قرض پر مبنی معیشت

ایم آئی خلیل  ہفتہ 21 جون 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

پاکستان جوکہ غربت کے منحوس چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ یہاں بچتوں کا تناسب بھی کم ہے لہٰذا معاشی ترقی کے حصول کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان دیگر ذرایع کے علاوہ عالمی اداروں سے رجوع کرتا ہے۔ یہ عالمی ادارے عالمی مارکیٹ میں رائج کم شرح سود پر بھی قرض فراہم کرتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ ادارے اپنے قرضوں اور سود کی وصولی کے لیے انتہائی سخت ترین شرائط پر قرض فراہم کرتے ہیں۔ ان شرائط کے باعث بعض اوقات معاشی ترقی کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوتا۔

اس کے ساتھ ہی مہنگائی میں اضافہ بھی شروع ہوجاتا ہے، زیادہ نرخوں پر انحصار معیشت کے لیے ایک ناروا عمل کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ قرض کی ادائیگی اور سود کی ادائیگی کے موقعوں پر زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑتا ہے اور ان کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ پاکستان کی معیشت نے بیرونی قرضوں اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھلی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور اس کی شرائط بھی خوش کن ہیں۔ یہاں غیر ملکی کمپنیاں اپنی اثاثوں کی سو فیصد مالک ہوسکتی ہیں، اپنا منافع جتنا چاہیں باہر بھجوا سکتے ہیں لیکن مسلسل بدامنی اور توانائی بحران کے باعث اس حد تک مراعات کے باوجود پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے اگر معاشی ترقی کا ہدف 4.4 فیصد مقرر کیا جاتا ہے تو اس سے کہیں کم معاشی ترقی حاصل ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم کردار ملکی کرنسی کا بھی ہوتا ہے کہ اس میں مسلسل گراوٹ کے باعث بیرونی سرمایہ کار گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، توانائی بحران کے باعث ملکی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ادھر جب بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہوں تو ملک کی مالیاتی مارکیٹ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روپیہ جب عدم استحکام کا شکار ہوجائے تو عوام ہی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس جمع رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ سال جب آئی ایم ایف کو پرانے قرضوں اور قسطوں کی ادائیگی کی جا رہی تھی ملکی معیشت کے نازک حالات کے باعث ملکی کرنسی ساڑھے 7فیصد تک گرچکی تھی۔

دوسری طرف عالمی مالیاتی اداروں کی ناروا شرائط کے باعث مرکزی بینک بھی اپنی کرنسی کی مدد کے لیے نہیں آسکتا تھا لہٰذا ایسی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کا ایک اور طریق کار کارگر ہوتا ہے جسے حکومت اپناتی ہے کہ بیرونی قرضے حاصل کرے۔ نجکاری کے ذریعے بھی کافی ڈالر جمع کیے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس تمام عمل میں نجکاری کرتے ہوئے 100 فیصد شفافیت لے کر آئی جائے۔ حکومت کو ایک بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ آج کا قرض بالآخر کل کے لیے مسائل کا سبب بنتا ہے کیونکہ قرض لے کر جب غیر پیداواری مقاصد کے لیے خرچ کردیا جاتا ہے تو اس کا بوجھ غریب عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق حکومت نے یکم جولائی 2013 سے اب تک 5 ہزار ارب روپے کے قرضے حاصل کیے ہیں اور یہ ایک سال میں قرض لیے گئے ہیں جس کا دو تہائی حصہ غیرملکی قرضوں پر مشتمل ہے اور اس طرح سے مسائل کے انبار میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، بیرونی قرضوں سے اسی صورت میں فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں جب انھیں کسی اہم پراجیکٹ کے لیے لیا جائے اور اسی میں صرف کیا جا رہا ہو۔ یہ قرضے طویل عرصے کے لیے ہوں اور انتہائی کم ترین شرح سود پر لیا ہو۔ اس کی واپسی انتہائی آسان قسطوں پر مبنی ہو۔

یہاں پر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اگر قرض کسی منصوبے کے لیے نہیں بلکہ پورے منصوبے کے بجائے ایک پراجیکٹ کے لیے لیا گیا ہے تو ایسی صورت میں قرض فراہم کرنیوالا ادارہ یا ملک پورے منصوبے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتا ہے بلکہ حکومت کا کام ہے کہ اسے صرف اسی پراجیکٹ کی حد تک پابند رکھے۔ اگر پورے منصوبے میں سے ایک معمولی یا اس کے کچھ حصے کی رقم فراہم کر رہا ہے تو اس کی بھی نشاندہی ہونا چاہیے تاکہ بیرونی مداخلت کو کم کیا جاسکے۔ بصورت دیگر قرض پر مبنی معیشت کے باعث ملکی ترقی کی رفتار مدہم رہتی ہے۔ اگرچہ بیرونی قرضوں کا مقصد ملکی فنی پسماندگی کو دور کرنا بھی ہوتا ہے کیونکہ بیرونی امداد و قرضوں کے باعث ان ملکوں سے فنی مہارت بھی حاصل ہوتی ہے۔

جدید ٹیکنالوجی سے استفادے کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں۔ مہارت یافتہ افراد ملک میں آتے ہیں جس کی وجہ سے ملکی افراد کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جیساکہ دو عشرے قبل پاکستان اسٹیل مل میں روسی انجینئرز پاکستانی عملے کی رہنمائی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ آج کل مختلف پراجیکٹ پر کام کرنیوالے چینی ماہرین بھی پاکستانی عملے کو فنی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ بہت سی بھاری صنعتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے فنی تعاون کے ساتھ بھاری سرمایہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے بھاری انجینئرنگ توانائی کے بڑے منصوبے اور لوہے و فولاد کی صنعتیں وغیرہ۔ جیسے پاکستان میں اسٹیل کی ضروریات پورا کرنے کے لیے روس کے تعاون سے اسٹیل مل قائم کیا گیا تھا۔

چین کے تعاون سے کئی بھاری منصوبے شروع کیے گئے تھے۔ آج کل توانائی کے شعبے میں چین نہ صرف بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے بلکہ ان کے ماہرین بھی ملک کے طول و عرض میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت ملک کو تیل اور گیس کی پیداوار میں اضافے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے غیرملکی قرضوں اور سرمایہ کاری پر انحصار کیا جا رہا ہے کیونکہ ملک کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ تیل، گیس اور دیگر معدنیات نکال سکیں لہٰذا غیرملکی کمپنیوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ملک میں آکر تیل اور گیس کے کنوؤں کی کھدائی کریں تاکہ ملک میں تیل اور گیس اور دیگر معدنیات کی پیداوار میں اضافہ ہوسکے۔

پاکستان کی ہر حکومت اس سلسلے میں کوشش کرتی رہی ہیں۔ پاکستان میں باوجود یہ کہ ملک کے مختلف علاقوں میں تیل گیس اور دیگر معدنیات کے وافر ذخائر بھی موجود ہیں لیکن تاحال ملک میں تیل کی پیداوار میں قابل ذکر اضافہ نہیں کیا جاسکا اور کئی عشرے قبل گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہونے کے بعد اب کوئی اور بڑا ذخیرہ ہاتھ نہیں لگا کیونکہ بتایا جا رہا ہے کہ سوئی میں بھی گیس کے ذخائر اب کم رہ گئے ہیں۔ اگر اس دوران ملک میں کوئی گیس کا بڑا ذخیرہ ہاتھ نہ لگا تو پاکستان کو توانائی کے مزید بحران سے نمٹنا پڑیگا۔

بیرونی قرضوں پر مبنی معیشت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ قرض فراہم کرنیوالا ملک اپنے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے۔ ایسے منصوبوں میں دلچسپی نہیں رکھتا جس سے ملک میں روزگار بڑھے، معاشی ترقی میں اضافہ ہو بلکہ اس کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ عالمی سیاست میں اس ملک کو اپنے زیر سایہ رکھا جائے، سیاسی دباؤ میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو امیر صنعتی ممالک نے جو بھی امداد یا قرض فراہم کیا ہے ان کے پیش نظر ان کو اپنے تابع رکھنا ہی رہا ہے۔

اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں کا بھی یہی طرز عمل رہا ہے کہ ان قرضوں سے غریب ممالک اپنی معیشت کی بہت ہی کم اصلاح کرسکے ہیں اور ایسا تو کبھی نہ ہوا کہ وہ ترقی پذیر ملک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگئے ہوں کیونکہ قرض پر مبنی معیشت کے لیے اصلاح احوال کے مواقعے کم ہوتے ہیں، ایسی واپسی کی قسط اور شرح سود کی ادائیگی کے لیے بعض اوقات دوبارہ سخت شرائط پر قرض حاصل کرنا پڑتا ہے اور معاملہ پھر وہیں کا وہیں جاکر رک جاتا ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا بلکہ بعض ممالک کے ساتھ برعکس معاملہ پیش آتا ہے کہ وہ مزید مفلوک الحال ہوتے چلے جاتے ہیں لہٰذا قرض پر ہی انحصار کرنے کے بجائے اپنے مسائل اپنے عزم و ارادے اور بلند حوصلے کے ساتھ ملکی تعمیر و ترقی کے مراحل طے کیے جائیں۔

اس وقت قرض پر مبنی معیشت والی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے ملکی وسائل کو فروغ دینے کی پالیسی اپنالی جائے۔ پاکستان کی ہر حکومت قرض کم کرنے، کشکول توڑنے کے وعدے کرتی ہے لیکن عملاً وہ ایسے اقدامات سے گریز کرتی ہے جس سے قرض پر انحصار کم کیا جاسکے۔ موجودہ حکومت نے بھی بیرونی قرضوں پر انحصار بہت زیادہ بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے معیشت کو آیندہ چل کر مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ آج کا قرض کل کا بوجھ ہے اور کل یہ بوجھ اتارنا مشکل ہوجائیگا اور قرض کا یہ بوجھ بالآخر غریب عوام کے سر پر بھی چڑھ کر بولے گا لہٰذا قرض پر مبنی معیشت کو فروغ دینے کے بجائے ملکی وسائل پر انحصار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ع

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

کے دن گئے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔