منہ کھولیے، آپ کی فلائٹ کا وقت ہوگیا

وجاہت علی عباسی  اتوار 15 جون 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

ﷲ ایئرپورٹ کو کسی دشمن سے محفوظ رکھے، پاکستان کے مختلف ایئرپورٹس پر موجود کئی انٹرنیشنل فلائٹس سے سفر کرنے والے مسافر پچھلے کچھ دنوں سے مل کر یہی دعا مانگ رہے تھے، چند دن پہلے ایک عجیب و غریب حملہ کراچی ایئرپورٹ پر ہوا جس کی مثال کسی بھی دوسرے ملک میں نہیں ملتی، جہاں دس دہشت گرد ایئرپورٹ پر کھڑے جہازوں کو بم سے اڑانے کی غرض سے پہنچے تاکہ پاکستان ایوی ایشن کو بڑا نقصان پہنچا سکیں۔

کئی معصوم لوگوں کی جان گئی لیکن ساتھ ہی پاکستانی آفیشلز دہشت گردوں کے منصوبے کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوگئے اور کسی بھی نقصان سے جہازوں کو بچا لیا۔

جون آٹھ کو نہ ختم ہونے والی ایک لمبی رات اپنے ساتھ کئی تاریکیاں لے کر آئی، کراچی ایئرپورٹ پر کام کرنے والا عملہ وہاں آئے پیسنجر اور کئی سیکیورٹی اہل کاروں کی زندگی کا سفر اس رات اختتام پذیر ہوگیا، کراچی ایئرپورٹ پر ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار سمیت کئی لوگ گھنٹوں پھنسے رہے۔

وہ رات بالآخر ختم ہوئی اور سارے دہشت گردوں کو مار گرانے کے بعد اگلے دن سے پھر ایئرپورٹ کی چہل پہل معمول پر آگئی لیکن بین الاقوامی مسافروں کے جذبات اب بھی ویسے ہی تھے اور وہ ایسے ایئرپورٹ پرآنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اور اس کی وجہ ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی شرط کہ پاکستان سے باہر سفر کرنے والے ہر مسافر کو پولیو ویکسینیشن کا سرٹیفکیٹ اپنے ساتھ رکھنا ہوگا۔

کئی کوششوں کے باوجود WHO پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پولیو کے ٹیکوں کی کمپین چلانے میں ناکام رہی یہاں تک کہ ہر بچے کو پولیو ڈراپس پلانے پر والدین کو دو ہزار روپے دینے کی پیش کش کی گئی لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا، اسی لیے WHO نے ایک اچھی آرگنائزیشن ہونے کا ثبوت دیتے یہ فیصلہ کیا کہ اپنی مصیبت اپنے تک ہی رکھو اسے دنیا بھر میں نہ پھیلاؤ اس لیے یکم جون سے ہر باہر جانے والے شخص کو پولیو ویکسینیشن پھر سے کروانی ہوگی اور اس کا سرٹیفکیٹ اپنے ساتھ ایئرپورٹ پر لے کر جانا ہوگا۔

یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ پولیو چھوٹی عمر میں لگتا ہے، یہ لگنے والی بیماری ضرور ہے لیکن پانچ سال کی عمر کے بعد جب آپ اٹھارہ سال کے یا اس سے بڑے ہوں تو آپ کا دفاعی نظام اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ آپ کو پولیو کے جراثیم اثر انداز نہیں کرتے، اسی لیے آپ نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ کوئی پچیس تیس سالہ شخص پولیو کا شکار ہوگیا۔

نئے قانون کے مطابق آپ نو مہینے کے ہوں یا نوے سال کے اگر آپ ملک سے باہر جا رہے ہوں تو آپ کو پھر سے ویکسینیشن کروا کر سرٹیفکیٹ ایئرپورٹ پر دکھانا ہوگا۔ ایئرپورٹ پر ایمرجنسی میں سفر کرنے والے لوگ یعنی جنھوں نے دن کے دن ہی ایئرپورٹ سے ٹکٹ لیا ہے ان کی سہولت کے لیے لمیٹڈ سروس کاؤنٹر کھولا گیا ہے جہاں وہ ویکسینیشن کروا کر یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں لیکن یہ کاؤنٹر مزید پریشانیوں کا باعث بن رہا ہے۔

یہ کاؤنٹر جب کہ صرف ایمرجنسی کے لیے بنایا گیا تھا لیکن پاکستان کے ہر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لوگوں کا برا برتاؤ دیکھا جا رہا ہے، کئی لوگوں کے حساب سے ان کے ٹریول ایجنٹس نے بتایا تھا کہ اگر پرانا سرٹیفکیٹ بھی دکھا دیں تو یہ کافی ہوگا لیکن ایئرپورٹ پہنچ کر انھیں پتہ چلا کہ کوئی بھی پرانا سرٹیفکیٹ قبول نہیں کیا جائے گا، وہ کاؤنٹر پر بحث کرتے ہیں کہ انھیں ایئرپورٹ پر ہی نیا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔

کئی ایسے لوگ بھی آتے ہیں جنھیں سرے سے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انھیں پولیو ڈراپس بھی لینے تھے وہ بھی ان ایمرجنسی لائنز میں لگے ہوتے ہیں، کچھ لوگ پاکستان مختصر وقت کے لیے آئے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنا آدھا دن ان چیزوں میں صرف نہیں کرنا چاہتے وہ بھی ان لائنز میں لگے ہوتے ہیں۔

جہاں یہ کاؤنٹر ہر فلائٹ کے دو چار لوگوں کے لیے کھولے گئے تھے وہیں ہر فلائٹ کے آدھے سے زیادہ لوگ ان لائنوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔

کاؤنٹر پر کام کرنے والے بار بار کہتے ہیں لوگوں سے لائن بنانے کو لیکن پھر بھی لوگ بار بار لائن توڑ کر کاؤنٹر پر غصہ کرتے ٹوٹ پڑتے ہیں ہر شخص کو اپنا کیس صحیح لگتا اور وہ کاؤنٹر پر بیٹھے بے چارے لوگوں پر برس پڑتا ہے۔

کئی مسئلوں میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایمرجنسی سروس کے لیے آپ کو ایک فارم بھرنا ہوتا ہے، اب کئی ایسے لوگ سفر کر رہے ہوتے ہیں جو لکھنا پڑھنا جانتے ہی نہیں، ان کے فارم بھرنے کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔ وہ کچھ لوگ جو کاؤنٹر پر بیٹھے ہیں وہ درجنوں لائن توڑتے لوگوں سے نمٹیں یا پھر کسی کے لیے فارم بھریں ساتھ ہی کاؤنٹر قلم بھی دستیاب نہیں ہوتے، جس پر ہر تھوڑی دیر میں کوئی نہ کوئی جھگڑا کرتا ہے۔

بچے، بوڑھے، اپاہج کئی لوگ جو اکیلے سفر کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی ایک عجیب مسئلے اور پریشانی سے دوچار ہوجاتے جب ایئرپورٹ پہنچ کر انھیں پتہ چلتا ہے کہ انھیں پہلے سے پولیو ڈراپس لینے تھے کئی لوگ اپنے بچوں کا  Immunization Record لے کر آتے ہیں اور بحث کرتے ہیں کہ ہم پھر سے اپنے بچوں کو پولیو ڈراپس نہیں پلائیں گے، انھیں شک ہوتا ہے کہ ڈراپس کا کوئی الٹا اثر نہ ہوجائے جب کہ ڈراپس دوبارہ پینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے باوجود ماں باپ بار بار اپنے بچوں کو پولیو ڈراپس پلانے سے احتراز کرتے ہیں۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں پولیو شاٹس دیے جاتے ہیں ڈراپس نہیں، شاٹس ڈراپس کے مقابلے میں زیادہ اثر کرتے ہیں کیونکہ یہ نظام ہضم پر منحصر نہیں ہوتے اس لیے جو غیر ملکی مسافر کراچی اسلام آباد سے سفر کر رہے ہوتے ہیں وہ اکثر یہ کہہ کر ڈراپس پینے سے انکار کردیتے ہیں کہ وہ اس کے خلاف ہیں اور ڈراپس نہیں پیئیں گے۔

دنیا میں ترقی کرنے کے لیے آج کسی بھی ملک کو اپنے ہوٹلز اور ایئرپورٹس کا خاص خیال کرنا ہوتا ہے تاکہ بین الاقوامی مسافر ان کے ملک آنے کے لیے مائل ہوں، ہوٹلوں پر تو ہمارے یہاں کئی برسوں سے حملے ہو رہے ہیں اور پچھلے دنوں اس لپیٹ میں ایئرپورٹ بھی آگیا، اب اگر کوئی بھولا بھٹکا گورا پاکستان اس سب کے بعد بھی آجائے اور کسی بھی حملے کا شکار نہ ہو تو ملک سے باہر جانے کے لیے اسے گھنٹوں لائن میں کھڑے ہوکر پولیو ڈراپس کے لیے منہ تو کھولنا ہی پڑے گا تاکہ انھیں بھی پتہ چل جائے کہ ہمارے لیے ہر قدم زندگی بہت مشکل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔