شمالی وزیرستان اور سوشل میڈیا

نصرت جاوید  منگل 17 جون 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جنگوں کے بارے میں سیانے ہمیشہ یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ تمام جنگوں کے بارے میں بہت سوچ بچار کے بعد بنائے منصوبے میدانِ جنگ میں پہلے فائر کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہو جایا کرتے ہیں۔ منطقی طور پر اس کی وجہ یہ سمجھائی گئی ہے کہ جنگیں لڑنے والے اپنے منصوبے ماضی میں ہوئے بڑے بڑے معرکوں سے کچھ نتائج اخذ کر کے بنایا کرتے ہیں۔ ہر نئی جنگ مگر ’’حال‘‘ میں لڑی جاتی ہے اور بالآخر اس کی اپنی کوئی مخصوص Dynamics نمودار ہو کر سامنے آ جاتی ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے یہ جنگ لڑنے والوں کو میدانِ جنگ میں چند فوری، کئی نئے اور تخلیقی فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔

پاک فوج کے لیے شمالی وزیرستان میں اس ہفتے کے آغاز کے ساتھ جاری ہونے والا آپریشن ایک حوالے سے کوئی انوکھی بات نہیں ہونا چاہیے۔ سوات اور جنوبی وزیرستان میں بھی ایسے آپریشن آج سے کئی برس پہلے ہو چکے ہیں۔ یقیناً ماضی کے ان آپریشنز سے پاک فوج نے بہت کچھ سیکھا ہو گا اور شمالی وزیرستان میں اپنی کارروائیوں کے دوران وہ ان تجربات سے اخذ کردہ نتائج کو پوری طرح بروئے کار لانے کی کوشش کریں گے۔

میں اپنا شمار ذات کے ان رپورٹروں میں کرتا ہوں جنھیں خود کو عقلِ کل منوانے کی علت سے خدا نے ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ میرا اصرار ہے کہ آج کا دور Specialization کا دور ہے۔ آج کے دور کا صحافی ہر شعبے کا نیم حکیم ۔ جسے انگریزی محاورے میں Jack of all Trades کہا جاتا ہے، بننے کی جسارت کر ہی نہیں سکتا۔ جس کا کام اسی کو ساجھے میں چھپی حکمت کو تسلیم کر لینے میں ہی عافیت ہے۔ مصیبت مگر یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے اب نام نہاد Citizen Journalists کی بھی ایک بہت بڑی کھیپ تیار کر دی ہے۔ ہمارے لوگوں کو ویسے بھی ہر موضوع پر بڑے اعتماد سے اپنے گرانقدر خیالات ہذیانی کیفیات میں بیان کرنے کی تاریخی عادت ہے۔ اتوار کی رات سے میں بڑے غور سے ٹویٹر وغیرہ پر ایسے خیالات کی بھرمار کو بھگت رہا ہوں۔

مجھے پورا یقین ہے کہ سوشل میڈیا پر ماہرینِ جنگ بنے افراد کی بے پناہ اکثریت کو شمالی وزیرستان کے بنیادی حقائق کے بارے میں ہرگز کوئی علم نہیں ہو گا۔ اس علاقے کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ ایک ٹھوس جغرافیائی صورت حال ہے۔ مختلف النوع قبائل ہیں۔ جن کی اپنی بہت مخصوص تاریخی اور ثقافتی روایات ہیں۔ ان سب کو سمجھنے کے لیے بڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کے لیے وقت اور محنت درکار ہے اور ان دونوں چیزوں کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں۔ جو ’’مفکر‘‘ اپنے دن کے تین سے چار گھنٹے ٹویٹر وغیرہ کی نذر کر دے وہ کتابیں وغیرہ پڑھنے کا وقت ویسے بھی کہاں سے لائے گا؟ جس کے دل میں جو آئے ہے ہانکتا چلا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ پریشانی مجھے ان افراد کے رویے پر ہوئی جنہوں نے آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ کے اعلان کے ساتھ ہی کچھ ایسا محسوس کیا جیسے فٹ بال کے ورلڈ کپ کا کوئی اہم میچ شروع ہو گیا ہے اور وہ Cheer Leaders کی طرح اپنی پسند کی ٹیم کو Back up کرنا شروع ہو گئے۔

میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے اب قوم کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ شمالی وزیرستان میں ہونے والی کارروائی T-20 والا کھیل نہیں۔ یہ ایک بھرپور جنگ ہے۔ جنوبی وزیرستان شمالی وزیرستان سے کئی حوالوں سے ایک مختلف میدانِ جنگ تھا۔ دوسری اہم بات یہ بھی تھی کہ وہاں بیٹھے جنگجو جنگ کی منطق کے حوالے سے چند جگہوں پر قلعہ بند ہو کر بیٹھے تھے۔ ایسے ’’قلعہ بند‘‘ افراد سے بھی علاقے کو خالی کرانے کے لیے مسلسل تین ہفتے تک جنگی کارروائیاں کرنا پڑیں۔ شمالی وزیرستان کو جنگجوئوں سے خالی کرانے کے لیے اس سے کہیں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ اس طویل وقت کے دوران شمالی وزیرستان میں موجود افراد کے حمایتی اور تربیت یافتہ لوگ پاکستان کے تمام بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں کچھ ایسی کارروائیاں کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جن کا مقصد پاکستانی عوام کے دلوں کو دہلا دینا ہو گا۔

ہماری اب یہ عادت بن گئی ہے کہ جب بھی ایسی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو ہم کسی ایک حکومت یا ادارے کی ’’غفلت‘‘ کو اس کا ذمے دار ٹھہرانا شروع ہو جاتے ہیں۔ کراچی ایئر پورٹ والے واقعہ کو لے لیجیے۔ یہ بات درست ہے کہ دس افراد وہاں کسی نہ کسی طرح بھاری اسلحے سے لیس ہو کر گھس آئے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم نے اس بات کو پوری طرح نہیں سراہا کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ASF کے دس سے زیادہ نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ہمیں کسی بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔

ان قربانیوں کو تقریباً نظر انداز کرتے ہوئے ہم بلکہ یہ طے کرنا شروع ہوگئے کہ ذمے دار صوبائی حکومت اور اس کے سربراہ قائم علی شاہ کو ٹھہرایا جائے یا سول ایوی ایشن کے نام سے بنی ایک نئی وزارت کو جس کے سربراہ کو چند جائز و ناجائز وجوہات کی بناء پر بہت سارے لوگ پسند نہیں کرتے۔ جس تنظیم نے یہ حملہ کیا تھا اس نے واقعے کے فوراً بعد ان لوگوں کی تصاویر انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دُنیا کو فراہم کر دیں جنھیں اس واقعے کے لیے باقاعدہ تیار کیا گیا تھا۔

ہمارے صحافیوں کی ذمے داری تھی کہ وہ اپنی ساری توجہ اس بات پر مبذول کرتے کہ ASF اور دیگر اداروں کی جانب سے مارے گئے افراد واقعی وہی اشخاص ہیں جن کی تصاویر جاری کی گئی تھیں۔ کم از کم میں نے اپنے کسی ساتھی کو اس مشق کی اذیت سے گزرتے نہیں دیکھا۔ سارا زور بلکہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں صرف کر دیا گیا کہ کراچی ایئر پورٹ میں در آنے والے افراد کے پاس وہ ’’ٹیکہ‘‘ کیسے پہنچا جسے بھارتی فوج خون کو منجمد کرنے کے لیے استعمال کیا کرتی ہے۔

ایسے ٹیکوں کی دریافت کے بعد چسکے دار سوالات نواز شریف کے اس فیصلے کی بابت اٹھانا شروع کر دیے جس کے بعد پاکستانی وزیراعظم نے مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔ شمالی وزیرستان میں ممکنہ طور پر ایک طویل آپریشن کے دوران کراچی ایئر پورٹ جیسے مزید واقعات ہو سکتے ہیں۔ میرے منہ میں خاک اگر واقعی ایسے چند واقعات ہو گئے تو Blame Passing  والے رویے کو چھوڑ کر اپنے عوام اور خاص کر امن و امان کے ذمے دارانہ کو حوصلہ دینا ہو گا۔ ایسی حوصلہ افزائی کے بغیر شمالی وزیرستان میں ہونے والی پیش قدمیوں کی مؤثر رپورٹنگ بھی ممکن نہیں رہے گی۔

فی الوقت پاکستان کے عام شہری ہوتے ہوئے ہمیں پورے خلوص سے بھرپور توجہ اس بات پر دینا ہو گی کہ شمالی وزیرستان سے اپنی جان بچا کر مختلف شہروں میں آنے والے بے گناہ پناہ گزینوں کی مناسب دیکھ بھال ہو۔ پورے عزت و احترام کے ساتھ انھیں سخت گرمی کے اس موسم میں تھوڑی راحت پہنچانے کا ہر بندوبست ہو اور اس بات کا خصوصی اہتمام بھی کہ وہ رمضان کے مقدس ایام کے دوران خود کو بے کس و لاچار نہ سمجھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔