(میڈیا واچ ڈاگ) - کچھ بھی ہوجائے بس منہ سے بھارت کا نام نہ نکلے

حسنین انور  جمعرات 12 جون 2014
کوئی اگر آپ کے ایک گال پر تھپڑ مارے تو پھر جھٹ سے دوسرا گال پیش کردینا چاہئے مگر منہ سے آہ نہیں کرنا چاہئے۔ فوٹو فائل

کوئی اگر آپ کے ایک گال پر تھپڑ مارے تو پھر جھٹ سے دوسرا گال پیش کردینا چاہئے مگر منہ سے آہ نہیں کرنا چاہئے۔ فوٹو فائل

جب بھی میں میڈیا پر لوگوں کو بھارت کے ساتھ محبت کے راگ الاپتا ہوا سنتا تو بے اختیا جی سر دھننے کو کرتا ہے۔ اس راگ کی مٹھاس اتنی ہوتی ہے کہ کمزور اعصاب والا بے چارہ سن کر شوگر کا مریض بن جائے اور بسا اوقات تو دوستی کے فوائد کا ایسا نقشہ کھینچا جاتا ہے کہ جیسے ہماری تمام تر پریشانیوں کا حل ہی اسی میں مضمر ہے۔

زمانہ ہوا پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ چلا تھا جس کا نام ’تان سین‘ تھا اس میں ایک ایسے باکمال انسان کا تذکرہ تھا جوکہ اپنے راگ سے آگ لگا دیا کرتا تھا۔ اس کو شاید ’دیپک راگ‘ کہا جاتا تھا مگر ہمارے میڈیا پر بیٹھے ’دانشور‘ نہ جانے کب سے امن کے راگ الاپ رہے ہیں اور جواب میں وہاں سے انگارے برسائے جارہے ہیں یہ اور بات کہ ہمارے یہ دانشور اتنے صلح جو اور امن پسند ہیں کہ انھیں سرحد پار سے آنے والے انگارے بلکہ الزامات کے گولے بھی پھولوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔بھارت سے دوستی کے حوالے سے کافی عرصہ قبل ایک مضمون نگاہوں سے گزرا تھا جس کا ایک شعر میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا وہ کچھ یوں تھا کہ

ہاتھ کیا دل بھی ملا سکتے ہیں ہم اہل وفا
آستینوں میں مگر کیا ہے دکھائو پہلے

’بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ‘ کی مثال تو خیر کافی بوسیدہ ہوچکی کیونکہ تھری جی بلکہ فورجی کے اس دور میں چھری صرف فروٹ کاٹنے کے ہی کام آتی ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ آج کے دور کا سب سے بڑا ہتھیار کیا ہے، جی نہیں ایٹم بم نہیں بلکہ اس سے بھی خطرناک ایک چیز ہے اور وہ ہے’ میڈیا بم‘ شاید میرے کچھ دوستوں کو یہ میڈیا بم کی اصطلاح پسند نہ آئے یا پھر ہضم نہ ہو مگر آج کے اس دور میں سب سے خطرناک ہتھیار ہی میڈیا بم ہے۔ پہلے بھی اس کی اہمیت کم نہیں تھی مگر اب تو یہ دو آتشہ ہوچکا ہے اس کی کاٹ والا مرتا نہیں بلکہ مرمر کر جیتا ہے اور اس کا ڈسا پانی کو ترستا ہے۔ پاکستان میں شروع میں پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور بھارت میں دوردرشن دونوں پر ایک دوسرے کے اوپر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جاتے تھے، ریڈیو پر خاص طور پر سرحدی علاقوں کے قریب بھی اس قسم کی نشریات ہوا کرتی تھیں۔ پھر تھوڑی اور ترقی ہوئی اور بھارت میں ایک طرح سے میڈیا کا سیلاب آنے لگا۔ 90 کی دہائی میں یہ سیلاب اپنے عروج کی جانب گامزن تھا اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن نے پی ٹی وی ٹو جاری کیا جس پر ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ’سوئچ اوپر کرنے سے بلب بند اور نیچے کرنے سے بلب روشن ہوجاتا ہے‘۔

بہرحال پاکستان میں بھی الیکٹرونک میڈیا کا حقیقی دور 2000 کی دہائی میں ایک ’آمر‘ کی مہربانی سے شروع ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ میڈیا پڑوسی ملک کے میڈیا سے کافی متاثر رہا کیونکہ وہ پی ٹی وی کو فالو نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ ناظرین کو کچھ نیا پیش کرنے کے لئے پڑوسی ملک کے میڈیا سے آئیڈیاز ’حاصل‘ کئے اور یوں جلد ہی باصلاحیت لوگوں کی وجہ سے اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا لیکن برائی تو اس وقت شروع ہوئی جب صحیح طور پر کھڑا ہونے کے بجائے اس نے چھلانگیں مارنا شروع کردیں۔

ہمارے میڈیا کے ایک مخصوص حصے پر خاص قسم کے افکار رکھنے والے لوگ چھاتے چلے گئے، اگر ان لوگوں کو دور جدید کے درویش کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، یہ صوفی منش لوگ صرف امن کی بات کرتے ہیں، یہ اسی مقولے پر عمل پیرا ہیں کہ کوئی اگر آپ کو ایک گال پر تھپڑ مارے تو پھر جھٹ سے دوسرا گال پیش کردینا چاہئے مگر منہ سے آہ نہیں کرنا چاہئے۔ منا بھائی کو جب دوسرا تھپڑ پڑا تھا تو اس نے حیرت سے سوچا کہ باپو نے یہ تو بتایا نہیں کہ دوسرا تھپڑ پڑنے پر کیا کرنے چاہئے تو منابھائی نے اپنی کھوپڑی استعمال کرتے ہوئے دوسرا تھپڑ مارنے والے کی کھوپڑی ہلا کر رکھ دی تھی۔ لیکن ہمارے یہ درویش صفت دانشور تو من میں امن کی ایسی جوت جگائے بیٹھے ہیں کہ ان کو بھلے تھپڑوں کے ساتھ جوتے بھی پڑ جائیں تب بھی ان کے منہ سے بھارت کا نام نہیں نکلے گا بلکہ امن امن کا ورد کرتے ہوئے اپنے جان دے دیں گے۔

امن کی داعی ایسی عظیم ہستیاں پاکستانی میڈیا میں پائی جاتی ہیں، یہ بات تو اب بچے بچے کو معلوم ہوچکی ہے کہ بلوچستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس پر بھارتی پیٹرول کا چھڑکائو ہورہا ہے، اب کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کو ہی لے لیجئے معلوم ہوا کہ اس میں بھارتی اسلحہ استعمال ہوا اور خون کا بہائو روکنے والے ایسے انجیکشن تھے جوکہ بھارت کے فرنٹ لائن فوجی استعمال کیا کرتے ہیں، اسی شام کو میں نے پاکستان کا ایک ٹی وی چینل لگایا جس میں میزبان بڑے اسٹائل سے اپنی ایک کہنی ٹیبل پر ٹیکے ترچھا ہوکر بڑے ہی دانشورانہ انداز میں یہ بات اپنے سادہ لوح ناظرین کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ ’صرف ذرائع کے حوالے سے بھارتی اسلحہ یا انجیکشن کا شوشا سامنے آنے کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے ایسی چیزیں دونوں ممالک میں تعلقات بگاڑ سکتی ہیں‘۔ کسی اور چینل پر کوئی موصوف یہ دلیل دینے میں مصروف تھے کہ ’’کوئی ملک اتنا پاگل تھوڑی ہوا ہے کہ وہ کسی تیسرے ملک سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا اسلحہ دے کر کارروائی کروائے گا، غیرذمہ دارانہ بات نہیں کرنی چاہئے‘‘۔ میں ان کی باتیں سنتا رہا اور سر دھنتا رہا کہ کیونکہ ان کی باتوں کا لب لباب بس یہی تھا کہ کچھ بھی ہوجائے منہ سے بھارت کا نام نہ نکلے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

Husnain Anwer

حسنین انور

بلاگر بیس سال سے میدان صحافت میں ہیں اور ایکسپریس گروپ سے منسلک ہیں۔ انہیں ٹویٹر ہینڈل@sapnonkasodagar پر فالو اور [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔