ اگر جماعتِ اسلامی نے ایک عوامی منشور دیا ہے، تو اسے سیاسی مخالفت کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت اگر عوام دوستی کی دعوے دار ہے تو اسے کسی بھی جماعت کی طرف سے حقیقی عوامی مطالبے کو زیرِ بحث لا کر اس پر غور ضرور کرنا چاہیے، کیوں کہ یہی رویہ ملکی خوش حالی اور اجتماعی ترقی کے سفر کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ میڈیا کے ذریعے اپنے مسائل اور مشکلات آگے پہنچانے پر وزرا اور متعلقہ اداروں کے حکام یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ وزیرِ اعلیٰ کو خط لکھ دیا ہے، تجاویز بھیج دی گئی ہیں، فنڈز کی فراہمی کے لیے بات کررہے ہیں، اور جلد اس مسئلے کو حل کر لیا جائے گا، لیکن یہ سب دعوے اور اعلانات کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔

ان کا سوال ہے کہ آخر کب تک انہیں جھوٹے وعدوں اور خوش رنگ باتوں سے بہلایا جاتا رہے گا، کیا یہ شہر اُن کا نہیں، جو حکومت اور بلدیاتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، اگر ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس کی حالت بہتر بنانے میں وہ اپنا کردار ادا نہیں کر پارہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔