موت کو چکھے بغیرعلم نہیں ہوتا…

شیریں حیدر  اتوار 15 جون 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اس کا چہرہ کسی خزاں رسیدہ پیلے پتے کی طرح تھا… آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اس کی شب بیداریوں کی نشان دہی کر رہے تھے، وہ میرے سامنے دفتر میں بیٹھی تھی۔

’’ کیسی ہو ناہید اب ‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ آج شب برات ہے… یاد ہے پچھلے سال اسی دن ہم باتیں کر رہے تھے کہ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ آسمانوں کی انتہائی بلندیوں پر ایک بہت بڑا درخت ہے…‘‘ ناہید نے مسکرا کر کہا۔

’’ ہاں … یاد ہے! ‘‘ میں نے کہا، ’’ اور اس درخت پر پتے ہیں جو ہم انسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جب کوئی مرتا ہے تو ا س کا پتا ٹوٹ جاتا ہے، ایک پیدائش پر ایک پتے کا اضافہ ہو جاتا ہے… ‘‘
’’میرا پتا ٹوٹا نہیں شیریں… مرجھا رہا ہے، دیکھو کب تک اس درخت کے ساتھ چپکا رہ سکتا ہے… آج بھی شب برات ہے، شائد!‘‘ناہید کے لہجے میں اداسی نہ تھی، کوئی اور احساس تھا۔

’’ مایوسی کی باتیں نہ کرو… تم نے موت اور حیات کی جنگ لڑی ہے اور تم غازی ہو‘‘ میں نے اسے ہلکے پھلکے لہجے میںکہا تا کہ کمرے میں مایوسی تیسرے وجود کے طور پر نہ ڈیرا ڈال لے۔
’’ تم اندازہ نہیں کر سکتیں کہ میرے شوہر کے پاس کتنی دولت ہے اور میرے پاس ہر وہ چیز وافر مقدار میں ہے جو امراء کا ورثہ ہوتی ہے… کپڑے، جوتے اور سونے، قیمتی پتھروں اور ہیروںکے جواہرات… اتنے کہ انھیں پہننے کی باری نہیں آتی پیاری…‘‘

’’ جانتی ہوں …‘‘ میں نے کرسی سے ٹیک لگائی، ’’ آپ کی بہن کا کیا حال ہے؟ ‘‘ میں نے بات کا رخ بدلا تا کہ اسے اپنی تکلیف یاد نہ آئے، یہ محض میرا خیال تھا، جس تن لاگے … سو تن جانے!
’’ وہ ٹھیک ہے اب… وہ تو میرے لیے مشعل راہ ہے، اس نے میری امید کی شمع کی لو بجھنے نہیں دی! ‘‘ ناہید کینسر کے مرض میں مبتلا ہے… اس کی بڑی بہن ، نیو یارک میں مقیم ہے اور وہ بھی کینسر کے مرض کا مقابلہ کر کے اپنی زندگی ایک بہترین انداز سے گذار رہی ہے۔ ناہید نے بتایا کہ اس کی بہن کو وہاں ایک مثال کے طور پر quote کیا جاتا ہے… cancer survivors نہ صرف اللہ تعالی کی طرف سے ایک معجزانہ مثال ہوتے ہیں بلکہ ان کی قوت ارادی جو کہ اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم ہتھیار ہے، وہ بھی مثالی ہوتی ہے۔ آج کل کے دور میں ہر مریض کو اپنے مرض کی نوعیت اور اس کی تمام تفاصیل کا اندازہ ہوتا ہے،اسی لیے ان کی بیماری سے جنگ مشکل ہوتی ہے۔

زمانۂ قدیم میں کینسر کے مریض ہوتے ہوں گے مگر بیماری کی تشخیص نہ ہو سکنے کے باعث وہ لا علمی میں اس دار فانی سے کوچ کر جاتے ۔ آج کل جو ملاوٹ زدہ خوراک دنیا بھر میں کھائی جا رہی ہے اور جس حد تک ریڈیائی لہروں کا عمل دخل ہماری زندگیوں میں ہو گیا ہے وہ اہم موجب ہے ایسی لا علاج بیماریوں کا۔ بفضل خدا سائنس ہر روز ترقی کر رہی ہے اور ہر اس بیماری کا علاج موجود ہے جس کی علامات کی تشخیص ہو چکی ہوتی ہے ، سب سے اہم factor کسی بھی کامیاب علاج کے پیچھے بلا شبہ اللہ کی رضا ہے۔’’ جب میرے مرض کی تشخیص ہوئی… مجھے بتایا گیا، تو میرے سارے وجود میں پھریری سی دوڑ گئی۔

ہنگامی بنیادوں پر میرے ٹیسٹ کیے گئے، ان کی رپورٹیں آنے تک انتظار کرنا تھا، میں آدھی تو اسی وقت مر گئی تھی، میں موت کے عفریت کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی، مجھے یاد ہے ٹیلی وژن پر ایک دفعہ ایک پاکستانی فوجی کا انٹرویو دکھایا جا رہا تھا، اس کے لہجے میں کچھ ایسا اسرار تھا کہ میں اس انداز کو بھول نہیں سکتی، اس نے کہا تھا کہ سپاہی کو موت سے ڈر نہیں لگتا… اس وقت میں سوچتی تھی کہ ایسا کیونکر ممکن ہے مگر اب مجھے یقین ہے کہ اس کے ہر لفظ میں صداقت تھی، وہ لوگ ہمہ وقت موت کو چھوتے ہیں، موت کو چھوئے بغیر انسان میں وہ بہادری نہیں آتی کہ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہو سکے، ایسی خوف ناک بیماری کا سن کر ایک بار تو جان نکل جاتی ہے۔

میں اسپتال سے گھر لوٹی تو میں ساری امیدوں کو راستے میں ہی دریا برد کر آئی تھی، میں یہی سوچتی تھی کہ میں جانے کس گھڑی آنکھیں موند جاؤں گی، اپنے کمرے کی الماری کھول کر اس کے سامنے کھڑی ہوئی تو اس میں ترتیب وار ہینگروں پر ٹنگے درجنوں ملبوسات تھے، وہ جیسے مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہے تھے، ان میں سے کئی لباس ایسے تھے جو میں نے ایک بار پہنے تھے اور کئی ایسے جنھیں پہننے کی ابھی تک باری بھی نہ آئی تھی، میرے جوتے اور زیورات… میں ان سب چیزوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھی۔

’’ کیا یہ میری کمائی تھی؟ ان میں سے کیا میرے ساتھ جائے گا؟ میرے بعد ان کا کیا مصرف ہو گا؟ ‘‘ ایسے سوالوں نے میرا آدھا خون نچوڑ تھا، میں گڑگڑا کر اللہ تعالی سے دعائیں کر رہی تھی کہ مجھے ایک بار موقع دے دے… میری رپورٹیں بالکل کلئیر آ جائیں، ڈاکٹر کا شبہ غلط ہو۔ مگر تین دن کے بعد رپورٹیں آئیں تو علم ہوا کہ سرطان میرے سینے سے کندھوں اور کمر کی طرف تک پھیل گیا تھا، اتنی خاموشی سے وہ کہاں کہاں تک پہنچ گیا تھا اور مجھے کبھی درد کا احساس تک نہ ہوا تھا، میرے وجود میں کسی عضو کی طرح موجود اور میں اس کی موجودگی سے غافل۔

میں نے اس دن مصلی بچھا کر پہلی دفعہ اس طرح نماز پڑھی کہ مجھے دنیا کے کسی کام کی فکر نہ تھی، ورنہ تو مارے باندھے اور دنیا کے بکھیڑوں کو سوچتے نماز پڑھے جاتی تھی اور دوران نماز بھی کچھ یاد آ جاتا تو سلام پھیرنے کے بعد اس کام کو نمٹاتی کہ کہیں دوبارہ دوران نماز یاد آ گیا تو الجھن ہوتی رہے گی۔ میں نے اس دن پہلی بار اللہ سے اس طرح گفتگو کی کہ مجھے اپنے وجود کی گہرائیوں میں ، شہ رگ کے پاس… لہو کی گردش میں اور پور پور کے لمس میں اس کی موجودگی کا احساس ہوا۔

مجھے اس دن پہلی بار احساس ہوا کہ میں کتنی غافل تھی، مجھے اس کینسر پر اس طرح پیار آیا جس طرح اپنے وجود میں پلنے والے بچے سے ہوتا ہے ، اس کینسر نے مجھے اپنے رب سے آشنا کیا تھا۔میں بہت عبادت گزار تو کبھی بھی نہ تھی مگر اس بیماری سے آگاہی نے مجھے احساس دلایا کہ زندگی ہے کیا، ہم عمر بھر جن چیزوں کے حصول کے لیے تگ و دوکرتے ہیں وہ بہت معمولی خوشیاں دیتی ہیں، جو چیزیں ہمیں اصل اور حقیقی خوشیاں دیتی ہیں، وہ سب مفت میں میسر ہیں۔ ہم ملبوسات، زیورات، بینکوں کے اثاثوں، گھروں ، گاڑیوں اور زمینوں کے حصول کے لیے عمر بھر بھاگتے اور کئی سچے جھوٹے دھندے کرتے ہیں، مگر ان چیزوں سے حاصل ہونے والی خوشی اس خوشی کے مقابلے میں بالکل بے معنی ہے۔ کسی پیارے کی ایک مسکراہٹ، ماں کا لمس، باپ کا بوسہ، بہن کا ہاتھ، بھائی کا تحفظ، دوست کی دوستی، پیار، ہوا، بادل، سورج، چاند ، ستارے، دریا… کائنات کی سب خوب صورتیاں ، سب کچھ ہمیں مفت میں میسر ہے، ان کے لیے ہمیں کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔

میری بیماری سے آگاہی نے مجھے موت کے خوف میں مبتلا بھی کیا، کسی حد تک نماز کی طرف راغب بھی کیا اور میں بصد کوشش اپنی نمازوں میں خشوع اور خضوع پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر جس چیز نے مجھے پچھتاوے میں مبتلا کیا وہ کوئی اور تھی۔ میں پچپن برس سے اللہ کی ان نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہوں، جب میرے بیٹے، بہو، شوہر یا کوئی بھی اور دوست رشتہ دار ہمیں کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ہم کئی کئی بار شکریہ ادا کرتے ہیں، ہمارے ہاں کوئی ہمارے پیاروں کا جنازہ پڑھنے بھی آئے تو ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے لیے وقت نکالا، جو چیزیں فرائض ہیں، ہم ان کی ادائیگی پر بھی ان کے ممنون ہوتے ہیں۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرنے کے معاملے میں اتنے کنجوس کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہم اس کی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کیوں نہیں کرتے جو اس نے ہمیں بے حساب دے رکھی ہیں۔ خود اللہ باری تعالی قرآن مجید میں بارہا فرماتا ہے کہ ہم اس کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا سکتے ہیں!!

میں نے جانا کہ ہم جب ناشکری کی انتہا پر پہنچ جاتے ہیں تو اللہ تعالی ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔ میں نے اتنے صدق دل سے، اس یقین کے ساتھ کہ اب میں جانیوالی ہوں ، میرے پاس بہت کم مہلت ہے، میں نے ہر ہر سانس کے ساتھ اس کا شکر بجا لانا شروع کر دیا۔ میں نے اس سے زندگی نہیں مانگی، وہ تم لوگوں نے مانگی، میرے پیاروں نے، لمحہ لمحہ میں جس اذیت سے گزری ہوں ، موت کا ذائقہ اپنے ہونٹوں پر محسوس کیا ہے، موت کو چھو کر دیکھا ہے تو میں موت سے بے خطر ہو گئی۔

اس سپاہی کی طرح جو مادر وطن کی حفاظت کی خاطر سرحدوں پر ہمہ وقت موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رکھتا ہے، اسے اپنی طرف بڑھتے محسوس کرتا ہے، اسے چھو کر، اپنے ہونے کا احساس دلا کر موت رخ پلٹتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے… کہ اسے چند سانسیں اور مستعار مل گئیں کہ وہ اللہ کی راہ میں اور لڑ سکے، مگر پھر بھی دل میں شہادت کی خواہش رکھتا ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے بر وقت علم ہو گیا کہ میں جا رہی ہوں اور ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کر دیا، مجھے سانسیں کم اور ناشکری کا دور زیادہ لگتا تھا۔

یہ زندگی تو مجھے بونس میں مل گئی ہے، میرا پتا ہرا نہیں رہا شیریں ، پیلا ہو گیا ہے، مرجھا رہا ہے، کبھی بھی ٹوٹ کر گر سکتا ہے مگر میں سب سے کہوں گی کہ ایسے وقت کا انتظار نہ کریں ، جو لمحہ میسر ہے اسے غنیمت جانیں، اپنی زندگی کا پتا ٹوٹ کر گرنے سے پہلے اللہ کی دی ہوئی بہترین اور مفت چیزوں کا بے بہا شکر ادا کریں ‘‘

’’ اللہ ہم سب کو توفیق دے، آمین! ‘‘ میں نے کہا، اٹھ کر ناہید کو گلے لگا کر اللہ حافظ کہا اور اس کے جانے کے بعد… نوٹ بک اٹھا کر اس پر اللہ کی وہ نعمتیں لکھنے لگی جو کہ ہمیں مفت میں میسر ہیں ، دو دن ہو گئے ہیں، کئی صفحات کالے ہو گئے ہیں مگر فہرست ختم ہونے میں نہیں آ رہی!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔