طوفاں سے آشنا

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 20 جون 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ ماہ راقم نے شہری دیہی زندگی سے متعلق کالم لکھا تھا اس کی پسندیدگی کے حوالے سے بھی ردعمل موصول ہوا، جاپان جیسے ملک میں مصروف زندگی گزارنے والے ایک قاری نے بھی ہماری ہمت افزائی کی۔ آج ایک رسالے میں ہانگ کانگ سے متعلق چند اہم حقائق پڑھے جو عام قارئین کے لیے یقینا چونکا دینے والے ہیں اور میری بات کی تائید بھی کرتے ہیں۔

ان حقائق کے مطابق زمین کی قلت کے باعث ہانگ کانگ میں عجیب و غریب قسم کے مسائل نے جنم لیا ہے یہ مسائل ایسے ہیں کہ اس سے نہ صرف انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں بلکہ انسانیت بھی شرماتی ہے۔ حقائق کے مطابق 1970 کی دہائی میں ہانگ کانگ کے کثیر آبادی والے علاقے میں قبروں کی تعمیر پر پابندی اس لیے عائد کردی گئی کہ زمین کی قلت کا سامنا تھا۔ زمین کی قلت کو دور کرنے کے لیے ایک فیصلہ سرکاری سطح پر یہ بھی کیا گیا کہ پہلے سے موجود قبروں میں باقیات کو 6 سال کے بعد نکال کر تلف کردیا جائے یا جلا دیا جائے۔

ہانگ کانگ میں ہر سال 40 ہزار افراد طبعی و ناگہانی موت مرتے ہیں لہٰذا قبروں کا دستیاب ہونا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، قبروں کے حصول کے لیے قرعہ اندازی کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ بعض گرجا گھر اپنا نجی قبرستان رکھتے ہیں مگر یہ بھی قبر کے لیے ایک خطیر رقم وصول کرتے ہیں۔ ہانگ کانگ کے ضلع فینلنگ کے مشہور ٹمپل میں خاک دان رکھنے کی جگہ 43 اسکوائر انچ ہے اور اتنی ہی جگہ کی قیمت کسی اپارٹمنٹ کی قیمت سے کم نہیں۔ گویا مردے کو دفنانے کا مسئلہ حل نہ ہو تو جلا کر خاک رکھنا بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہانگ کانگ کا نام ماضی میں تو انتہائی پرکشش ہوا کرتا تھا، سیاح یہاں کا پہلی ترجیح میں رخ کرتے تھے گوکہ آج بھی جاتے ہیں مگر ماضی میں یہ اس قدر پرکشش اور اچھوتا سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں فلم سازوں نے اپنی فلموں کی کامیابی کے لیے اس نام کو استعمال کرتے ہوئے مس ہانگ کانگ اور ہانگ کانگ کے شعلے جیسی فلمیں بنا ڈالیں۔

کہنے کا مقصد ہے کہ یہ نام حسین خوابوں کا ایک حصے کے طور پر سامنے آیا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس حسین خواب کی حقیقت کیا وہ بھیانک تعبیر ہے جو ہانگ کانگ کے باسیوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے؟ جہاں رہائش کے اپارٹمنٹ سے قیمتی قبریں یا خاک دان ہوگئے ہیں؟ یہ کیسے انسانی حقوق ہیں کہ جہاں جینا تو مشکل ہے ہی مرنا اس سے بھی کہیں زیادہ دشوار ہے؟

انسان جب خوب سے خوب تر کی تلاش میں فطرت کے قوانین کو توڑدیتا ہے اور حقائق کو نظرانداز کردیتا ہے تو پھر اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی نقل میں آگے کی جانب دوڑتے چلے جا رہے ہیں، بلاسوچے سمجھے، آگے کے انجام اور آنے والے حالات پر غور نہیں کرتے نہ ہی دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

غور کیجیے! ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے جن سے سوال کیا جائے کہ کیا آپ اپنے شہر کو ہانگ کانگ جیسا بنانا چاہتے ہیں؟ تو وہ فوراً کہیں گے کیوں نہیں؟ لیکن ہم تصور کرسکتے ہیں کہ اگر ہمارے شہریوں میں بھی یہی حال ہوجائے کہ قبرستان میں دفنانے کی جگہ نہ ہو اور قبر کے لیے کسی اپارٹمنٹ کی قیمت سے زائد رقم ادا کرکے اپنے کسی پیارے کو دفنائیں یا اس مسئلے کے حل کے لیے فلیٹس کی طرز پر کئی کئی منزلہ قبرستان آباد کریں اور بلڈر اخبارات میں اپارٹمنٹس کی طرح اپنے نئے منصوبوں کے لیے اشتہار دیں ’’10 ہزار ماہانہ پر اپنے پیاروں کی قبر کے لیے بکنگ کروائیں!‘‘

قارئین کو شاید راقم کی بات احمقانہ لگ رہی ہو لیکن جناب کراچی شہر میں اس کا آغاز تو ہوچکا! باقی دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے۔

سوچنے کا مقام کیا ہے؟ ہم آخر بلاسوچے سمجھے نقالی کیوں کیے جا رہے ہیں ۔ محض سرمایہ داری کے چکر میں اپنے شہر اور ملک کو داؤ پر کیوں لگا رہے ہیں؟ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک سرمایہ دار نے کراچی شہر میں اربوں روپے کے ایک مکمل رہائشی منصوبے کا اعلان کیا اور غریبوں کے لیے بھی اس میں سستے پلاٹ رکھنے کا اعلان کیا مگر جب قرعہ اندازی ہوئی اور تفصیلات سامنے آئیں تو اس میں چھوٹے پلاٹ جن کا وعدہ کیا گیا تھا نظر نہیں آئے، کم ازکم ایک پلاٹ 45 لاکھ سے اوپر کا تھا۔ ہاں البتہ کثیر المنزلہ عمارتیں اس میں ضرور شامل تھیں۔

ذرا غور کیجیے! آبادی کے کسی شہر میں اوپر تلے (کثیر المنزلہ) عمارتوں کے منصوبوں سے جب کسی شہر کا رقبہ آبادی کے لحاظ سے نہ پھیلے اور آبادی اسی طرح پھیلتی جائے تو پھر کیا ہوگا؟ یہی کہ ہانگ کانگ کی طرز پر قبرستان بھی دستیاب نہ ہوں گے اور قبروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی؟ یا رہنے کے لیے فلیٹ جیسے چھوٹے کمروں کی رہائش بھی دستیاب نہ ہوگی بلکہ (جیساکہ بعض ممالک میں رواج پاچکا ہے کہ ) انسانی قد کے برابر ڈبے ہوں گے جو ایئرکنڈیشنڈ بھی ہوں گے مگر اس میں انسان صرف لیٹ اور بیٹھ سکتا ہے جیساکہ ریل کے سفر میں رات کے اوقات میں منظر نظر آتے ہیں۔ اور یہ طرز رہائش بھی مہنگی ترین ہوں گی۔

آئیے غور کریں کہ ہم کیوں مغرب کی نقالی میں اربنائزیشن کی پالیسیوں پر بھرپور طریقے سے گامزن ہیں؟ پھر اس پر غلطی یہ کہ کراچی جیسے شہر کو جس میں پھیلنے کی صلاحیت بھی ہے مخصوص دائرے میں گنجان آبادی بڑھا رہے ہیں۔ اگر کراچی جیسے شہر میں پھیلنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو اب تک نہ جانے یہاں کی زندگی کس قدر اجیرن ہوچکی ہوتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہروں کو آبادی سے بہت زیادہ بھرنے کے بجائے ایسے منصوبے بنائے جائیں کہ فطرتی ماحول متاثر نہ ہو۔ یہی کراچی شہر تھا کہ چھوٹے اور کچے گھروں میں رہنے والے کھلی ہوا دار اور صحن والی رہائشی رکھتے تھے بجلی نہ ہونے کے باوجود رات کو سکون سے سوتے تھے، آج ایک گھنٹے بجلی نہ آئے تو شہری سو نہیں سکتے کیونکہ طرز رہائش ہی بدل دی گئی ہے۔

ذرا سوچیے ہم تو کسی 10 یا 12 منزلہ عمارت پر لٹکنے والے نوجوان کی زندگی نہیں بچا سکتے تو بھلا کثیر المنزلہ عمارتیں خدا نخواستہ کسی ’’طوفان سے آشنا ہوگئیں‘‘ تو کیا کریں گے؟ ہمارے پاس تو آبادی کے اعتبار سے ایمبولینسیں بھی پوری نہیں جدید آلات و ماہرین تو دور کی بات۔

آئیے ہم سب غور کریں خاص کر اس ملک کی انتظامیہ میں شامل اور منصوبے بنانے والوں میں شامل تمام لوگ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔