جی ڈی پی کی شرح…ہدف سے کم

ایم آئی خلیل  ہفتہ 14 جون 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

حکومت پاکستان ہر سال بجٹ پیش کرنے سے فوری قبل پاکستان اکنامک سروے پیش کرتی ہے۔ ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جو ملک کے کلی (میکرو) معاشی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ جس میں 9 یا 10 ماہ کے رواں اعداد و شمار کے ساتھ بیانیہ پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ دوسرا حصہ صرف شماریاتی ہوتا ہے جس میں وضاحت نہیں کی جاتی نہ ہی کوئی نوٹ لکھا جاتا ہے نہ تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔ مختلف گوشواروں کے ذریعے اعداد وشمار فراہم کیے جاتے ہیں۔ حالیہ اکنامک سروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے حکومت نے بتایا کہ جی ڈی پی کی شرح ہدف سے کم 4.1 فیصد رہی ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب 60 کروڑ ڈالر رہا اور بتایا گیا کہ 50 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ محض ایک سال میں معیشت کو بہتر نہیں کرسکتے۔ بیشتر اہداف پورے نہیں کیے جاسکے ہیں۔ دستاویز کے مطابق ٹیکسوں کی آمدن میں16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی 8.5 فیصد بڑھی ہے۔ صنعتی شعبے نے ترقی کی ہے۔ سروسز سیکٹر کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ دستاویز کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 102 ارب ڈالر تک نقصان پہنچ چکا ہے۔

حکومت نے گزشتہ سال اس بات کی توقع ظاہر کی تھی کہ معاشی ترقی کی شرح4.4 فیصد ہوگی۔ لیکن مطلوبہ ہدف حاصل نہ ہوسکا۔ زرعی شعبہ جس کا ہدف تین اعشاریہ 8 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن مختلف وجوہات جن میں سب سے اہم کاشتکاروں کی طرف سے زرعی مصارف کھاد، ناقص بیج، پانی کی قلت کے باعث بہت سے کاشتکاروں نے زمین کے کاشت کے رقبے میں کمی کردی تھی۔ جس کی وجہ سے زرعی ترقی اہداف کے مطابق نہ ہوسکی۔ گزشتہ سال گندم کی فصل ہدف کے مطابق کاشت نہ کرنے کے باعث گندم کی کمی واقع ہوگئی تھی جس کے باعث لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔

اس دفعہ بھی ایسی ہی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے جس سے کاشتکار بددل ہو رہے ہیں کیونکہ گندم کی خریداری قیمت 12 سو روپے فی من مقرر کی گئی تھی لیکن کاشتکاروں سے آڑھتی اونے پونے دام گندم خرید رہے ہیں جس کے باعث بعض کاشتکاروں کو انتہائی کم ترین بچت ہو رہی ہے جس کے باعث کاشتکاروں میں عدم اطمینان اور مایوسی کی لہر پیدا ہو رہی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ نقصانات کے باعث کاشتکار گندم اور کبھی گنا اور دیگر فصلوں کی پیداوار سے منہ موڑ لیتا ہے۔ جس کے باعث کئی سال ہوگئے ہیں زرعی پیداوار کا جو بھی ہدف طے کیا جاتا ہے مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہوپاتا اور اکثر و بیشتر ہدف سے کم ترقی حاصل ہوتی ہے۔ جیساکہ ہدف سے کم زرعی ترقی ہوئی ہے ہدف 3.8 فیصد مقرر کیا گیا تھا لیکن زرعی ترقی 2.1 فیصد رہی۔

صنعتی ترقی میں اضافہ ہوا ہے۔ خصوصاً لارج اسکیل مینو فیکچرنگ کی ترقی نمایاں رہی ہے۔ البتہ سروسز سیکٹر میں مطلوبہ ہدف حاصل نہ ہوسکا۔ کیونکہ اس کی کئی اہم ترین وجوہات تھیں اول ٹرانسپورٹ اخراجات میں کافی اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اسٹوریج کی سہولیات بھی کم حاصل رہی ہیں۔ زرعی پیداوار میں کاٹن اور چاول کی پیداوار کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا وہ حاصل نہ ہوسکا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران جولائی تا جنوری تک بیرونی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی رفتار بہت ہی سست رہی ہے۔ لیکن مارچ اور اپریل 2013 میں غیر متوقع طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔

اور اسے 213.6 ملین ڈالر تک جا پہنچا۔ جب کہ یہ اس سے قبل مالی سال کے اسی مدت کے دوران یہ حجم 59.6 ملین ڈالر تک تھا۔ کئی سالوں کے بعد پہلی مرتبہ معاشی ترقی کی شرح 4.1 فیصد تک پہنچی ہے جوکہ خوش آیند ہے۔ جس کے مثبت اثرات کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ بجٹ میں کچھ ایسے اقدامات کیے جاتے کہ معاشی بحالی کے باعث غریب عوام ریلیف حاصل کرپاتے۔ لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے کہ عوام مہنگائی کی زد میں ایسے آئے کہ مزید لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے پہنچ گئے۔

حکومت نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ فی کس آمدن 1368 ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ اکنامک سروے رپورٹ میں رواں مالی سال کے دوران بیرونی ترسیلات میں اضافے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ جس کے باعث پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ بانڈز کی فروخت اور لائسنس کی نیلامی کے باعث بھی پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کی طرف سے معیشت کی بحالی پر اطمینان کے اظہار کے باوجود ملک میں غربت اور مہنگائی کی شرح کم ہونے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت آیندہ مالی سال کے لیے افراط زر کا ہدف 8 فیصد تک لانے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ زرعی ترقی کا ہدف حاصل ہوجاتا۔ اب ملک میں پانی کی مزید قلت کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ دوسری طرف توانائی کے مسائل ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ سال گزشتہ 502 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے باعث ڈالر ریٹ میں تیزی سے اضافہ ہوچکا تھا۔ جسے چند ماہ کے بعد حکومت نے امداد حاصل کرکے تیزی سے کمی کی ہے۔ جس کے برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔درآمد کنندگان کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔

ڈالر ریٹ کو کم کرنے سے قبل کئی اقدامات کی ضرورت تھی تاکہ ڈالر ریٹ کی کمی کا اصل فائدہ عوام کو حاصل ہو پاتا اس کے علاوہ برآمد کنندگان کے لیے بعد میں ڈالر ریٹ میں مزید کمی کو دور کیا گیا تاکہ برآمد کنندگان کو مزید نقصان سے بچایا جاسکے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ ابھی تک سب سے اہم بات یہ ہے کہ توانائی کی ضروریات کو ایک دفعہ پھر مہنگے طریقے سے پورا کرنے کے منصوبے لگائے جا رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ فوری ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ لیکن حکومت کو آیندہ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی اس بات کی بھرپور کوشش کرنا چاہیے کہ کسی بھی طرح سے پن بجلی کے منصوبوں کو فوری ترقی دی جائے۔

منگلا اور تربیلا جوکہ اپنی گنجائش سے کہیں کم پیداوار دے رہے ہیں۔ ان کی پیداوار میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر منصوبوں کے لیے بھی رقوم مختص کی جانا چاہیے۔ کئی بڑے ڈیمز جن کے بارے میں سنا جارہا تھا کہ جلد ہی ابتدائی طور پر آغاز کردیا جائے گا اس کے لیے زمین کی خریداری کی ابھی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہی ہے۔ لہٰذا وقت ضایع کیے بغیر ایسے منصوبوں پر کام کا آغاز کردینا چاہیے۔

اس ماہ کے آخر میں رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہوگا جب کہ تاجروں کے ایک خاص گروپ نے ابھی سے حسب سابق تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا پروگرام بھی بنالیا ہے جس کے لیے آغاز بجٹ سنتے ہی کردیا گیاتھا۔ کیونکہ بجٹ کے اعلان سے ہر شخص نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب مہنگائی اپنے عروج پر پہنچنے والی ہے لہٰذا منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں نے اپنی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ جیساکہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کئی اشیا مثلا دودھ وغیرہ کی قیمت کم ہوگی لیکن ایسے کوئی بھی آثار نظر نہیں آئے۔ دوسری طرف کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں میں اضافے کے باعث بہت سی اشیا کی اسمگلنگ بھی عروج پر پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک میں طلب میں اضافے کے باعث رسد میں معمولی سی کمی کو بہانہ بناکر بھی بہت سی اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا جاتا ہے۔

لہٰذا حکومت کو اس سلسلے میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کیے جانا چاہیے تاکہ زرعی مداخل اور دوسرے مسائل کے باعث کسان جوکہ بھرپور پیداوار نہیں دے پا رہا ہے اسے سہولیات دی جائیں تاکہ وہ ملک کی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرے جس سے اشیا کی قلت پر قابو پایا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ زرعی اشیا پر مبنی صنعتوں کے لیے خام مال کی وافر مقدار میں دستیابی سے صنعتی ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور بالآخر جی ڈی کی شرح جوکہ ہدف سے کم حاصل ہوا ہے اب ہدف کے مطابق حاصل ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔