فوجی آپریشن کے ساتھ سیاسی میدان ہموار کرنا بھی ضروری

شاہد حمید  بدھ 18 جون 2014
سیاسی میدان ہموار کرنے کا کام مرکزی حکومت نے کرنا ہے جسے اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حمایت تو حاصل ہے تاہم مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا باقی ہے۔   فوٹو : فائل

سیاسی میدان ہموار کرنے کا کام مرکزی حکومت نے کرنا ہے جسے اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حمایت تو حاصل ہے تاہم مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا باقی ہے۔ فوٹو : فائل

پشاور: حکومت کی ہدایت پر شمالی وزیرستان میں بھرپور آپریشن شروع کر ہی دیا گیا ہے ۔

مذکورہ آپریشن غیر متوقع نہیں کیونکہ جب سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ رکا تب ہی سے ایسا لگ رہا تھا کہ اب آپریشن ہوگا کیونکہ جس طرح سوات میں اس وقت کی صوبائی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی تاہم معاملات کسی اور رخ کو چل پڑے تھے جس کے بعد فوجی آپریشن ناگزیر ہوگیا تھا، کچھ اسی طرح اب وزیرستان کی بھی صورت حال تھی کہ مذاکرات اور کاروائیوں کا سلسلہ ساتھ، ساتھ چل رہا تھا جو ناممکن تھا، کیونکہ یا تو مذاکرات ہوسکتے ہیں کہ جن کے ذریعے معاملات کو سنبھالتے ہوئے امن کا قیام ممکن بنایا جاسکتا ہے یا پھر قیام امن کیلئے ساتھ نہ دینے والوں کے خلاف حکومت کی ہدایت پر سکیورٹی فورسز کاروائیاں کرتی ہیں، ایسا ہی کچھ وزیرستان کے حوالے سے بھی ہوا۔

سوات اور وزیرستان میں بہرکیف فرق موجود ہے کیونکہ سوات قبائلی علاقہ بھی نہیں اور پھر یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ سوات میں جب طالبانائزیشن عروج پر تھی اس وقت بھی وہاں کی ڈوریں وزیرستان ہی سے ہلائی جاتی تھیں تاہم اب معاملہ عسکریت پسندوں کے ہیڈ کوارٹر کا ہے کہ جہاں اب تک ہونے والی عسکریت پسندی کو نہ صرف کنٹرول کیا جاتا رہا ہے بلکہ یہ عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ بھی رہا ہے جہاں یقینی طور پر غیر ملکیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہوگی اس لیے سکیورٹی فورسز نے ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اپنی حکمت عملی ترتیب دی ہوگی۔ تاہم اس جنگ کے حوالے سے صرف آپریشن کافی نہیں بلکہ اس کے لیے سیاسی میدان بھی ہموار کرنا ضرور ی ہے او ر یہ کام مرکزی حکومت نے کرنا ہے جسے اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حمایت تو حاصل ہو چکی ہے تاہم مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا باقی ہے جو اس اعتبار سے ضروری ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو لیفٹ اور رائٹ کی تقسیم پیدا ہوجائے گی جو اس سے قبل بھی موجود رہی ہے۔

اس لیے وزیراعظم کو اس صورت حال میں مذہبی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ خود رابطے شروع کرنے چاہئیں کیونکہ ان رابطوں کے نتیجے میں مرکزی حکومت کو یہ سہولت ہوگی کہ اسے سیاسی میدان میں زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہو جائے گی۔ بصورت دیگر مذکورہ آپریشن کے خلاف اگر ایک جانب عسکریت پسند ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں تو دوسری جانب ان مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی ردعمل آسکتا ہے جو ان حالات میں کسی بھی طوراس اعتبار سے مناسب نہیں رہے گا کہ اب جبکہ آپریشن شروع ہو گیا ہے تو سکیورٹی فورسز کو اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور مکاتب فکر ان کی پشت پر کھڑے ہوں تاکہ مذکورہ آپریشن کو کامیابی سے ہم کنار کیا جاسکے اور عسکریت پسندی کا خاتمہ ممکن ہو۔

خیبرپختونخوا حکومت نے اپنا دوسرا بجٹ پیش کردیا ہے، اس سے قبل پیش ہونے والا بجٹ اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا بجٹ تھا۔ صوبائی حکومت کو اس بجٹ کی تیاری کے حوالے سے چند دن ہی مل پائے تھے اور باقی بجٹ سارا تیار تھا تاہم اب آئندہ مالی سال کے لیے جو بجٹ پیش کیا گیا ہے وہ موجودہ صوبائی حکومت کا اپنا بجٹ ہے جو اگرچہ خسارہ کا بجٹ ہے تاہم صوبائی حکومت نے اندازوں، امکانات اور مفروضوں کی بنیا د پر اسے متوازن بجٹ بناتے ہوئے پیش کیا جس میں سب سے بڑا مسئلہ صوبہ کو مرکز کی جانب سے پیش آسکتا ہے کیونکہ آئندہ سال کے بجٹ میں بجلی منافع کے بقایاجات کی مد میں ایک مرتبہ پھر مرکز سے 32 ارب کی وصولی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ سالانہ منافع کی مد میں بھی 6 کی بجائے 12 ارب کی آمدنی ظاہر کی گئی ہے جو اگر صوبہ کو نہ مل پائے تو صوبہ چالیس ارب سے زائد کے خسارہ کا شکار ہو جائے گا کیونکہ دوسری جانب صوبہ کو بارہ ارب کا کھلا خسارہ ویسے ہی درپیش ہے جسے آپریشنل خسارہ کی نئی اصلاح کی چھتری تلے چھپانے کی کوشش کی گئی ہے جس کے ساتھ اگر جاری مالی سال کے 14 ارب کے خسارہ کو بھی شامل کیا جائے تو یہ بات کافی بڑھ جائے گی۔

صوبہ کا خزانہ سنبھالے سینئر وزیر سراج الحق کا تو یہ کہنا ہے کہ جولائی کے مہینہ میں مرکز اور صوبہ کے درمیان اجلاس ہونے والا ہے جس میں صوبہ کو بجلی منافع کی مد میں رقم کی فراہمی کا مسلہ حل ہو جائے گا ،تاہم اس حوالے سے ایک تو شمالی وزیرستان میں آپریشن کے شروع ہونے سے یقینی طور پر صورت حال تبدیل ہوگی اور دوسری جانب ایسے حالات میں جبکہ تحریک انصاف مرکزی حکومت کیخلاف سڑکوں پر موجود ہو اور جماعت اسلامی اس کی اتحادی جماعت ہو۔

کیا مرکز صوبہ کے سینئر وزیر سراج الحق کے ساتھ ان کی خواہشات کے مطابق بیٹھنے کیلئے تیار ہوگا جبکہ یہی سراج الحق صرف صوبہ کے سینئر وزیر ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر بھی ہیں گویا ان کے پالیسی ساز، ان حالات میں ایک جانب اگر تحریک انصاف کو معاملات میں بہتری لانے کیلئے اپنا ہاتھ تھوڑا ہولا کرنا پڑیگا تو دوسری جانب سراج الحق کو بھی خود خزانہ کی وزارت سے پیچھے ہوتے ہوئے یہ ذمہ داری اپنی پارٹی کے کسی دوسرے ساتھی کو سونپ دینی چاہیے تاکہ جماعت اسلامی کی پالیسی اور صوبہ کی خزانہ کی وزارت آپس میں گڈ مڈ نہ ہوں بلکہ دونوں اپنی جگہ الگ، الگ طور پر واضح رہیں تاکہ ان کے حوالے سے معاملات کو بہتر طریقہ سے ڈیل کیا جاسکے۔

صوبائی حکومت کے بڑے ’’بہتر سیاست‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کا نتیجہ نہ صرف ان کیلئے بلکہ پورے صوبہ کیلئے نہایت ہی اچھا رہے گا اور صوبہ کو نہ صرف یہ کہ مرکز کی جانب سے پیسہ ملے گا بلکہ پنجاب سے سرمایہ کاری کو بھی خیبرپختونخوا منتقل کیا جاسکتا ہے، تاہم اس کیلئے ضروری ہوگا کہ صوبہ اپنے حصہ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے سلسلے کو روکے کیونکہ ان حالات میں سرمایہ کاری صوبہ میں کیسے ہو پائے گی؟

پیپلزپارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن کا جو خواب جیالوں کو دکھایا گیا تھا اسے تعبیر شاید ہی مل سکے اور یہ خواب ،خواب ہی رہے گا کیونکہ پارٹی کی صوبائی کابینہ کے عہدوں پر نامزدگیاں کردی گئی ہیں جبکہ اند رکی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اضلاع کی سطح تک بھی انٹرا پارٹی الیکشن نہیں ہو رہے اور ویسے بھی اگر اضلاع کی سطح تک انٹرا پارٹی الیکشن ہو بھی جائیں تو کیا ان کا اس صورت میں کوئی فائدہ ہوگا جبکہ صوبہ کی سطح پر پہلے ہی سے نامزدگیاں کردی گئی ہوں ؟اور یہ نامزدگیاں بھی ان ہی کی کی گئی ہیں جو گزشتہ سال کے عام انتخابات کے موقع پر پارٹی عہدوں پر موجود تھے جبکہ پارٹی کے سینئر ورکر جو ہم خیال گروپ کے نام سے موجود ہیں انھیں دودھ میں سے بال کی طرح اٹھاکر باہر کردیا گیا ہے جسے پی پی پی کے صوبائی صدر خانزادہ خان کی غلطی ہی کہا جاسکتا ہے حالانکہ وہ اس موقع پر دونوں جانب سے ساتھیوں کو شامل کرتے ہوئے متفقہ کابینہ بھی تشکیل دے سکتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔