دین اسلام میں یتیموں کے حقوق اور ان کی کفالت کا حکم

فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اْن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے،اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اس میں معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کے لیے ایسے اسباب و ذرائع مہیا کر دیے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے دن گزار سکے ۔ یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں ، ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑ لینا ان کے حقوق کی پامالی ہے ۔ ’’یتیم‘‘ اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اْٹھ گیا ہو اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ترجمہ: اور یتیموں کو اْن کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو، اور اْن(یتیموں) کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ! بے شک یہ بڑا گناہ ہے‘‘(سورۃ النساء :02) یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تیئیس مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اْن کے اموال کی حفاظت اور اْن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اْن پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنیوالے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ (سورۃ الدھر) افسوس کہ لوگ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔

ارشاد ربانی ہے: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں داخل کیے جائیں گے اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کر دو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو ( اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے (سورۃ النساء) اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے’ اور یہ آپ سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اور اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔

اللہ تعالیٰ بدنیت اورنیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، یقیناً اللہ غالب اورحکمت والا ہے (سورۃالبقرہ 220) جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے، اَحادیث میں یتیم کی پرورش اور اس سے حسن سلوک کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، امامْ الانبیاءﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی ، اللہ تعالیٰ اْسے جنت میں داخل فرمائے گا۔

(جامع ترمذی) رسول اکرم ﷺ نے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی بشارت سے نوازا ہے کہ وہ جنت میں آپﷺ کے ساتھ ہو گا۔ حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا ’ میں اور یتیم کی کفالت کرنیوالا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی انگشت شہادت اور درمیان والی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کر کے اشارہ کیا (صحیح بخاری) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور اکرم ﷺ سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ ’’یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو‘‘ (مسند احمد: 7577) حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے تو تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور اسے کھلایا کرو‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی:7095) حضرت بشیر بن عقربہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ اْحد کے دن میری حضور اکرم ﷺ سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا میرے والد کا کیا ہوا؟‘‘ حضورﷺ نے فرمایا ’’وہ تو شہید ہوگئے، اللہ تعالیٰ اْن پر رحم فرمائے۔‘‘

میں یہ سن کر رونے لگ پڑا۔ حضور نے مجھے پکڑ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کر لیا اور فرمایا کہ ’’کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہ تمہاری ماں‘‘ (شعب الایمان للبیہقی: 10533) حضرت اْم سعید بنت مرہ الفہری رضی اللہ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے۔

اس کے بعد آپ نے درمیان والی انگلی اور شہادت والی اْنگلی سے اشارہ فرمایا‘‘ (مسند الحمیدی:861) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اْس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور سب سے برْا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اْس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو ، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اِس طرح ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا‘‘ ( الزہد والرقائق لابن المبارک:654)آج ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے بے پناہ حقوق متعین کئے ہیں، اور آج کل یتیموں کے ساتھ ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار گرم ہے۔

دنیا کو حاصل کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتیٰ کہ وہ خونی رشتوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا سب گھروں میں باعزت وہ گھر ہے جس میں یتیم کی عزت ہو (ترمذی 456جلد 2) عید کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یتیم بچے کو پریشان حال دیکھا تو اسے اپنے گھر لے آئے اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ میں محمد ﷺ باپ بن جاؤں اور حضرت عائشہ ﷺ تیری ماں بن جائے ۔

یتیموں کے مال کی حفاظت کے بارے میں اللہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔ ’’ اور یتیموں کی پرورش کرتے رہو، حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائیں۔ پس اگر تم ان میں عقل مندی دیکھو، تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو اور اسے فضول خرچی کے ذریعے نہ کھاؤ اور نہ ہی جلدبازی میں اْڑا لے جاؤ کہ وہ بڑے ہوکر اپنا مال تم سے واپس لے لیں گے اور جو غنی ہو ، وہ اس سے بچے، اور جو ضرورت مند ہو، اسے چاہیے مناسب طریقے سے ان کے مال کو مصرف میں لائے ۔ پھر جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو، تو اس پر گواہ بنالو اور اللہ حساب لینے والا کافی ہے‘‘ (سورۃ النساء) سورۃ النساء ہی میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’یتیموں کا مال ان کو واپس دو، اچھے مال کو بْرے مال سے نہ بدلو ، اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ سورۃ انعام میں اللہ حکم دیتا ہے ’’ اور یتیموں کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے، جو احسن ہو، یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے ۔‘‘ یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کوسخت ترین عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بہترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہو اوربدترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بْرا سلوک کیا جاتا ہو۔‘‘ (ابن ماجہ) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ترجمہ: ’’نہیں، بلکہ تم لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے۔‘‘ یعنی ان کے ساتھ وہ حسن ِسلوک نہیں کرتے ، جس کے وہ مستحق ہیں۔‘‘ سورۃ الماعون میں اللہ فرماتا ہے۔ ترجمہ: ’’یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے‘‘ سورۃ الضحیٰ میں اللہ تعالیٰ تنبیہ فرماتے ہیں ’’تو تم بھی یتیم پر سختی نہ کیا کرو‘‘ بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کیا کرو۔‘‘ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔‘‘ (النساء) اسی حوالے سے سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ رب العزت حکم فرماتا ہے ’’ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، بجز اس طریقے کے، جو بہت ہی بہتر ہو ۔

یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے، اور وعدے پورے کرو، کیوں کہ قول و قرار کی بازپرس ہونے والی ہے۔‘‘ جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لیے وعید نازل ہوئی، تو صحابہ کرامﷺ اس بات پر خوف زدہ ہوکر کہ کہیں وہ بھی اس وعید کے مستحق قرار نہ دے دیئے جائیں، یتیموں کی ہر چیز الگ کر دی، حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہو جاتی ۔ اسلام نے ہر صاحب حیثیت فرد پر لازم قرار دیا ہے کہ اپنے جائز مال میں سے یتیموں کی مالی امداد کرتے رہو ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور مال سے محبت کے باوجود، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ) جب کہ سورۃ انفال میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت سے حاصل ہو ، تو اس میں سے پانچواں حصّہ اللہ کا، اس کے رسول اللہﷺ کا، قریبی رشتے داروں کا، یتیموں کا، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے۔‘‘سورۃ الحشر میں اللہ فرماتا ہے ’’جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو بستیوں والوں سے دلوایا ہے، وہ اللہ کے، اور پیغمبر کے، اور رشتے داروں کے، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، تا کہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔‘‘ اسی طرح یتیم بچے، بچیوں کے سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرورش و کفالت کے بعد ان کی بہتر اور مناسب جگہ شادی کا اہتمام کریں ، خصوصاً یتیم بچیوں کی شادی کرنا یا ان کی شادی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا بڑے اَجر و ثواب کا کام ہے۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ، جو یتیموں کے ساتھ پیار و محبت اور بہترین سلوک کر کے اس عمل کو اپنے لیے جنت کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یاد رکھیے! یتیم کی آہیں اور بد دْعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہیں ۔ روزِ قیامت ہم سب کو اللہ کے حضور ڈھائے گئے ظلم و جبر کا حساب دینا ہو گا۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے تو تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور اسے کھلایا کرو!‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی:7095) ان تمام قرآنی آیات و احادیث سے ثابت ہو گیا کہ یتیم کے حقوق کیا ہیں؟

جہاں ہم معاشرے میں دیگر امور کی طرف توجہ کرتے ہیں، اپنی روزمرہ زندگی گزارنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں وہاں معاشرے یتیم کی جانب دیکھنا بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ہماری امداد،محبت،پیار کے منتظر ہوتے ہیں،خواہ وہ اپنے رشتہ دار ہوں یا اہل محلہ یا کہیں بھی رہتے ہوں،ان کا مداوا کرنا صاحب حیثیت کی ذمہ داری ہے، بہرحال ہمیں ہر حال میں ان امور کی جانب توجہ کرتے ہو ئے یتیم کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔