تحائف کی قیمت نہیں ’خلوص‘ اہم ہے
’مادّیت پرستی‘ نے تعلقات مضبوط کرنے والی چیز کا تصور بھی مسخ کر دیا
الحمداﷲ رمضان کی برکتیں ہر جگہ سایہ فگن ہیں، اور اب رمضان کی آخری ساعتوں میں عید کی تیاریاں بھی زور شور سے جاری ہیں۔ جیسے جیسے رمضان المبارک کے لمحے ختم ہوتے جاتے ہیں، اسی تناسب سے بازاروں کی رونقیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔
عید کے قریب آتے آتے لوگ خریداری کی طرف اور زیادہ دوڑ لگانے لگتے ہیں۔ جس تناسب سے چیزوں کی مختلف اقسام روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے، اس تناسب سے بازاروں میں رش بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
ہم اپنے تہواروں کے لیے جس طرح بہت کچھ اپنے لیے خریدتے ہیں اس طرح اپنوں کے لیے تحائف لینے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ کوئی مٹھائی بانٹتا ہے، تو کوئی کراکری، کوئی جوس کی بوتلیں تحفے میں اپنوں کو دیتا ہے، تو کوئی چاکلیٹ کے ڈبے، کوئی سوٹ، توکوئی جیولری وغیرہ کا سامان اور گھڑیاں وغیرہ۔ دینے کے لیے تو بازار میں اور بھی بہت کچھ دست یاب ہے۔
چوں کہ جدید مادّی سائنس اور ٹیکنالوجی نے وحشت ناک مادّہ پرستی کو جنم دیا ہے۔ چیزوں کی محبت ایسے ہمارے دلوں میں گھر کر گئی ہے، جیسے کوئی بت دل میں بسا ہو۔ چیزوں کی رعنائیاں اور چمک دمک نہ صرف ہمیں متاثر کرتی ہے، بلکہ ہم اس وبا کو مادّی تحفوں کی صورت میں آگے پھیلانے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ تحفے تحائف دینا کوئی غلط یا ناپسندیدہ کام بالکل بھی نہیں، بلکہ یہ تو تعلقات خوب صورت اور مضبوط بنانے کا بہترین ذریعہ اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سنت ہے، لیکن ذرا سوچیے جس تناسب سے ہم تحائف بانٹنے میں پیش پیش ہیں کیا۔
اس تناسب سے ہمارے تعلقات بھی اچھے ہو رہے ہیں۔۔۔؟ کیا ہمارا خاندانی نظام بہتر ہو رہا ہے۔۔۔؟ کیا ہمارے دلوں کے میل صاف ہو رہے ہیں۔۔۔؟ کیا ہم سفید پوش رشتے داروں کی پریشانیوں کو ان کے چہرے سے جانچ لیتے ہیں۔۔۔؟ کیا اپنوں کی محفلوں میں بیٹھنا ہمارے لیے خوشی کا باعث بن رہا ہے۔۔۔؟ کیا ہم مل کر اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کرنے لگے ہیں۔۔۔؟ کیا ہم اپنے رشتے دار دل جوئی کا سبب بن رہے ہیں۔۔۔؟ نہیں بالکل نہیں، ہم تو دل کی 'بیماریوں' میں پھنستے جا رہے ہیں۔ جیسے حسد، کینہ، لالچ یہ سب ہمارے معاشرے میں اتنے تحائف دینے کے باوجود بڑھتا جا رہا ہے۔
مادّی چیزوں کی محبت دل میں اور زیادہ گھرکرنے لگی ہے اور ان کی حد سے طلب خرابی کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہم اپنے پیاروں کے دیے گئے تحفوں کو قدر وقیمت اور اعلیٰ معیار کی عینک لگا کر دیکھنے لگے ہیں، نہ کہ دینے والے کے خلوص کو، جو جتنا قیمتی تحفہ دے گا دل میں گھر کر لے گا اور اگر کوئی رشتے دار مادّی تحفہ نہ دے سکے، تو کنجوس اور بے مروت کے زمرے میں آجائے گا۔ خواہ وہ محبت و خلوص سے بھرا انسان ہو۔ یہ آخر لالچ نہیں تو کیا ہے؟ اس سے تحفے کا اصل مقصد تو کہیں گم ہو جاتا ہے اور لوگوں میں ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ خاندانی نظام بہتر سے بہتر ہونے کی نشاندہی کر رہا ہے یا اس کے برعکس۔
ان سب چیزوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے ہمارے یہ مہنگے تحائف ہمارے تعلقات کو بہتر بنانے میں کام یاب نہیں ہیں۔ ہمارے دلوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں، نہ کہ کم ہو رہی ہیں۔ دراصل ہم مادّہ پرستی کے شیطانی دائرے میں ایسے پھنس گئے ہیں کہ غیر مادّی چیزوں کی اہمیت کو پیچھے چھوڑ آئے۔ ہم کمانے اور خرچ کرنے کی چکی میں بری طرح پھنس چکے ہیں، جس نے غیر مادّی تحائف کی اہمیت کو ہمارے اندر سے مفلوج کر دیا ہے۔
اب ہر نیکی کمانے والے کام جو کہ کہ ہمارے تعلقات کو خوب صورت بنانے کا اصل ذریعہ بھی ہیں، 'کمرشلائز' کر دیا گیا ہے۔ جیسے والدین کی خدمت جیسے اہم کام کو بھی اب '24 گھنٹے کی ماسی' مددگار یا نرس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح باہمی مشاورت جو کہ صلہ رحمی اور اپنوںکے نزدیک آنے کا باعث بن سکتا ہے، اسے بھی 'کاؤنسلر' کے سپرد کر دیا ہے، جب کہ ہمارے مسائل ہی ایک دوسرے سے بات نہ کرنے کے سبب ہوتے ہیں، اور کبھی تو صرف بات چیت کے ذریعے ہی ہماری ڈپریشن دور ہو جاتی ہے۔
اسی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت جو کہ والدین اور گھر والے کیا ہمارا پورا معاشرہ مل کر کرتا تھا، اب اسے مکمل طور پر اسکولوں کی نذر کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کی ضروریات کو پورا کرنا، جو کہ والدین اور بچوں کے تعلقات کو پروان چڑھاتا ہے، اسے بھی اب 'ڈے کیئر سینٹر' کو سونپ دیا گیا ہے۔
ایسے میں آخر تو اب اپنوں سے ان تعلقات کو بہتر بنانے کے لییکیا کیا جائے؟ ہمیں مادّی چیزوں سے نکل کر غیر مادّی چیزوں کی طرف بھی نظر دوڑانی چاہیے۔ جو ہماری مذہبی تعلیمات بھی ہیں۔
ان کی طرف واپس ہوا جائے۔ دل جیتنے کے لیے روپیہ خرچ کرنے کے بہ جائے ایک دوسرے کی خیر خواہی کیجیے، صلہ رحمی اور دل جوئی کا راستہ اختیار کیجیے، اپنے دل کے میل صاف کر کے اور بدگمانیوں کے زہر نکال کر لوگوں کے کام آئیں۔ مشاورت کریں، بچوں کے ساتھ وقت بِتائیں۔ بڑوں کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں، پڑوسیوں کے حقوق ادا کریں۔ دکھ درد میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔
اپنے خاندان کے سفید پوش لوگوں کو پہچانیں، یہ قیمتی اور ضروری کام اب کہیں کھوگئے اور ان کی اہمیت اس مادّی دنیا سے ختم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ میں قطعی یہ نہیں کہتی کہ آپ ایک دوسرے کو تحفے نہ دیں، ضرور دیں، لیکن ساتھ ساتھ غیر مادّی چیزوں کی اہمیت کو نہ بھولیں۔ ہر چیز پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی اور جو چیز پیسے سے نہیں خریدی جاتی، اس کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ دلوں کے اندر رشتوں کی پاکیزگی اور قلبی تعلق بنانے کی اصل وجہ بنتی ہے۔
خوشی کا تجربہ کرنے والے انسان کا تصورِ ضرورت محض مادی سطح پر محدود نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اس عید پر یہ عہد کریں کہ اس حوالے سے خود کو تبدیل کریں گے اور تعلقات کو ہر چیز کی طرح پیسے سے نہیں تولیں گے اور اپنے پیاروں کا دل کبھی غیر مادّی چیزوں کے ذریعے سے بھی جیتنے کی کوشش کریں، کیوں کہ یہی تعلق بنانے کا ایک اچھا اور بہترین ذریعہ ہیں۔