پنجاب میں کہیں نیا چن نہ چڑھ جائے

نصرت جاوید  ہفتہ 21 جون 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جب سے ہوش سنبھالا ہے میں نے لاہور، راولپنڈی اور کراچی میں سیاسی کارکنوں کو ہمیشہ پولیس تشدد کا نشانہ ہی بنتے دیکھا۔ بپھرے ہوئے ہجوم اور پولیس کے درمیان مسلسل تصادم کے بے تحاشہ مناظر سب سے زیادہ اپریل 1977ء سے جولائی 1977ء کی اس تحریک کے دوران نظر آئے جو9 سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی نگرانی میں کروائے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف برپا کی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں تازہ اور صاف شفاف انتخابات تو نہ ملے۔

البتہ جنرل ضیاء کی صورت میں 11 سال تک اطمینان سے راج کرنے والا ایک آمر ضرور مل گیا۔ جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف جدوجہد کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اکیلے ہی کئی برسوں تک میدان میں ڈٹی رہی۔ برسرِ عام کوڑوں، اندھا دھند گرفتاریوں اور شاہی قلعہ لاہور میں بہیمانہ تشدد کے ذریعے اسے قابو میں رکھا گیا۔ بالآخر 1983ء میں ایم آر ڈی کے نام سے مختلف النوع سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد بنا۔ اس نے 1983ء میں جمہوریت کو بحال کرانے کے لیے جو تحریک شروع کی اس میں بے تحاشہ لوگ جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ میڈیا ان دنوں مگر آزاد نہ تھا۔

اخبار پریس میں جانے سے پہلے محکمہ اطلاعات کے دفاتر میں بیٹھے افسروں کے پاس جاتے۔ وہ ’’ناپسندیدہ‘‘ خبروں کو چھپنے کے لیے تیار شدہ کاپیوں سے نکال کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے۔ ویسے بھی اس تحریک کا اصل جوش اندرونِ سندھ کے قصبوں اور دیہاتوں تک محدود رہا۔ پاکستان کے باقی شہروں میں ’’سینہ گزٹ‘‘ والی خبریں بھی بہت دیر سے پہنچتیں۔ تھوڑی بہت خبر ملتی تو صرف اور صرف بی بی سی کی اُردو نشریات کے ذریعے۔

جنرل ضیاء کے بعد کئی منتخب حکومتیں آئیں مگر اپنی آئینی مدت ختم کرنے سے پہلے ہی گھر بھیج دی گئیں۔ ان حکومتوں کے دوران بھی وقتاََ فوقتاََ سڑکوں پر مشتعل ہجوم اور پولیس کے درمیان ڈرامائی تصادم ہوتے رہے۔ بالآخر جنرل مشرف کو اقتدار سنبھالنا پڑا۔ انھوں نے ضیاء والا مارشل لاء لگانے سے گریز کیا۔ توجہ صرف نواز شریف کو کسی بھرپور سیاسی حمایت سے محروم رکھنے پر ہی مرکوز رکھی۔ وہ جلاوطنی پر آمادہ ہو گئے تو ملک میں گویا سکون آ گیا۔ پھر 2002ء میں انتخابات بھی کروا دیے گئے۔ راوی نے چین لکھنا شروع کر دیا۔

میڈیا بھی آزاد سے آزاد تر ہوتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں پلتے غصے کو کتھارسس کی صورت ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دکھاتا رہا۔ اس کے باوجود 2007ء ہو گیا اور عدلیہ بحالی کی تحریک۔ پھر ایمرجنسی کا نفاذ، نئے انتخابات اور اس کے نتیجے میں بالآخر جسٹس افتخار کی بحالی۔ چیف جسٹس صاحب نے اپنی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر1 میں مسلسل رونق لگائے رکھی۔ اپوزیشن والے سڑکوں پر جانے کے بجائے کوئی پٹیشن وغیرہ لے کر ان کے حضور پیش ہو جاتے۔ ان سے اس ضمن میں اگر کوتاہی سرزد ہو جاتی تو چیف صاحب سوموٹو ایکشنز کے ذریعے بذاتِ خود حکومت کو اس کی اوقات میں رکھتے۔ میڈیا کو ڈرامائی خبریں مل جاتیں اور عوام کے دلوں میں اُبلتے غصے کو نکاس کا کوئی ذریعہ۔

پیر اور منگل کی درمیانی رات لاہور میں جو کچھ ہوا وہ بہت تیزی سے ہمیں ایک بار پھر ماضی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ لوگوں کی اکثریت کو 5 جولائی 1977ء بھی یاد آنا شروع ہو گیا ہے۔ اگرچہ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی منیر نیازی والی ’’قیامت‘‘ نہیں آئی۔ یہ بات کہتے ہوئے مجھے پورا علم ہے کہ مصر اور تھائی لینڈ میں وہ کچھ ہو چکا ہے جس کی توقع نام نہاد ’’عرب بہار‘‘ کے بعد نہیں کی جا رہی تھی۔ مصر میں لیکن ’’انہونی‘‘ اس لیے ہو پائی کہ وہاں مضبوط اکثریت سے منتخب ہونے والے اخوان المسلمون کے مرسی ایک حوالے سے اپنے ملک پر یک جماعتی نظام مسلط کرنے کے جنون میں مبتلا ہوگئے تھے۔

’’شریعت نافذ کرنے‘‘ کے نام پر انھوں نے بڑی جلدی میں کچھ ایسے اقدامات بھی اٹھائے جنھیں مصر کے خوش حال، مؤثر اور کئی دہائیوں سے طاقت کے مراکز پر قابض ’’لبرل‘‘ حضرات ہضم نہ کر پائے۔ تھائی لینڈ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کے شہری متوسط طبقے کی اکثریت ’’مضافات‘‘ کے ’’نو دولتیوں‘‘ کا جمہوریت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہو جانا برداشت ہی نہ کر سکتی۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصولوں پر قائم رہتا ہے۔ اسے اصل خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ دوسری سیاسی قوتوں کو اقتدار کے عمل میں Include نہ کر پائے۔

نواز شریف کے چاہے آپ جتنے بھی مخالف ہوں، ایک حقیقت آپ کو تسلیم کرنا پڑے گی اور وہ یہ کہ تیسری بار وزیر  اعظم بن جانے کے بعد وہ خود کو اتنا طاقتور بنانے کی کوشش کر ہی نہیں سکتے جیسا انھوں نے اپنے پچھلے دو ادوار میں کیا تھا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں ان کے بھائی اور جماعت یقیناً برسرِ اقتدار ہیں۔ مگر باقی صوبوں میں وزارتِ اعلیٰ غیر مسلم لیگی افراد کے پاس ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں شاندار حد تک خود مختار ہو چکی ہیں۔ تحریک انصاف کے پرویز خٹک یہ خود مختاری محض نواز شریف کے خلاف کسی اندھے غصے کی وجہ سے ہر گز کھونا نہیں چاہیں گے۔

بلوچستان کے ڈاکٹر مالک کے پاس تو اپنی اکثریت بھی نہیںہے۔ وہ اقتدار میں ہیں تو صرف نواز شریف کی حمایت کی وجہ سے۔ سندھ بدستور پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور انھیں ایم کیو ایم کے ساتھ سرد و گرم حالات میں گزارہ کرنے کا ڈھب اب خوب آ گیا ہے۔ پیر اور منگل کی درمیانی رات لاہور میں جو کچھ ہوا وہ ٹیلی ویژن اسکرینوں کو یقینا بڑی رونق بخش رہا ہے۔ ہم کالم نگاروں کا دھندا بھی اس واقعہ کی بدولت خوب چمک رہا ہے۔ مگر وہ جسے انگریزی میں End Game کہتے ہیں ابھی صحیح معنوں میں شروع نہیں ہوئی۔ صرف علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی گھن گرج اور ان کے جانثاروں کی وجہ سے ’’انقلاب‘‘ برپا نہیں ہوگا۔

ان کو اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے شدت کے ساتھ ضرورت ہے تو کم از کم عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں کی گرم جوش حمایت کی اور عمران خان اپنی قوت کسی اور کو ’’قائدِ انقلاب‘‘ بنوانے میں ہر گز خرچ نہیں کریں گے۔ عمران خان کا اصل ہدف ’’انقلاب‘‘ نہیں قبل ازوقت انتخابات ہیں۔ ان انتخابات کے حصول کے لیے وہ ابھی کچھ دن اور انتظار کر سکتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے کارکنوں کو انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے کے نام پر پنجاب کے بڑے شہروں میں متاثر کن ریلیوں کی صورت متحرک رکھیں گے۔

گلشن کا کاروبار مختصر لفظوں میں فی الوقت ایسے ہی چلتا رہے گا۔ بس خدا سے دُعا کیجیے کہ اس دوران پنجاب میں گڈ گورننس کی علامت سمجھے جانے والے شہباز شریف کے چند شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مارکہ افسران اپنی پھرتیوں سے پنجابی محاورے والا کوئی ’’نیاچن‘‘ نہ چڑھادیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔