جناح ٹرمینل

جاوید قاضی  ہفتہ 14 جون 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں توکراچی مائی کولاچی کا بگاڑ ہے، چھوٹا سا مچھیروں کا قصبہ تھا۔ میروں کے زمانے میں پیسوں کے عوض اسے لسبیلا کے جاموں سے خریدا گیا اور پھر یہاں سے چارلس نیپئر نے میروں کے حیدرآباد پر لشکر کشی کی اور حیدرآباد سے سندھ کا دارالحکومت کراچی لے آئے۔ اس کی بنیادی شناخت یہ بھی ہے کہ یہ جناح کی جنم بھومی ہے۔ کھارادر، میٹھادر والا کراچی، ہندوؤں کا شہر کراچی، آہستہ آہستہ مسلمانوں کی اکثریت میں تبدیل ہوتا گیا۔ سندھ میں دو شہر تھے جس میں کالج تھے، ایک شکارپور اور دوسرا کراچی۔ جب سکھر بیراج بنا تو اتنی گندم ہوئی کہ اس کی درآمد کے لیے بحری پورٹ ضروری تھا، تب بنا تھا ویسٹ وہارف۔ ہوائی جہازوں کا جب زمانہ آیا تو پہلا ایئرپورٹ بھی یہیں بنا، اور آج اس ایئرپورٹ کو ہم جناح ٹرمینل کے نام سے پہچانتے ہیں۔

جس طرح لاڑکانہ کے چپے چپے پہ بھٹوؤں کے نشان ملتے ہیں بالکل اسی طرح ہر چپے پہ یہاں جناح اور اس کی لاڈلی بہن فاطمہ کے نشان ملتے ہیں۔ مہٹہ پیلس دیکھو تو یہاں قائد ٹھہرے تھے، فریئر ہال کے پچھلے روڈ پر قیام کرتے تھے اور یہاں فاطمہ جناح نے ایوب کی آمریت کے خلاف جھنڈے گاڑ لیے تھے، اور ایک رات اس گھر میں مردہ پائی گئی تھیں۔ جناح روڈ کی شروعات مزارقائد سے ہوتی ہے، جس طرح ٹالسٹائی کی رحلت ریلوے اسٹیشن کی انتظار گاہ میں ہوئی تھی، جناح کی رحلت بھی کم و بیش اسی طرح کراچی کے مسرور ایئربیس پر ہوئی تھی۔ جو ہوا سو ہوا جناح اور اس کی بہن مادر ملت فاطمہ کے ساتھ مگر جناح کے شہر کراچی کے ساتھ بھی کچھ کم نہ ہوا۔

’’بہار آئی ہے تو لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے… تیرے ہمارے سوال سارے جواب سارے‘‘ کی طرح جب دس خودکش ازبکیوں نے کراچی ایئرپورٹ پر گزشتہ ہفتے دھاوا بول دیا تو ہمارے سارے عذاب پھر سے ابل پڑے۔ سب نشیب و فراز، سب زرد پتوں کے بن، سب درد کی انجمنیں پھر سے نئی ہوکر افق پہ آگئیں اور پھر ہمیں ہر طرف جناح ہی جناح نظر آنے لگا۔ سسکتی سانسوں میں، بھوک سے بلکتے بچوں کی آہوں میں، دکھی ماؤں کی خالی جھولیوں میں، ہر طرف فغاں ہی فغاں ہے۔ دیو کا سایہ ہے کہ جاتا ہی نہیں۔ یہ حکومت ہے کہ نہیں ہے، ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ اور پھر بھی رواں ہے کالے دھوئیں کے بادلوں میں یہ شہر۔

اس شہر میں کاؤس جی بھی رہتے تھے۔ تین چیزوں سے بہت پیار کرتے تھے، جناح، جناح کے کراچی اور جانوروں سے۔ کوئی غلط عمارت بن جائے تو سیدھا مفادات عامہ کی بنیاد پر پٹیشن ڈال دیتے، کوئی راستہ ہو یا کوئی انڈر پاس ہو یا فلائی اوور، بارشوں میں گٹر بند ہوجائیں تو چلا اٹھتے۔ اپنے کالم سے وہ کیس لڑتے کہ صاحب اقتدار مجبور ہوجاتے۔ آج جب کراچی ایئرپورٹ پر ازبکیوں کا دھاوا ہوا تو کاؤس جی نہیں تھے۔ ہمیشہ کہتے ’’جناح کا پاکستان بنے گا تو پاکستان بنے گا ورنہ رومن ایمپائر بھی سارا ٹوٹے گا‘‘۔ مجھ سے ان کی بہت قربت تھی، جتنی بار مجھے انٹرویو دیے کسی کو بھی نہیں دیے۔ ہم دونوں میں جناح اور اس کی بہن فاطمہ کے لیے عقیدت ایک مشترکہ مفاد تھا۔

عجیب ہے کراچی، آج بھی اس قیامت برپا ہونے کے بعد بھی سب سے زیادہ تکثیریت Diversity رکھنے والا شہر اس ملک میں اس سے بڑا کوئی نہیں۔ سب سے زیادہ پارسی، ہندو، عیسائی، بہت سی زبانیں بولنے والے اس ملک کے کسی اور شہر میں نہیں رہتے جتنے یہاں رہتے ہیں۔ دلی و لکھنو کے بعد ’’اردو‘‘ کو اپنا گھر بنانے والا شہر کراچی۔

گیارہ ستمبر 1948 کو ایک لڑکھڑاتا ڈکوٹا جہاز کوئٹہ سے ماری پور ایئر بیس پر اترتا ہے۔ اس جہاز سے ایک بہت ہی ضعیف شخص کو جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے اسٹریچر کے ذریعے گئی گزری ایمبولینس پر لاد دیا جاتا ہے، ابھی کچھ فاصلے طے کرپاتی ہے وہ ایمبولینس کہ اس کا انجن بیٹھ جاتا ہے اور اس کی بہن فاطمہ بے چین سی ہوجاتی ہے کہ کوئی یدبیضا لے کر برق رفتاری سے آئے اور انھیں جلدی سے منزل تک پہنچائے کہ اس کا بھائی گورنر جنرل پاکستان بچ جائے جس نے پاکستان بنانا ہے، اس کی سمت طے کرنی ہے، اتنی قتل و غارت دیکھنے کے بعد اسے اب مزید قتل و غارت سے بچانا ہے۔

اور بھیا کی سانسیں دبنے لگتی ہیں اور کہتے ہیں “Fati it is over”۔ اورپھر کیا ہوا اس ملک کی تقدیر پھوٹ گئی۔ 1948 سے لے کر 2014 تک آج بھی وہاں سرکاری ایمبولینسیں نہیں ہیں کہ پہنچ سکیں۔ بس یہ کام بھی ہم نے ایدھی کو دے دیا ہے۔ ہر چیز آج بھی اپنی مدد آپ کرو کے اصول پہ ملتی ہے۔ یہاں قبر میں چلو تو یادوں کے کاندھوں پر، اسپتال چلو تو ایدھی کی ایمبولینسوں میں، دوائیں لو تو اپنے پیسوں سے اور اگر نہیں ہے تو پھر خیرات پر۔ یہ آپ کا حق نہیں کہ آپ حکومت سے ایمبولینس مانگیں، علاج کی سہولت مانگیں، دوائیں مانگیں وغیرہ وغیرہ۔

ایک زمانہ تھا، دبئی ابھی بنا نہیں تھا۔ تو ہم تھے جہازوں کے دبئی، جو جہاز ایسٹ ایشیا جاتا اسے پیٹرول بھروانے کے لیے یہاں اترنا ہوتا اور جو ایشیا سے یورپ جاتا وہ بھی۔ کراچی جہازوں کے مسافروں کی سرائے تھا۔ ہم اگر قسمت کا تعین کرچکے ہوتے، جناح کچھ سال اور زندہ رہتے، مگر آمریتوں کے بادل منڈلاتے تو کیسے بنتا دبئی، ہم ہوتے دبئی، ہم ہوتے سنگاپور۔

ایوب کو جناح کی بہن فاطمہ نے بہت تنگ کیا، تو کیا ہوا، وہ یہاں سے دارالخلافہ لے کر اڑے، یہاں کے لوگ جناح کو بھولے نہیں تھے۔

بڑوں نے اس ملک کا نام پاکستان رکھا، حفیظ جالندھری نے ایسا قومی ترانہ لکھا کہ جو مروج ، رواں سلیس و سادہ اردو میں تھا ہی نہیں اور بنگالیوں کے تو خیر سر سے گزر جاتا تھا تو انھوں نے دارالخلافہ کا نام اسلام آباد رکھا، وہ تھے تو بہت ماڈریٹ مگر ریاست کو اور مذہب کو الگ نہ کر پائے۔ گیارہ اگست 1947 کو ایک کوشش جناح نے بھی کی مگر بہت دیر ہوچکی تھی۔ جس طرح جناح کی ایمبولینس کا انجن راستے میں بیٹھ گیا تھا۔ کراچی ایئرپورٹ کے کولڈ اسٹوریج میں پھنسے لوگوں کی آہٹیں ہم نے سنی تھیں مگر دروازہ کھولتے کھولتے بہت دیر ہوچکی تھی۔ بالکل اسی طرح ہمیں ہر جگہ، ہر کام میں بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ منیر نیازی کو بھی شکایت تھی کہ دیر کردیتا ہوں میں ! اب ہمیں اس بہت دیر کو Cover اور زیر کرنا ہے۔

ہوسکتا ہے کراچی ایئرپورٹ پر دس ازبکیوں کے خودکش حملے سے نریندر مودی کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا ہو، مگر ہم انھیں مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہ وہ بیج ہے جو ہم نے خود بویا تھا، یہ اس بیج کے پیدا ہوئے کانٹے ہیں، جھاڑیاں ہیں جو ہمیں ہی صاف کرنے ہیں۔

ہمیں شرح نمو کے چونچلوں سے اب آزاد کیا جائے۔ ہمیں اب نئے انڈیکیٹر دریافت کرنے ہوں گے۔ ہمیں اب امرتاسین کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہوگا۔ ہم نے Humen Development انڈیکیٹر کے محاذ پر کیا پیش رفت کی، ہم نے کتنے امیروں پر ٹیکس لگائے؟ اب یہ بتانا ہوگا۔ ہم نے غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہوئے افراد کی شرح میں کتنی کمی کی، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا۔

ایک مرتبہ میں نے 14 اگست کے حوالے سے پروگرام کیا جس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ، پروفیسر غفور احمد اور ارد شیرکاؤس جی کو ساتھ بٹھا دیا۔ پروفیسر غفور نے جناح کو حضرت قائداعظم کہہ کر کچھ کہا تو کاؤس جی نے بیچ میں ٹوکا اور کہا کہ ’’نہیں تھے وہ حضرت، وہ سگار پیتے تھے‘‘ کاؤس جی اس پروگرام میں جناح کی دو تصویریں لائے تھے، ایک میں جناح نے شیروانی پہنی تھی اور ایک میں انگلش سوٹ اور پہلو میں دو چھوٹے سے کتوں کو رکھا ہوا تھا۔ تو کاؤس جی انگلش سوٹ والی جناح کی تصویر اٹھا کے بولے۔ ’’ہمیں یہ والا جناح چاہیے۔‘‘

جب جناح ٹرمینل پر دس خودکش ازبکیوں نے دھاوا بولا، بالکل اسی دن تفتان میں فقہ جعفریہ کے زائرین کی ایران سے واپس آتی ہوئی بس پر خودکش حملہ کردیا گیا، جس میں 25 معصوم مارے گئے۔

کراچی کالے بادلوں کے دھوئیں میں رواں ہے، اس تذبذب میں کہ حکومت ہے بھی کہ نہیں۔ کہ جیسے چیونٹیوں پر کسی کی لات پڑجائے اور کچھ مرجاتی ہیں تو باقی رکتی نہیں وہ رواں رہتی ہیں۔ ’’آج کی شب جب دیے جلائیں، اونچی رکھیں لو‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔