پولیس ایکشن اور دل کی بے چینی

نصرت جاوید  جمعرات 19 جون 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

یہ واقعہ مجھے چوہدری شجاعت حسین صاحب نے تین بڑے ہی محترم صحافیوں کی موجودگی میں سنایا تھا۔ مگر اس واقعے سے پہلے بطور پس منظر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ 2005ء کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویزمشرف کے درمیان کوئی Working Understandingپیدا کروانے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ وہ ان دونوں کے درمیان سیاسی تعاون بنیادی طورپر اس لیے قائم کروانا چاہ رہے تھے کہ بقول ان کے جنرل مشرف نام نہاد ’’وارآن ٹیرر‘‘ میں ان کا بھرپور ساتھ نہیں دے پا رہے تھے۔

اس ضمن میں ان کا خیال یہ بھی تھا کہ اگر پیپلز پارٹی جیسی ’’لبرل‘‘ سمجھی جانے والی ایک مقبول جماعت ان کی سیاسی معاون بن جائے تو رائے عامہ کو اس جنگ کی حمایت میں ہموار کرنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) ان قوتوں کے خیال میں دائیں بازو والوں کی ایک قدامت پرست جماعت تھی جو ’’مولوی حضرات‘‘ کی ’’بے جا پذیرائی‘‘ میں مصروف رہا کرتی تھی۔

بہرحال امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بنائے منصوبے پر عملدرآمد کروانے کا کردار برطانیہ کے ایک انتہائی تجربہ کار سفارت کار مارک لائل گرانٹ کو سونپا گیا۔ موصوف اس برطانوی سامراجی افسر کے پوتے بھی تھے جس نے لائل پور نام کا شہر آباد کیا تھا۔ پاکستان مارک کے لیے اس لیے بھی کوئی انوکھا ملک نہ تھا کہ اس نے یہاں مختلف حیثیتوں میں برطانوی سفارت خانے کے لیے کام کیا تھا۔ اپنے کیریئر کی انتہا پر وہ پاکستان میں کئی برس تک اپنے ملک کا ہائی کمشنر بھی رہا۔

میری مارک سے ذاتی شناسائی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ 1980ء کے وسط میں برطانوی سفارت خانے سے وابستہ تھا۔ 1990ء کی دہائی میں وہ جب ہائی کمشنر تعینات ہوا تو ہمارے مراسم کافی دیرینہ اور بے تکلفانہ ہوچکے تھے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے ایماء پر جب اس نے خاموشی سے اسلام آباد متعدد بار آنا شروع کردیا تو ایک امریکی سفارت کار کی مہربانی سے اس کے دوروں کا اصل مقصد بھی معلوم ہوگیا۔

ایک اہم پاکستانی سیاست دان کے ہاں رات کے کھانے پر جب میری مارک سے ’’اچانک‘‘ ملاقات ہوگئی تو اسے ایک کونے میں لے جاکر میں نے اسے رپورٹروں والی روایتی خود اعتمادی کے ساتھ بتادیا کہ مجھے خوب خبر ہے کہ اسے کیا مشن سونپا گیا ہے۔ مارک انتہائی جہاندیدہ تجربہ کار ہوتے ہوئے بھی ہکا بکا رہ گیا اور مجھے گمراہ کرنے کا کوئی طریقہ ہی نہ سوچ سکا۔ بجائے بات چھپانے کے اس نے بلکہ مجھے سمجھانا شروع کردیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویزمشرف میں کسی نہ کسی نوعیت کیWorking Understanding’’پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے لیے کیوں ضروری ہے۔

مارک سے اپنی اس ملاقات کے بعد میں آصف علی زرداری کی جیل سے رہائی کا انتظار کرنا شروع ہوگیا۔ ایک دن وہ احتساب عدالت میں پیش ہونے آئے تو چند صحافی دوستوں کے ہمراہ راولپنڈی چلا گیا اور ان کے سامنے بڑھک لگا دی کہ میں انھیں ان کی جلد ہی متوقع رہائی کے بعد اپنے ہاں کھانے کی دعوت دینے آیا ہوں۔ آصف علی زرداری نے میری بات مذاق میں ٹال دی۔ مگر رخصت ہوتے وقت گلے لگاتے ہوئے سرگوشی میں پوچھ ہی لیا کہ میرے خیال میں ان کی رہائی کب تک ممکن ہوگی۔

بالآخر وہ رہا ہوگئے۔ رہا ہونے کے بعد چند دنوں کے لیے دبئی گئے اور وہاں کچھ روز گزارنے کے بعد سندھ کے ایک طویل دورے پر وطن تشریف لائے۔ ان کا اس سارے دورے کے دوران سندھ کے مختلف شہروں میں بھرپور استقبال ہوا۔ اپنے اس ’’کامیاب دورے‘‘ کے بعد وہ ایک بار پھر دبئی چلے گئے اور وہاں جاکر لاہورآنے کے منصوبے بنانا شروع ہوگئے۔ بالآخر انھوں نے اس شہر میں ایک گھر بھی کرائے پر لے لیا۔ پھر وہ تاریخ بھی طے ہوگئی جس روز انھیں لاہور آنا تھا۔

آصف علی زرداری کی بڑی خواہش تھی کہ میں بھی بہت سارے دیگر صحافیوں کی طرح ان کے ساتھ دبئی سے طیارے میں بیٹھ کر لاہور اُتروں۔ میں نے معذرت کرلی۔ کسی سیاست دان کے فراہم کردہ ٹکٹ پر اس کے ساتھ ہوائی سفر کرنا، خواہ وہ پیشہ ورانہ حوالوں سے کتنا اہم ہی کیوں نہ ہو، مجھے گوارہ نہیں۔ ہاں اگر میرا دفتر مجھے اس کام کے لیے کہتا اور سفری اخراجات مہیا کرتا تو بہت شوق سے یہ فریضہ سرانجام دے ڈالتا۔

آصف علی زرداری اور ان کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے چند رہ نمائوں اور بہت سارے صحافیوں سمیت جب ایک طیارہ بالآخرلاہور ایئرپورٹ اترا تو وہاں کی پولیس نے زرداری صاحب کو طیارے سے ہی گرفتار کرکے کسی ’’نامعلوم‘‘ جگہ لے جاکر نظر بند کردیا۔ ان کے ساتھ آنے والوں کے ساتھ بڑا درشت رویہ اختیار کیا گیا۔ چند صحافیوں کی پولیس سے بڑی مارا ماری اور ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ میں آصف علی زرداری کی آمد کو Coverکرنے کے لیے اس دن لاہور میں موجود تھا۔ وہاں جس ہوٹل میں میرا قیام تھا اس کے سامنے سارا دن پولیس اور پیپلز پارٹی کے مظاہرین کے درمیان وقفے وقفے سے شدید مقابلے ہوتے رہے۔ مظاہرین جوشیلی نعرہ بازی کے بعد پولیس پر پتھرائو کرنا شروع ہوجاتے۔ جواباً پولیس کافی شدید لاٹھی چارج کے ذریعے انھیں منتشر کردیتی۔ کافی گرفتاریوں کے بعد بالآخر سارے ہنگامے پر قابو پا لیا گیا۔

اس واقعے کے صرف تین دن بعد راولپنڈی کے پرانے سیاسی کارکن سید کبیر علی واسطی کے ہاں کھانے کی ایک دعوت تھی۔ وہاں موجود میرے سینئر صحافیوں نے مجھے اُکسایا کہ جب چوہدری شجاعت صاحب وہاں آئیں تو میں ان سے پوچھوں کہ ’’چوہدری پرویز الٰہی کی پولیس‘‘ نے آصف زرداری کی لاہورآمد کے موقعہ پر ایسا سخت رویہ کیوں اختیار کیا تھا۔

چوہدری صاحب کو خدا خوش رکھے۔ میرے کیے ہر سوال کا جواب ہمیشہ تفصیلی سچ بیان کرتے ہوئے دیتے ہیں۔ میں نے جب انھیں بہت تنگ کیا تو انھوں نے اعتراف کر ڈالا کہ آصف علی زرداری کی لاہور آمد سے دو روز پہلے وہ اور چوہدری پرویز الٰہی جنرل مشرف سے ملے تھے۔ اس ملاقات کے دوران پرویز الٰہی صاحب نے جنرل مشرف کو بتایا کہ آصف زرداری کے ’’کامیاب دورۂ سندھ‘‘ کے بعد وہاں کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب رحیم کے احکامات کو صوبائی حکومت کے چھوٹی سطح کے افسران بھی خاطر میں نہیں لارہے۔ آصف علی زرداری لاہور میں ’’ایسی ہی کامیابی‘‘ سے اترے چوہدری پرویز الٰہی بھی اپنے افسران کے سامنے ارباب رحیم کی طرح بے بس ہوجائیں گے۔ بڑی ردوقدح کے بعد جنرل مشرف نے پرویز الٰہی کو اجازت دے دی کہ وہ آصف علی زرداری کی لاہور آمد کے موقعہ پر جو چاہے رویہ اختیار کریں۔

یہ طولانی قصہ میں آپ کو لاہورمیں منگل کو ہونے والے واقعات کے بعد سنانے پر مجبور ہوا ہوں۔ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ مسلم لیگ نون والے کینیڈا سے شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری کی 23جون کو اسلام آباد آمد کے اعلان پر ناخوش ہیں۔ قومی اسمبلی میں اس حوالے سے محمود خان اچکزئی نے جو تقریر کی تھی وہ بھی اس کالم میں آپ کو بیان کردی تھی۔ مگر اصل معاملہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ میں بڑی بے چینی سے جاننا چاہ رہا ہوں کہ پیر کی شب شہباز شریف صاحب کی راولپنڈی میں کن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان میں کیا طے ہوا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔