دیسی ڈریکولا

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 18 جون 2014

اکثر لوگ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر ڈر جاتے ہیں اپنے چہرے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کردار کی وجہ سے۔ ایک بحری جہاز میں ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور اپنی پیاس بجھاتا۔ ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمندر میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا، لوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے یہ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ میں سو ار ہو گیا۔ قسمت کی خرابی کہ اس کی لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ وہی  شخص تھا جس نے اسے بچایا تھا اور بوٹ میں آنے میں مدد کی تھی رات ہوئی تو ڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی۔

ڈریکولا نے خود سے کہا کہ یہ تو بے شرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں اس نیک بند ے نے تو مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے میں کس طرح احسان فرامو شی کروں ایک دن دو دن تین دن وہ اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا۔ بالآخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی اس کے نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن انسان نیند میں ہو گا تا کہ اس کی صحت پر کوئی واضح فرق بھی نہ پڑے اور میری پیاس بھی تنگ نہ کرے یہ سو چ کر روزانہ اس نے دو دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا ایک دن اس کا ضمیر پھر جاگا اور اس پر ملامت کر نے لگا تو اس شخص کا خو ن پی رہا ہے جو تیرا دوست ہے جس نے نہ صرف تجھے بچایا بلکہ جو تیر ے لیے مچھلی پکڑتا ہے جو اوس (شبنم) کے قطرے جمع کرتا ہے اور اس پانی میں سے تجھے حصہ بھی دیتا ہے یقینا یہ بے شرمی کی انتہا ہے۔

یہ محسن کشی ہے ایسی زندگی سے تو موت اچھی ہے ڈریکولا نے فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا ایک رات گزری دوسری رات گزری تیسری رات ڈریکو لا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا تم خون کیوں نہیں پیتے۔ ڈریکولا حیرت سے بولا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں ڈریکولا ہوں اور تمہارا خون پیتا تھا۔ محسن بولا کہ جس دن میں نے تمہیں بچایا تھا اس دن تمہارے ہاتھ کی ٹھنڈک محسو س کر کے میں سمجھ گیا تھا کہ تم انسان نہیں۔

ڈریکولا ندامت سے بولا دوست میں اس پر شرمندہ ہوں جو میں نے کیا لیکن اب میرا وعدہ ہے میں مر جائوں گا لیکن تمہیں نقصان نہیں پہنچائوں گا۔ محسن بولا کیوں مجھ سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہو پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو مجھے تکلیف ہوتی تھی لیکن میں چپ رہا تا کہ تمہیں پتہ نہ چل جائے اور میں مارا جائوں لیکن اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے اور پچھلے دنوں سے عجیب بے چینی ہے اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جائوں گا ۔

ہمارے مادر وطن کی کہا نی بھی اس کہانی سے ملتی جلتی ہے بس فرق ڈریکو لا کی فطرت، حلیے  رنگت اور زبان کا ہے اور ساتھ ساتھ فرق طریقہ واردات کا بھی ہے انگریزی ڈریکولا گورا چٹا اور سوٹ بوٹ میں ملبو س ہوتا تھا اور سو ٹ کے اوپر لال رنگ کا ایپرن پہنے ہوتا تھا اور فرفر انگریزی بو لتا تھا جب کہ ہمارے دیسی ڈریکو لا کا لے پیلے اور شلوار قمیض میں ملبو س ہوتے ہیں اور اس کے اوپر واسکٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور انگریزی تو بہت دور کی بات ہے ٹھیک سے اردو بھی نہیں بول سکتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ انگریزی ڈریکو لا صرف رات میں انسانوں کا خو ن پیتا تھا جب کہ ہمارے دیسی ڈریکولا نہ دن دیکھتے ہیں اور نہ ہی رات ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں انگریز ڈریکولا کا پسند ید ہ شکار ہمیشہ خوبصورت دوشیزہ ہوتی تھی جب کہ ہمارے دیسی ڈریکولا تو 80 سال کے بوڑھوں کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔

دراصل ہمارے یہ دیسی ڈریکولا اصل میں شاگرد انگریزی ڈریکولا کے ہی ہیں ہوا یہ تھا کہ انگریزی ڈریکولا ایک تو یہ کہ بوڑھا ہوتا چلا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کی طبعیت بھی خراب رہنے لگی تھی اور اسے یہ فکر لاحق ہو گئی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا تو نام و نشان تک مٹ جائے گا اور دنیا بھر میں کوئی نام لیوا تک نہ ہو گا تو پھر اس کے ذہن میں اپنے شا گرد بنانے کا خیال جاگے گا۔ یہاں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ شاگرد اپنے ہم وطن، ہم زبان اور ہم نسل ہونے چاہئیں یا غیر ملکی جو اس کا کام و نام زیادہ روشن رکھیں۔ اس کے خاص خدمت گار نے اسے یہ مشورہ دیا کہ آپ کا نام غیر ملکی زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ روشن رکھیں گے اس لیے آپ غیر ملکیوں کا انتخاب کریں۔

لہٰذا باہمی صلاح و مشورے اور تمام اونچ نیچ پر بحث و مباحثے کے بعد برصغیر کے لوگوں پر اتفا ق ہوا۔ اس لیے کہ ایک تو برصغیر کے لوگ ہونہار شاگرد ثابت ہوتے ہیں اور دوسرے نقل کرنے میں ماہر بھی رہے ہیں۔ اس کے بعد برصغیر میں سے لوگوں کے انتخاب کا مسئلہ پیدا ہوا لیکن ڈریکولا کی خو ش قسمتی سے یہ بھی مسئلہ خو ش اسلوبی سے حل ہو گیا اور انتہائی دہشت ناک اور وحشت ناک کامیاب ٹریننگ کے بعد دیسی ڈریکولائوں کا جتھہ واپس ہندوستان میں خاموشی کے ساتھ داخل ہو گیا اور چپکے چپکے اکا دکا واردات کرنے میں مصروف ہو گیا اور پھر پاکستان بننے کے بعد انتہائی خاموشی سے زمینی راستوں، بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوگیا۔

ان میں سے کچھ سیاست دان بن گئے کچھ سر مایہ دار، کچھ جاگیر دار، کچھ بزنس مین بن گئے اور کچھ بیورو کریسی میں داخل ہو گئے اور باقی سب کے سب مختلف سر کاری محکموں میں ملازم بن کے ان میں روپو ش ہو گئے اور سب نے اپنے اصلی کام کا آغاز کر دیا یہاں تک کہ عوام کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ یہ سب انسانوں کے بھیس میں ڈریکولا ہیں اور وہ چپ چاپ ہنسی خو شی اپنا خون انھیں دیتے رہے اور یہ آج تک اسی طرح سے جاری و ساری ہے۔ ان کا استاد تو صرف خون پینے کا شوقین تھا جب کہ یہ دیسی شاگرد خون پینے کے شوقین تو  ہیں لیکن یہ سب کے سب کمیشن، رشوت، پلاٹوں، زمینوں، قبضوں کے تو حد سے زیادہ شو قین پائے گئے ہیں اور وزارت اور مشیری پر تو ان کی رال بہنا بند ہی نہیں ہوتی ہے۔

بقول ان کے خون پینا تو بس عادت کی وجہ سے جاری ہے لیکن اصل مزا نئے نوٹو ں کی خوشبو میں پلاٹوں اور زمینوں کی فائلوں میں قبضوں میں اور کمیشن اور رشوت لینے میں آتا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے استاد محترم تو زندگی بھر اصل مزے سے ناآشنا ہی رہے اور انھوں نے ساری زندگی یوں ہی بیکار اور بے مزہ کاموں میں گنوا دی۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے عوام بھی انھیں خون پلانے کے عادی مجرم بن گئے ہیں وہ خون نہ پلائیں تو وہ بھی مر جائیں گے۔ ان کے سامنے اب انسانیت سے لبریز، دیانت دار، ایماندار، شریف، با کردار انسانوں کی کوئی بھی حیثیت اور اہمیت باقی نہیں رہی ہے اور نہ ہی وہ ان ڈریکولا ئوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں لہٰذا کوئی سمجھانے والا کرے تو کرے کیا اس لیے باقی رہے نام ڈریکولا کا۔ عوام مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔