بالآخر

مقتدا منصور  جمعرات 19 جون 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بالآخر حکومت  نے فوج کو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا حکم دے دیا ۔ جس نے ضربِ عضب کے عنوان سے گزشتہ اتوار سے آپریشن کا آغاز کردیاہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آپریشن کے ذریعے حکومت کیا اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے؟اگر اس کا ہدف صرف قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ قائم کرنا ہے، تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، چند روز نہ سہی چند ہفتوں میں یہ قائم ہوجائے گی۔

لیکن اگر حکومت دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے،تو اسے ثابت قدمی کے ساتھ طویل عرصہ تک کارروائی کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا ۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ کسی وقتی مصلحت کے تحت آپریشن کی سمت یااس کے اہداف میں تبدیلی کی کوشش کے نتیجے میںاس کی کامیابی مشکوک ہوسکتی ہے ۔اس لیے آپریشن کی صورتحال پر گفتگو کرنے سے قبل دہشت گردی کے مظہر کے مختلف پہلوئوںاور حکومتی کوششوں کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔

جدید مسلم بنیاد پرستی یا شدت پسندی ایک عالمی مظہرہے، جس کے مختلف پہلو،کئی اسباب اور تاریخی پس منظرہیں۔جنھیں سمجھے بغیراس رویے اور رجحان پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔اصل معاملہ یہ ہے کہ مسلم دینا جس خطے پر آباد ہے، وہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔اس لیے بری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا مرکز ہے۔ مگرمسلمان بحیثیت ایک ملت ماضی کے مزاروں کے مجاور بنے جدید دنیا سے قدم ملاکر چلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔کیونکہ ان میںایسی خامیاں، کمزوریاں اور خرابیاں سرائیت کرچکی ہیں ، جو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔ اس لیے انھوں نے ترقی یافتہ دنیا کا فکری اور علمی بنیادوں پر مقابلہ کرنے اور انھیں ان ہی کے میدان میں شکست دینے کے بجائے وہ راستہ اختیار  کیا، جو خود ان کے لیے نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن گیا ہے ۔

اس سلسلے میں مولانا رومیؒ یونیورسٹی استنبول(ترکی) کے پروفیسر حاکن گوش  نے مسلمانوں میں چھ ایسی کمزوریوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی ہے جو ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔اول،مطلق العنانی (Despotism): مسلمانوں میں طبقہ اعلیٰ سے طبقہ زرین تک مطلق العنانی کا مخصوص مزاج پایا جاتا ہے ۔ یعنی یہ اپنے آپ کوصحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہیں ۔اس لیے اختلاف رائے کو برداشت کرنا ان کی سرشت میں نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم معاشروں میںاختلاف رائے اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی روایت قائم نہیں ہوسکی ہے جو فکری کثرتیت کی اولین شرط اور جمہوریت کی بنیاد ہے۔

یوں یہ معاشرے نظمِ حکمرانی میں جمہوریت کے بجائے مطلق العنانیت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ دوئم ، ناامیدی (Despair): مسلمان دسویں صدی سے بالعموم اور1258 میں تاتاریوں کے بغداد پر حملے اور اس کی تباہی کے بعد سے بالخصوص شدید نوعیت کے فکری جمودکا شکار ہو چکے ہیں۔اس لیے ان میں مسابقت کی صلاحیت اور خواہش ختم ہوچکی ہے اور وہ مایوسیوں میں گھرچکے ہیں۔جس کی وجہ سے ان میں جھنجھلاہٹ، غصہ اور تلخ نوائی پیداہوگئی ہے ۔وہ خود احتسابی کے بجائے پوری دنیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں ۔

سوئم، بددیانتی(Dishonesty): اس سے مراد صرف مالیاتی امور میں عدم شفافیت نہیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں بددیانتی اور بدنیتی ہے ۔ یعنی اپنے اختیارات کا غلط استعمال یعنی (Power Abuse)۔یہ روش بااثر حکمران اشرافیہ سے عوام تک سرائیت کرگئی ہے۔اپنے مفادات کے حصول کی خاطر’’ اللہ معاف کرے گا‘‘ کہہ کر جھوٹ اور بددیانتی سمیت ہر برے عمل کو کر گزرتے ہیں جس کی وجہ سے پورا سماجی ڈھانچہ مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا شکار ہوچکا ہے۔

چہارم، نفرت کا بڑھتا ہوا رجحان (Love to hate):جب لوگ خود کچھ نہیں کرپاتے تو ان میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے ۔ یہ احساس کمتری حسد اور کینہ کو جنم دیتا ہے ۔ مسلمان حکمران اور دانشور اپنی ناکامیوں اور نامرادیوں کا جائزہ لینے اور اصلاح احوال کے لیے مناسب کوششیں کرنے کے بجائے،ان کی ذمے داری مغربی دنیا اور دیگرمذاہب کے ماننے والوں پر عائد کردیتے ہیں ، جس کی وجہ سے نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات میں پیدا شدہ خلیج مزیدگہری ہو رہی ہے ۔

پنجم ، منفی سوچ(Negative Approach):مثبت سوچ  کے حامل افراد دوسرے لوگوں کے ساتھ قدرِ مشترک تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، تاکہ تعلقات میں بہتری آسکے ۔ جب کہ بیمار ذہنیت کے لوگ دوسروں کی ہر بات اور عمل میں منفی پہلو تلاش کرتے ہیں، جس سے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں میں ہر بات کا منفی پہلو تلاش کرنے کا رجحان پروان چڑھ گیا ہے ۔ صرف غیر مسلموںکے بارے ہی میںنہیں بلکہ اپنے ہم مذہب افراد کے بارے میں بھی ان کی رائے منفی اور متشدد ہوچکی ہے ۔ جس کے نتیجے میں خود مسلم معاشروںکے اپنے اندر تنائو اور ٹکرائو کی فضا میں اضافہ ہورہا ہے۔

ششم ،بے جا پابندیاں (Restrictions): مسلم معاشرے چونکہ کئی صدیوں سے فکری جمود کا شکار ہیں اس لیے خود سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں ۔عالمی سطح پر ہونے والی سائنسی ایجادات سے خوفزدہ ہوکر پہلے ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتے ہیں ۔ بعد میں انھی ایجادات کا بے جا استعمال شروع کر دیتے ہیں ۔ چھاپہ خانہ اور لائوڈ اسپیکر اس کی واضح مثال ہیں ۔ جس سے ان معاشروں میں سیکھنے اور سمجھنے کا ماحول پیدا نہیں ہو پا رہا اور علم سے دوری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

اب اس تناظر میں قبائلی علاقوں میں جنم لینے والی شدت پسندی کا جائزہ لیں تو اس کے پروان چڑھنے میں حکومت پاکستان کی غلط اور عاقبت نااندیشی پر مبنی پالیسیوں کا بہت بڑا کردار ہے ۔اول، قیام پاکستان کے بعد ان علاقوں کو صوبہ پختونخواہ میں ضم کردینا چاہیے تھا ، جنھیں انگریز نے اپنے مخصوص مفاد  میں ایک الگ انتظامی ڈھانچے کے تحت رکھا تھا، مگر66 برس گذرنے کے باوجود اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ۔دوئم، 1980 کے عشرے میں جب امریکا  کے ایماء پر اس وقت کے آمر ضیاء نے کمیونزم کے خلاف جنگ کو جہاد کا نام دے کر اس میں شرکت کا فیصلہ کیا تو دنیا بھر سے لائے گئے جنگجو جتھوںکو اس علاقے میں جمع کردیا  جس کے باعث اس خطے کا سماجی Fabric تباہ ہوگیا اورمذہبی  تشریحات کے ایک نئے مظہر (Phenomenon) نے جنم لیا، جو تنگ نظری اور تشدد پر مبنی تھا۔

مگر کسی بھی حکومت نے اس روش و رجحان کے پورے ملک پر پڑنے والے اثرات پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ نتیجتاً یہ رجحان سرطان کی طرح پورے ملک کے رگ و پے میں پھیل گیا ۔ سوئم،افغان مہاجرین کو کسی مخصوص علاقے تک محدود رکھنے کے بجائے، انھیں ملک کے طول وعرض میںدندناتے پھرنے کی کھلی چھٹی دیدی گئی ۔ جس کے نتیجے میں کراچی سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں میں افغان باشندوں نے اپنی جائیدادیں بنا لیں ۔ کرپٹ انتظامیہ نے چند سکوں کے عوض انھیں پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی فراہم کردیا ۔یہی کچھ معاملہ ازبک ،تاجک اور چیچن باشندوں کے ساتھ رہا ۔

چہارم، جنرل ضیاء کے دور میں مختلف ممالک سے آنے والے جنگجوئوں کو بسانے کی خاطر قبائلی علاقوں میں ایک صدی سے قائم پولیٹیکل ایجنٹ اور قبائلی ملکوں کے نظام کو شکست و ریخت کا شکارکردیا گیا جب کہ کوئی متبادل نظام بھی متعارف نہیں کرایا گیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ علاقہ سیاسی وانتظامی افراتفری کا شکار ہوگیا اور اس پورے علاقے میں حکومت پاکستان کی رٹ تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ۔

وہ جنگجو عناصر جن کی پاکستانی منصوبہ سازوں نے افغانستان میں تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کے لیے پرورش کی تھی، خود ان کے لیے عذاب بنتے چلے گئے مگر پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتیں اور منصوبہ سازاس امید پر ان کی چیرہ دستیوں کو برداشت کرتے رہے کہ ایک روز یہ عناصر افغانستان پر قابض ہوکرشمال مغربی سرحد کو پاکستان کے لیے محفوظ بنانے کا ذریعہ بنیں گے ۔ مگر  یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ وہی عناصر ہمیں ہی ڈسنے لگے۔

ان عناصر نے صرف عوامی مقامات، عبادت گاہوں ہی کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان کے حوصلہ اتنے بلند ہوگئے کہ قومی اور عسکری اہمیت کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ۔اس صورتحال نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے۔ مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ آیا حکومت ان عناصرکی عسکری قوت واقعی ختم کرنے میں سنجیدہ ہے یا انھیں محض وقتی دبائو میں لانا چاہتی ہے ؟اگر حکومت کی پالیسی وقتی طور پر ان کی قوت کو کم کرنا ہے ، تو پھر ملک میں پائیدار امن کی توقع عبث ہے ۔لیکن اگر حکومت سنجیدگی کے ساتھ یہ سمجھتی ہے کہ اس عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں پاکستان کی عافیت ہے، تو پھر اسے ہر قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر ان عناصر کے خلاف طویل کارروائی کرنا ہوگی ۔

اس کے علاوہ پاکستان میں جاری پراکسی جنگ کے خاتمہ کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے ۔اسے دوست ممالک کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان ان کی دوستی اور خلوص کا ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہوکر احترام کرتا ہے ، مگر اپنی سرزمین کوکسی بھی قسم کی پراکسی جنگ کا میدان جنگ بنانے پر آمادہ نہیں ہے۔ اگر ہماری حکومت اور منصوبہ سازوں نے اس جرأت وہمت کا مظاہرہ کردیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دہشت گردی کے عفریت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان نہ چھڑا سکیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔