وقت کروٹ بدل رہا ہے

ایس نئیر  ہفتہ 21 جون 2014
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

ایک صاحب نے اپنے دوست کو بتایا ’’ یار تین مہینے قبل میرا کریڈٹ کارڈ چوری ہوگیا تھا اور اس کارڈ پرجو شاپنگ کی جا رہی ہے پچھلے تین ماہ سے میں اس شاپنگ کا بل ادا کر رہا ہوں کیونکہ بینک تو میرے ہی ایڈریس پر اس کا بل بھیجتا ہے‘‘۔ ارے بھائی تم بینک میں اطلاع کر کے اس کارڈ کو بلاک کیوں نہیں کروا دیتے ؟‘‘ ان کا دوست مارے حیرت کے اچھل کر بولا ۔ ’’ ہرگز نہیں ! میرا اس میں فائدہ ہے ‘‘ کریڈٹ کارڈ کا مالک دوست پر سکون لہجے میں بولا ۔ ’’ بے وقوف آدمی اس میں تمہارا کیا فائدہ ہے ؟ چور مزے سے خریداری کرتا پھر رہا ہے اور تم اس کی خریداری کا بل ادا کر کے اس کی مزید حوصلہ افزائی کر رہے ہو ۔‘‘ ان صاحب نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور مسکرا کر بولے ’’ بھائی یہ چور میری بیوی کے مقابلے میں کم سے کم ستر فیصد کم خریداری کر رہا ہے ۔‘‘

ہم بھی خود پر حکومت کرنیوالے حکمران طبقے کو اپنے خرچ پر پال کر اسی طرح خوش ہوتے ہیں کہ موجودہ حکمران طبقہ کم سے کم ماضی کے بادشاہوں اور سلاطین کے مقابلے میں عوام کا پیسہ کم خرچ کر رہے ہیں ۔ یہ ہمارے مزاج کا حصہ ہے اور برصغیر کے عوام کی سائیکی بھی ہے ۔ ہم اپنے حکمرانوں کی شان و شوکت دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ ہمیں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ اس ساری شان وشوکت کا بل ہم اپنی گرہ سے ادا کر رہے ہیں ۔ ہم خود چاہے جانوروں سے بھی بدتر حالات میں زندگی گزاریں لیکن اپنے حاکموں کو بہترین کھانا کھلاتے ہیں ، بہترین لباس پہناتے ہیں ، بہترین سواری پیش کرتے ہیں اور ہر وہ چیز انھیں عطا کرتے ہیں جو ان کے عیش و عشرت کے لیے ضروری خیال کی جاتی ہے ۔ ہمیں وہی حاکم پسند ہوتا ہے جس کا باپ یا چچا یا دادا کبھی ماضی میں ہم پر حاکم رہا ہو ۔

ہم اسی خاندان کے کسی سپوت کو نیا حاکم دیکھنا پسند کرتے ہیں ، جس کا بزرگ کبھی ہمارا حاکم رہا ہو ۔ ماضی میں جس طرح ایک بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا نیا بادشاہ بن جایا کرتا تھا وہی ریت آج تک چلی آرہی ہے ۔ سلاطین دہلی سے لے کر آج تک کی تاریخ اٹھا کردیکھ لیں بلکہ چندرگپت موریہ کے دور سے اگر آپ تاریخ کا مطالعہ شروع کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر نیا حکمران ہمارے لیے وہی قابل قبول رہا ہے جسے پچھلا حکمران اپنی موت سے قبل نیا حاکم نامزد کر گیا تھا ۔ برصغیر کی تاریخ میں کئی بادشاہ گروں کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔ ان بادشاہ گروں کی بھی یہ ہمت کبھی نہ ہوئی کہ حکمران خاندان سے باہر کے کسی فرد کو بادشاہ بنا سکیں اگر ایسا ممکن ہوتا تو وہ خود بادشاہ نہ بن جاتے ؟

آٹھ سال یا دس دس سال کے شہزادے بھی تخت پر بٹھا کر نئے حاکم بنائے گئے کیونکہ ان کا تعلق حکمران خاندان سے تھا اور ان کی آڑ میں یہ بادشاہ گر لوگ خود حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے ۔ یہ الگ بات کہ کمسن بادشاہوں نے ہوش سنبھالتے ہی سب سے پہلے انھی بادشاہ گروں کو ٹھکانے لگایا مثلاً تیسرا مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر جسے تاریخ میں مغل اعظم لکھا گیا اسے صرف چودہ برس کی عمر میں تخت پر بٹھا دیا گیا تھا ۔ اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ چودہ برس کی عمر میں حاکم بن جانے والا حکمران کتنی عقل و فہم کا مالک ہوگا ؟

اس پر طّرہ یہ کہ وہ جاہل مطلق بھی تھا لیکن خوش قسمتی سے وہ جلد ہی سلطنت کے معاملات کو سمجھ گیا اور تھوڑی سی طاقت پکڑنے کے بعد اس نے سب سے پہلے اپنے انھی محسنوں کو ’’ کیفر کردار ‘‘ تک پہنچایا جنہوں نے اسے بادشاہ بنا کر اس کی آڑ میں خود بادشاہت کرنے کی کوشش کی تھی میں یہاں برصغیر کی تاریخ بیان نہیں کرنا چاہتا ۔ میرا موضوع دوسرا ہے اور وہ یہ کہ ہم آج تک اس سائیکی سے جان نہیں چھڑا سکے ۔ جمہوریت ہمیں اپنا حکمران خود منتخب کرنے کا حق دیتی ہے ۔ ہمیں یہ اختیار دیتی ہے کہ ہم بہتر سے بہتر حاکم اپنے لیے منتخب کرسکیں لیکن ہم باری باری انھی حکمران خاندان کے سپوتوں کو اپنے ووٹ سے نواز دیتے ہیں جن کے باپ دادا کبھی ہمارے حاکم رہے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ بعض جاگیردار اور سرمایہ دار اپنے حلقے کی سیٹ کو اپنی غیر منقولہ جائیداد سمجھتے ہیں اور یہ اسمبلی کی نشست ورثے میں اولاد در اولاد منتقل ہوتی رہتی ہے ۔ اگر اس حلقے کے عوام ایسے خاندانی حکمران کو ووٹ ہی نہ ڈالیں تو پھر وہ امیدوار حلقے کے عوام کا کیا کر لے گا ؟ لیکن ہماری اتنی جرات ہی نہیں ہے کہ ہم اسے منتخب نہ کریں  کیونکہ ہم اپنی ذہنیت اور نفسیات کے ہاتھوں مجبور ہیں ۔ ہمیں حکمران خاندان سے ہی نیا شہزادہ درکار ہوتا ہے ۔ خواہ وہ حکمرانی کے لیے بالکل ہی نااہل ہو۔

یقین نہ ہو تو پچھلی اسمبلی کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ایسے ممبران کی خاطر خواہ تعداد ملے گی جو اسمبلی میں پانچ برس تک ایک لفظ بھی نہیں بولے ۔ بعض ممبر تو آپ کو ایسے بھی ملیں گے جنھیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ اسمبلی میں ہو کیا رہا ہے ؟ لیکن انھیں اپنے استحقاق ، اپنی مراعات اور اپنے پروٹوکول کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا ہے ۔ جو ہم عوام اپنے خرچے یعنی قومی خزانے سے انھیں ادا کرتے ہیں۔ یہ حال پچھلی اسمبلی کا ہی نہیں موجودہ اسمبلی اور پچھلی اسمبلی سے گزشتہ ہر اسمبلی کا تھا ۔ یہ بادشاہ لوگ ہمارے لیے قانون بناتے ہیں اور خود کو اپنے ہی بنائے گئے قوانین سے بالاتر بھی سمجھتے ہیں ۔ ہم خود بھی ان قوانین کو توڑتے ہیں اور انھیں قانون سے بالاتر دیکھ کر خوش الگ ہوتے ہیں ۔

یہ ایک روپیہ بھی ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہوتے لیکن عوام سے ہر قسم کا بالواسطہ ٹیکس لینے کو ثواب سمجھتے ہیں اور جہاں تک اس ملک کے غریب عوام کا تعلق ہے یہ بالکل ان صاحب کی طرح ہیں جن کے کریڈٹ کارڈ پر کوئی اور خریداری کرتا پھر رہا تھا اور وہ صاحب صرف اس لیے اس بل کی ادائیگی کرتے رہے کہ وہ کم خرچ کررہا تھا ۔ عوام باری باری دو حکمران خاندان کی اولاد کو اس لیے منتخب کرتے چلے آرہے ہیں کہ شائد یہ کم خرچے میں ان کو پڑیگا لیکن اب وقت کروٹ بدل رہا ہے۔

اس خطے میں اب ایک بڑا اپ سیٹ ہوچکا ہے۔ جس طرح موجودہ فٹ بال ورلڈ کپ میں ابتداء میں ہی بڑا اپ سیٹ ہوا ہے اور ڈیفنڈنگ چیمپئن اسپین کو چلی نے ورلڈ کپ سے باہر کردیا ہے، اسی طرح پڑوس میں نہرو خاندان کے چشم و چراغ یعنی راجیو اور سونیا گاندھی کے صاحبزادے راہول گاندھی ایک ایسے سیاستدان کے ہاتھوں شکست کھا گئے ہیں جس نے اپنا کیرئیر ایک چائے کے ’’ کھوکھے ‘‘ سے شروع کیا تھا ۔ قطع نظر اس کے کہ نریندر مودی نے بحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا تھا ؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ کل کا چائے بیچنے والا آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست بھارت کا منتخب وزیر اعظم ہے اور اس کے اثرات پڑوس میں لازماً پڑیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔