آپ کا بہت انتظار کیا

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 14 جون 2014

شیکسپیئر کہتا ہے ’’ مصیبت زدوں کا واحد سہارا امید ہے‘‘ امیدوں کا ختم ہوجانا موت کی علامت ہے ۔ ایک سپاہی نے اپنے کمانڈر سے کہا جناب میرا دوست میدان جنگ سے نہیں لوٹا میں اس کو ڈھونڈنے جانا چاہتا ہوں مجھے اجازت دیجیے۔کمانڈر نے اس سے کہا میں تمہیں میدان جنگ میں جانے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا۔ کمانڈر نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں اپنی زندگی کو کیسے ایسے شخص کی وجہ سے خطرے میں ڈالنے کی اجازت دے سکتا ہوں جس کے بارے میں قوی احتمال ہے کہ وہ مارا جا چکا ہے۔

کمانڈر کی بات اپنی جگہ درست تھی مگر سپاہی اس سے نہ تو قائل ہوا اور نہ ہی اس نے اسے کوئی اہمیت دی کہ اس کا میدان جنگ میں جانا اس کی اپنی زندگی کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے وہ وہاں سے بھاگ کر سیدھا میدان جنگ میں جا پہنچا جہاں گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا ایک گھنٹے کے بعد وہ زخموں سے چور لڑکھڑاتا ہوا کاندھے پر دوست کی لاش اٹھائے آتا دکھائی دیا تو کمانڈر نے بھاگ کر اس کے کندھے سے لاش اتاری اور اسے سہارا دے کر زمین پربٹھایا اور تاسف کرتے ہوئے کہا میں نے تمہیں کہا تھا کہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر محض ایک لاش کو تلاش کرنے جانا اس وقت ہر گز دانائی نہیں ہوگی مگر تم نے میری بات نہیں مانی اور دیکھ لو اپنا یہ حشر کرو ا کے لوٹے ہو۔

سپاہی نے کراہتے ہوئے مختصراً کمانڈر سے کہا نہیں جناب جب میں اپنے دوست کو تلاش کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچا تو وہ ابھی زندہ تھا اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا تھا کہ مجھے پورا یقین تھا کہ تم مجھے یوں تنہا مرنے کے لیے نہیں چھوڑ و گے ۔

پاکستان کے مفلس، لاچار ، غریب ،بے بس ، بیمار ، فا قہ زد ہ لوگ جنہیں امید تھی کہ میاں نواز شریف حکومت میں آنے کے بعد ان کی مدد کو ضرور آئیں گے ان کے دکھ درد ان کی تکلیفیں ان کی مصیبتیں کم کرنے کے لیے اقدامات ضرور کریں گے بیروزگاری ، بجلی اور پانی کا بحران اورمہنگائی ختم کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کریں گے لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ پاکستان کے غریبوں نے آپ کا بہت انتظار کیا فاقوں سے بلکتے ہوئے انھوں نے ایک دوسرے کو بہت دلاسے دیے ایک دوسرے کو بہت تسلی دی لیکن آپ نہیں پہنچے پھر آخر بہت انتظار کرکے تڑپ تڑپ کر سسک سسک کر ان میں سے ہزاروں اپنی اپنی قبروں میں جاکے سوگئے وہ بہت روئے بہت چلائے پھر تھک ہارکر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے لیکن آپ پھر بھی نہیں پہنچے۔

وزیراعظم صاحب آپ کا انتظار معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں نے بھی کیا جب وہ دودھ کے ایک ایک قطرے کے لیے ترستے رہے جب وہ باسی روٹیاں پانی میں بھگو بھگو کر کھاتے رہے جوان کے حلق سے نیچے ہی نہیں اترتی تھیں۔ وہ رو رو کر اپنی مائوں سے التجا کرتے رہے چلاتے رہے لیکن آپ ان کی مدد کو بھی نہیں پہنچے ۔ آپ کاانتظار مائوں نے بھی بہت کیا جب وہ اپنے لخت جگروں کو اپنے ہاتھوں میں بھوکا پیاسا مرتا دیکھتی تھیں جب وہ اپنے شوہروں کو ہاتھ جوڑ جوڑ کر روتے ہوئے چلاتے ہوئے التجائیں کرتی تھیں کہ خدا کے واسطے ایک روٹی کہیں سے لے آئو کچھ تو کرو میرے لال کا اس طرح سے تڑپنا اور سسکنا مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ۔ لیکن آپ ان کی مدد کو بھی نہیں پہنچے۔

آپ کسی کی بھی مدد کو نہیں پہنچے، اے اہل اقتدار آج ملک میں چاروں طرف امیدوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں چاروں طرف بربادی ہی بربادی ہے چاروں طرف آہ و بکا کی پکاریں اٹھ رہی ہیں لوگ چلا رہے ہیں لوگ پکار رہے ہیں لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ بلک اور سسک رہے ہیں آپ نجانے کہاں چھپ گئے ہیں لیکن آپ کو ان کی تکلیفوں ، مصیبتوں اور کرب کا احساس ہو بھی کیسے سکتاہے یہ احساس تو اسے ہو سکتا ہے جس نے فاقوں کا سامنا کیا ہو بھوک سے ہونے والی اموات اس کے سامنے ہوئی ہوں تب ہی وہ پوری طرح آنکھیں کھول کر بدقسمتی کی حالت کو دیکھ سکتا ہے محسو س کر سکتا ہے۔

جب کسی نے اپنی آنکھوں سے پھیکی پڑی ہوئی دن کی روشنی میں بھوکے بچوں کے چہرے دیکھے ہوں جب تلملاتی ہوئی مائوں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے بچوں کو مایوسی کے عالم میں دودھ سے خالی اپنی چھاتیوں سے لگاتے دیکھا ہو اور مردوں کے بھو ت جیسے ڈھا نچوں کو فرش پر بچھی ہوئی چٹایوں پر پڑے مہر بان موت کا انتظار کرتے دیکھا ہو تب ہی وہ سمجھ سکے گا ۔ دکھ درد، مصیبتیں ، تکلیفیں کس بلا کانام ہیں اور تب ہی وہ سوالات ، انتظار کی اصلی نوعیت کو سمجھ سکے گا ۔

مگدھ (بہار) کے موریہ خاندان کا تیسرا بادشاہ اشوک جو بندو بسار کا بیٹا اور چندرگپت موریا کا پوتا تھا 273 ق م میں بر سراقتدار آیا اس کے دادا اور باپ نے اس کے لیے ایک عظیم سلطنت چھوڑی تھی ۔وہ اپنا سارا وقت عیش وعشرت اور شکار میں گذارتا تھا بادشاہ بننے کے 8 برس بعد وہ اپنے عظیم لشکر کے ساتھ طاقت ور اور دولت مند ریاست کا لنگا (جنوبی اڑیسہ ) پر حملہ آور ہوا اوراسے تہس نہس کردیا طاقت کے نشے میں سر شار اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔

مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے نیم مردہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے دار ڈھونڈتی تھیں اور آہ و بکا کرتی تھیں۔ کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اترگیا۔

اشوک نے اپنا چہر ہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفو ظ ہوگیا ’’ یہ میں نے کیا کر دیا اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں یہ فتح ہے یا شکست ؟ یہ انصاف ہے یا ناانصافی ؟ یہ شجاعت ہے یا بزدلی ؟ کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند ہونے کے لیے کیا یا دوسری بادشاہت کی شان وشوکت کو غارت کرنے کے لیے۔ کسی نے اپنا شوہر کھو دیا کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔ لاشوں کے یہ انبار کیا ہیں یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے ۔آج ہمارا بھی اشو ک کی طرح یہی گریہ ہے کہ پاکستان میں لاشوں کے یہ انبار کیاہیں یہ فتح کے نشان ہیں یاشکست کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔