مستحکم ازدواجی زندگی مگر کیسے۔۔۔۔۔

اسلام کے راہ نما اصول خاندانی تعلقات کو خوش گوار اور مضبوط و مستحکم بنانے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں


اسلام کے راہ نما اصول خاندانی تعلقات کو خوش گوار اور مضبوط و مستحکم بنانے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

نکاح عفت و پاکیزگی کا جلی عنوان ہے، آفات نظر سے حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے، ایمان کی تکمیل کا سبب ہے، نکاح وہ پاکیزہ رشتہ ہے جو مرد و عورت کوایک لڑی میں پرو دیتا ہے، اور ان کے مابین الفت و محبت کو فروغ دیتا ہے۔

عقد نکاح سے صرف مرد و عورت کا ہی اجتماع نہیں ہوتا بل کہ دو خاندانوں کا باہم اجتماع ہوتا ہے، میاں بیوی کے مابین ہی تعلق و انسیت پیدا نہیں ہوتی بل کہ دو خاندانوں کے افراد کے مابین تعلق و انسیت پیدا ہوتی ہے۔ زوجیت کا پاکیزہ رشتہ قائم ہونے کے بعد زن و شو ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں شریک ہوجاتے ہیں، اور اگر ازدواجی زندگی کو اسلامی نہج پر استوار رکھا جائے تو دونوں دو جسم یک جاں بن جاتے ہیں۔

شریعت اسلامیہ کا مزاج یہ ہے کہ جب مرد و عورت نکاح کے رشتے میں بندھ جائیں تو یہ رشتہ مضبوط اور مستحکم ہو، محبت و ہم دردی اور باہمی تعاون کی بنیادوں پر استوار ہو، ایک دو مہینے یا ایک دو سال تک یہ رشتہ محدود نہ ہو بل کہ دائمی اور لازوال ہو، اسی وجہ سے نکاح کے پاکیزہ رشتہ کو برقرار رکھنے اور اس میں محبت و مودت کا رنگ بھرنے کے لیے اسلام نے زوجین کو خاص ہدایات دی ہیں۔

شوہر اور بیوی ہر ایک کے ذمے اپنے ساتھی کے حوالے سے کچھ حقوق مقرر کیے ہیں، اگر ان پر عمل کو یقینی بنایا جائے اور ازدواجی زندگی کے سفر میں شریعت کے نقوش جمیل کو مدنظر رکھا جائے تو نکاح کا رشتہ مزید پائیدار اور مستحکم ہوتا ہے، اور میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے مخلص رفیق ثابت ہوتے ہیں، اور اگر شریعت کی ہدایات سے غفلت اور لاپروائی برتی جائے، ازدواجی حقوق کی ادائی میں سستی، غفلت، بے رخی اور سہل انگاری کا مظاہرہ کیا جائے تو پھر میاں بیوی میں سے ہر ایک کی زندگی تلخ اور بے مزہ ہوجاتی ہے، اور زندگی کے ہر موڑ پر دونوں ایک دوسرے کے لیے بہ جائے رفیق کے حریف ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف چوں کہ دونوں کا ہمیشہ کا ساتھ ہوتا ہے۔

اختلاط اور ہم نشینی کے مواقع ہمیشہ میسر ہوتے ہیں، اس لیے ایک دوسرے کی اخلاقی کم زوریاں بھی ان کے سامنے ظاہر ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ سے شکایات کا پیدا ہوجانا ناگزیر ہے، زوجین کے مابین باہمی رنجش اور ان بن ہوجانا ایک فطری امر ہے، یہ نہ کوئی معیوب بات ہے اور نہ شریعت کے منشاء کے خلاف ہے، تاہم ایسی صورت میں میاں بیوی کے سرپرستوں کو سنجیدہ اور ذمے دارانہ کردار نبھانے کی ضرورت ہے، ایسا مضبوط کردار جس میں وقتی غصہ، جذبات کا ابلتا ہوا جوش نہ ہو۔

عصبیت و جانب داری سے کام نہ لیا گیا ہو، بل کہ سرپرستوں اور ذمہ داروں سے ایک ایسا کردار مطلوب ہوتا ہے جس میں حقائق کا بے لاگ تجزیہ ہو، شیشہ و آہن کا حسین امتزاج ہو، محبت و ہم دردی کے ساتھ احساس ذمہ داری ہو، شکست اور ہار ماننے کا حوصلہ ہو، جب حضرات سرپرست زوجین کے باہمی چپقلش اور شکر رنجی کو دور کرنے اور ان کے باہمی شکایات کو رفع کرنے میں سنجیدہ ہوں گے، اور غیر جانب دارانہ طور پر ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے تو میاں بیوی کی ازدواجی زندگی خوش گوار فضا میں بسر ہوگی، اور بہت سے ازدواجی رشتے جو معمولی باتوں کی وجہ سے طلاق پر منتج ہوتے ہیں ان میں بھی مطلوبہ حد تک کمی آئے گی، نیز طلاق و تفریق اور میاں بیوی نزاع و اختلاف کی وجہ سے جو آج کل پولیس اسٹیشنوں اور کورٹ کچہریوں کے چکر کاٹے جا رہے ہیں، اور جگ ہنسائی کا موقع مل رہا ہے ان پر بھی روک لگے گی۔

عہد نبویؐ جو مسلمانوں کا ایک مثالی اور درخشاں دور تھا، جہاں اسلامی معاشرے کی بنیاد عالی صفات اور بلند اخلاق پر تھی، محبت و ہم دردی، ایثار و سخاوت اور خلوص و اپنائیت جیسے پاکیزہ صفات مدنی معاشرے کا جزو لاینفک تھے، وہاں بغض و عناد، عداوت و دشمنی اور حسد و رقابت کا گزر نہ تھا، جس مدنی معاشرے میں ازدواجی رشتہ ایک اٹوٹ اور مضبوط بندھن ہوتا تھا، جہاں ازدواجی رشتہ محبت و مودت اور بے لوث تعلق و انسیت کا مظہر ہوتا تھا۔

جہاں مرد و عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد زندگی کے مخلص رفیق ثابت ہوتے تھے، جو پاکیزہ سماج سکون و اطمینان کی گراں مایہ دولت سے معمور تھا، ایسے پاکیزہ دور کی طرف لوٹیے، تاریخ کے صفحات پلٹیے اور ان کی روشنی میں سفر کا رخ متعین کیجیے، کیوں کہ گزری ہوئی بہار کی یادیں ہی ہمارے خزاں رسیدہ چمن کے پودوں میں ذوق ِنمو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور ماضی کے دھندلکوں میں چھپے ہوئے نقوش ہی ہمیں مستقبل کی راہ دکھا سکتے ہیں۔

سرپرست اپنی لڑکیوں کو یہ تعلیم دیں کہ جب شوہر خفا ہوجائے تو اسے منانا تمہارا فریضہ ہے اور اسی طرح اگر شوہر نے زیادتی کی ہے تو اسے اپنی بیوی سے معذرت کرنا چاہیے۔ جب زوجین کے مابین ناچاقی پیش آجائے تو سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر زوجین کے مابین مصالحت کرانے کی کوشش کریں، اور دونوں کی ازدواجی زندگی کو بحال کرنے کو یقینی بنائیں، جب کسی مسئلہ کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے، اور اس کو آئندہ وقت کے لیے ٹال دیا جائے، تو بسا اوقات اس سے بڑے نقصانات ہوسکتے ہیں۔

جیسے ایک چھوٹی سی چنگاری کو یوں ہی جلتا چھوڑ دیا جائے اور اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے تو پھر کچھ ہی دیر میں یہی چنگاری شعلۂ جوالہ بن جاتی ہے، اور اپنے اردگرد کی چیزوں کو خاکستر کرکے رکھ دیتی ہے، اسی طرح میاں بیوی جن کا ہمیشہ کا ساتھ ہوتا ہے، ہر ایک کا قلبی سکون و اطمینان اپنے رفیق حیات سے مربوط ہوتا ہے۔

اگر کسی وجہ سے ان کے مابین رنجش ہوجائے، اور اس کو حضرات سرپرست یوں ہی نظرانداز کردیں، اور اس کو فوری طور پر حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کریں تو آگے چل کر بڑے مسائل بھی کھڑے ہوسکتے ہیں، جن کو آسانی سے حل کرنا بسا اوقات ممکن نہیں ہوتا۔

حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کا واقعہ ہمارے لیے بڑا سبق آموز ہے، حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے میرا نکاح ایک قریشی خاتون سے کیا، جو خوب صورت ہونے کے ساتھ ایک اچھے اونچے خاندان سے تعلق رکھتی تھی، میرے والد اپنی بہو کا خاص خیال رکھتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے بہو سے پوچھا کہ تمہارا شوہر کیسا ہے؟ اس کا تمہارے ساتھ کیسا برتاؤ ہے؟

بہو نے کہا: بہت اچھے آدمی ہیں، بستر پر نہیں آتے، اور حقوق زوجیت ادا نہیں کرتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ کہتے ہیں کہ جب میرے والد نے میرے متعلق یہ شکایت سنی تو مجھے بہت ڈانٹا، اور کہا کہ میں نے ایک معزز خاتون سے تمہارا نکاح کیا ہے، اور تم زوجیت کے حقوق ادا نہیں کرتے ہو، جب ان کی زجر و تنبیہ کا مجھ پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا تو انہوں نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، اور بیوی کے حوالہ سے جو میرا رویہ تھا اسے اﷲ کے رسول ﷺ کے سامنے بیان کیا، آپؐ نے مجھے طلب کیا اور فرمایا: مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم مسلسل دن میں روزے رکھتے ہو، اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہو۔ میں نے کہا: یہ اطلاع صحیح ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: تم کچھ دن روزہ رکھو، اور کچھ دن روزہ نہ رکھو، تھوڑی دیر کے لیے رات میں نماز پڑھو، اور بقیہ حصہ رات میں آرام کرو، کیوں کہ تمہارے اوپر تمہارے جسم کا بھی حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تمہارے اوپر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تمہارے اوپر حق ہے، اور مہمانوں کا بھی تمہارے اوپر حق ہے۔ (مسنداحمد)

مذکورہ بالا واقعہ میں سرپرستوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ بچوں کی شادی کرنے کے بعد بھی بچوں کی تربیت سے کنارہ کشی اختیار کرلینا درست نہیں ہے، اپنی اولاد کے ازدواجی مسائل سے دل چسپی نہ لینا صلحاء، متقی اور پرہیزگار لوگوں کا شیوہ نہیں ہے، بل کہ سرپرستوں کی جہاں یہ ذمے داری ہے کہ وہ لڑکے اور لڑکی کے لیے ایک دین دار شریک حیات کا انتخاب کریں، اور شادی کی عمر کو پہنچتے ہی انہیں شادی کے رشتے میں منسلک کردیں۔

اسی طرح یہ بھی ذمے داری ہے کہ شادی کے بعد ازدواجی زندگی کی نگرانی بھی کریں، اور زوجین کو باہمی فرائض ادا کرنے کا پابند بنائیں، نیز زوجین کی عائلی زندگی کی نگرانی صحیح اور منصفانہ بنیادوں پر ہونی چاہیے، اگر سرپرست کو یہ محسوس ہوکہ میرے لڑکے یا لڑکی سے غلطی ہو رہی ہے، حقوق کی ادائی میں میرا بچہ یا میری بچی کوتاہ ثابت ہو رہی ہے تو اسے نظرانداز کردینا اور اس پر خاموشی اختیار کرلینا صحیح نہیں ہے۔

بل کہ محبت اور خیر خواہی کے ساتھ لڑکے یا لڑکی کو اس کی غلطی پر متنبہ کیا جائے، اور اسے اصلاح حال پر آمادہ کیا جائے، اگر سرپرست کو یہ احساس ہوکہ میری پند و نصیحت کا لڑکے یا لڑکی کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ہے، اور وہ اپنی سابقہ روش پر برقرار ہے تو کسی معتبر عالم دین یا معاملہ فہم شخص سے رجوع کیا جائے، اور اصلاح حال کی کوشش کی جائے، جیسا کہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے اپنے صاحب زادے کی فہمائش کی، باز نہ آنے پر اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان کی حرکتوں کی اطلاع دی، اور ان کی اصلاح کی درخواست کی۔

آج کے دور میں ازدواجی جھگڑے آئے دن پیش آتے رہتے ہیں، میاں بیوی میں رنجش اور شکر رنجی ہوتی رہتی ہے، ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں، پولیس اسٹیشنوں میں اس طرح کے کیس درج کرائے جاتے ہیں، طویل قانونی لڑائیاں اس کے لیے لڑی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف خاندانوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں، آپس میں بغض و عداوت کے شرارے بھڑکتے ہیں، دوسری طرف ایسے ناخوش گوار ماحول میں نسل نو کے بھی اخلاق متاثر ہوتے ہیں۔

نئی نسل کی تعلیم و تربیت سے مجرمانہ غفلت ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ اس کے جہاں بہت سارے اسباب و عوامل ہیں وہیں ایک بنیادی اور اہم سبب سرپرستوں اور ذمے داروں کی مجرمانہ غفلت بھی ہے، ضرورت ہے اس بات کی کہ سیرت طیبہؐ کی روشنی میں سرپرست اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں، اور اس کو نبھانے کی کوشش کریں، شادی کے بعد بھی اپنے بچوں پر خاص نظر رکھیں، اور اپنے شریک حیات کے حقوق ادا کرنے کا انہیں پابند بنائیں تو ان شاء اﷲ اس سے ایک صالح اور خوش گوار معاشرہ وجود میں آئے گا، جو سکون و اطمینان اور چین کا گہوارہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں