آزادی فکر میں معاشرے کی نجات

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 15 جون 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گھر میں پڑھا لکھا ماحول مل جائے تو پھر بچوں کے خوابوں میں ایک یہ خواب بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ ادارے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ بعض بچوں کو شوق ہوتا ہے کہ وہ کب سیکنڈری اسکول میں پھر سیکنڈری کے بعد میٹرک کا طالب علم بننے کا شوق پھر انٹر کی سطح پر کالج میں پڑھنے کا شوق، کالج کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا شوق، ایم اے کے بعد ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی کرنے کا شوق، علم کے متوالوں کا یہ شوق رکتا نہیں۔ راقم کو بھی پی ایچ ڈی کرنے کا بہت شوق تھا، دن رات ایک کرکے جب پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی تو مجھے احساس ہوا کہ زندگی میں ملنے والی خوشیوں میں یہ خوشی سر فہرست تھی۔

کوئی ایک ہفتہ قبل راقم کے دل میں شوق حسرت کی ایک اور چنگاری اس وقت بھڑک اٹھی جب رئیس کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج کو ایک تقریب میں ڈاکٹر جسٹس ریٹائرڈ قاضی خالد نے انھیں ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر جسٹس ریٹائرڈ قاضی خالد  شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء کے شیخ الجامعہ ہیں اور علم کی قدر و منزلت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، چنانچہ انھوں نے ڈی لیٹ کی ڈگری کے حصول پر ڈاکٹر شکیل اوج کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کر ڈالی اور گورنر سندھ سے اپیل کی کہ ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے اساتذہ کو میریٹوریس استاد کا درجہ دیکر ایک نئی روایت قائم کی جائے۔ ڈاکٹر جسٹس ریٹائرڈ قاضی خالد کا موقف تھا کہ ڈی لیٹ کی ڈگری چوں کہ بہت ہی کم اساتذہ کے حصے میں آتی ہے اس لیے اس قسم کے نمایاں مقام رکھنے والے اساتذہ کو میریٹوریس استاد کا درجہ ضرور ملنا چاہیے۔

مذکورہ بالا تقریب میں بیرسٹر خورشید ہاشمی، ڈاکٹر سلمان، ڈاکٹر توصیف احمد، انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے صدر ڈاکٹر جمیل کاظمی، ڈاکٹر وحید قادری اور ڈاکٹر فیاض بھی موجود تھے۔ اس موقعے پر ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنی نئی تصنیف ’’افکار شگفتہ‘‘ بھی تقریب کے میزبان کو پیش کی۔ ڈاکٹر شکیل اوج کی اس نئی کاوش میں 26 کے قریب مضامین اور مقالے شامل ہیں جن میں منہاج تحقیق، رویت ہلال میں سائنسی علوم کا کردار، اسلامی سائنس کے یورپ پر اثرات اور اظہار رائے کی آزادی کا قرآنی تصور جیسے موضوعات شامل ہیں۔

مذکورہ کتاب میں صدر شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی ڈاکٹر طاہر مسعود ’’فکر اوج سے اوج ثریا تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’میں آزادی فکر میں اور اختلاف فکر و نظر میں اس معاشرے کی نجات دیکھتا ہوں اور اسی لیے اپنے تمام فکری اختلاف کے ساتھ ڈاکٹر شکیل اوج کی قدر کرتا ہوں اور ان کی جرأت کو سلام کرتا ہوں کہ وہ تمام مخالفتوں کے باوجود اس صداقت کے اظہار میں کسی سمجھوتے پر تیار نہیں۔‘‘

بہرکیف ڈاکٹر شکیل اوج اسلامک اسٹڈیز میں ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے صوبہ سندھ کے پہلے، پاکستان کے دوسرے اور برصغیر پاک و ہند کے تیسرے ڈی لیٹ اسکالر ہیں اور یہی بات مجھ جیسے ناچیز سمیت علم سے محبت رکھنے والے بے شمار افراد کو بھی علم کے سفر میں مزید آگے پیش رفت کرنے پر اکسا رہی ہے۔

راقم نے اپنے کالموں میں پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرف توجہ مبذول کرائی تھی کہ اعلیٰ علمی تحقیق کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ تحقیق دور حاضر کے مسائل سے تعلق رکھتی ہو اور پھر ان محققین کی مدد بھی سرکاری سطح پر ضرور ہو۔ مثلاً اس تقریب میں شریک  بیرسٹر خورشید ہاشمی میری برابر والی نشست پر تشریف رکھتے تھے اور ڈاکٹر سلیمان شیخ سے محو گفتگو تھے۔

مجھ جیسے لکھاری کے لیے یہ ایک نادر موقع تھا کہ میں ان کے تجربات سے کچھ فائدہ اٹھاؤں اور اپنے قارئین تک پہنچاؤں۔ سو میں نے بیرسٹر صاحب سے نہایت عاجزی سے سوال کیا ’’سر آپ کے خیال میں ہمارے ملک میں انصاف کی فراہمی مفت ہے، انصاف سستا ہے یا انصاف بہت مہنگا ہے؟‘‘ میرے سوال پر انھوں نے ڈاکٹر سلیمان کو بھی متوجہ کیا ’’سنیے یہ ڈاکٹر صاحب کیا سوال کررہے ہیں‘‘ اس کے بعد انھوں نے میرے سوال کے جواب میں   ایک خاتون جن کا بیٹا قتل ہوگیا تھا، ان کی پوری ایک کہانی سنا ڈالی کہ کس مشکل سے اور کتنے وقت کے بعد اس خاتون کو انصاف ملا، اس کہانی کے بعد بیرسٹر صاحب نے میرے سوال کے جواب میں کہاکہ آپ کے سوال کا جواب اس جواب میں ہے جو خاتون نے مجھے دیا! انھوں نے پھر کہاکہ میں نے جب خاتون سے پوچھا کہ آپ مطمئن ہیں؟ آپ کو اب انصاف مل گیا؟ خاتون نے جواباً کہا ’’نہیں! مجھے انصاف ملا نہیں میں نے انصاف خریدا ہے۔‘‘

راقم کے خیال میں بیرسٹر صاحب نے بہت گہرائی کے ساتھ سوال کا جواب نہایت دانش مندی سے دے دیا تھا لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ہم اسلامی یا فلاحی ریاست کے نعرے تو لگارہے ہیں مگر ہم کس طرف جارہے ہیں؟ اگر سرکاری سطح پر انصاف جیسی اہم ضرورت عوام کو بلا دام ان کی دہلیز تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی جارہی تو کیا علمی و تحقیقی میدان میں ایسی تحقیق نہیں کی جاسکتی کہ جو یہ راز کھول سکے کہ ہمارے نظام انصاف و قانون یا ریاست یا پھر معاشرے میں کہاں کون سی خرابی ہے۔

ہم مریض کی درست تشخیص نہیں کرپاتے نہ ہی اس کا علاج دریافت کر پاتے۔ زندہ معاشروں میں علم و تحقیق کے میدان ایسے ہی مسائل کو حل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، آیئے علم و تحقیق کے میدان میں کام کرنے والوں کی ہمت افزائی کریں اور ایسا ماحول قائم کرنے کی کوشش کریں جہاں علمی تحقیق صد فی صد سچی، کھری اور معیاری ہو تاکہ ہمارے مسائل بھی حل ہوں اور کم از کم انصاف مفت نہ سہی سستا تو ملے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔