ہر اِک جانب مچا کہرام داروگیر؟

رئیس فاطمہ  جمعـء 21 ستمبر 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

چند دن پہلے ہی کی بات ہے کہ جب آسٹریلین بھیڑوں کا قصّہ سامنے آیا تھا کہ 21 ہزار سے زاید بھیڑیں جو آسٹریلیا سے بحرین بھیجی گئی تھیں۔

انھیں بحرین کی حکومت نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، کیونکہ تمام بھیڑیں ایک خطرناک بیماری میں مبتلا تھیں۔ تب وہ بحری جہاز جس کے روٹ میں پاکستان قطعی شامل نہ تھا اس نے پاکستان کا رخ کیا۔

کیونکہ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج کرپشن، بدعنوانی اور ضمیر فروشی کے حوالے سے کیا ہے؟ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان تمام معاملات میں ہم عالمی شہرت یافتہ ہیں۔

اسی لیے بحرین سے بھیڑوں کے معاملے میں ناکامی کے بعد وہ جہاز سیدھا پاکستان پہنچا اور پورٹ قاسم پہ ان بیمار بھیڑوں کا سودا کرکے چلتا بنا، کیونکہ جہاز کا کپتان اور عملہ جانتا تھا کہ پاکستان دو نمبر کے کاروبار، جعلی دوائوں، بیمار جانوروں کے گوشت، مردہ بھینسوں، مردہ مرغیوں کے کاروبار، غذائی اجناس، دودھ دہی مصالحہ جات، غرض یہ کہ ہر اس معاملے میں ایک زرخیز سرزمین ہے جس میں کرپشن کے ذریعے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جاسکتی ہو۔

اسی لیے فوراً ان خطرناک بیمار بھیڑوں کا سودا ہوگیا اور جب میڈیا نے اس اسکینڈل کی خبر دی تو بہت سے صحت کے اداروں نے اس بات کی تردید کی کہ بھیڑیں بیمار ہیں… بلکہ سرے سے اس بات سے انکار کردیا کہ بھیڑوں کو کوئی بھی بیماری لاحق نہیں، کیونکہ قربانی قریب آرہی تھی اور خریدار کی چاندی ہونے والی تھی۔ لیکن کالم لکھنے سے چند منٹ پہلے نیوز بلیٹن میں یہ انکشاف ہوا کہ واقعی بھیڑیں ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں۔

کمشنر کراچی روشن علی شیخ نے بتایا کہ تمام بھیڑوں کو بے ہوشی کا انجکشن لگا کر دفن کردیا جائے گا، کیونکہ ان بھیڑوں کا گوشت انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ سندھ پولٹری حکام کی رپورٹ نے طالع آزمائوں کی نیندیں اڑا دیں کہ وہ تو سمجھے بیٹھے تھے کہ بیمار بھیڑیں ان کی قسمت بدل دیں گی کہ یہاں کون پوچھنے والا ہے کہ ہوٹلوں میں بننے والے تکّے، مردہ اور بیمار مرغیوں کے ہوتے ہیں یا صحت مند کے؟

دن رات بکنے والی نہاری میں کس جانور کا گوشت ڈالا جارہا ہے؟ مرغیوں کی بیماری رانی کھیت جب پھیلتی ہے اور ایک ہی جھٹکے میں جب ہزاروں مرغیاں مرجاتی ہیں تو ان کا کیا ہوتا ہے؟ تو ان بیمار بھیڑوں کا نوٹس کون لے گا؟ جیبیں گرم کرکے من پسند صحت کے سرٹیفکیٹ وہ پہلے ہی حاصل کرچکے تھے۔

پھر یہ کیا ہوا؟ اچانک سب کچھ کیسے بدل گیا؟ جب کہ بحرین سے پاکستانیوں نے بھی خبردار کیا تھا کہ یہ بھیڑیں بیمار ہیں اور یہ بیماری دوسرے جانوروں اور انسانوں کو بھی لگ سکتی ہے۔ لیکن اس پر بھی کوئی ردّعمل سامنے نہیں آیا۔ پھر یہ معجزہ کیونکر رونما ہوا؟ مجھ سمیت بہت سے لوگ تذبذب کا شکار تھے کہ کہیں ان بھیڑوں میں سے کچھ بھیڑیں (چند سو بھیڑیں) غائب نہ کردی جائیں۔

اور واقعی ایسا ہی ہوا کہ تین ہزار بھیڑوں کو خاموشی سے ایک گودام میں چھپا دیا گیا تھا جسے بعد ازاں بازیاب کرایا گیا۔ ایسے میں کمشنر کراچی کی ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اکیس ہزار سے زاید بھیڑوں کی گنتی کون کرے گا؟ کیونکہ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔

ایک نیوز بلیٹن سے انکشاف ہوا کہ کچھ نامعلوم افراد ان بیمار بھیڑوں کو تلف کرنے سے روک رہے ہیں۔ دیکھیے کالم چھپنے تک بھیڑوں کی کہانی کتنے موڑ لیتی ہے؟

کسے معلوم کہ بکرے کی آڑ میں کوئی ان بھیڑوں کا گوشت فروخت نہیں کرے گا؟ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بیمار بھیڑوں کا خریدار کون تھا؟ کس نے ان بھیڑوں کا سودا کیا، رقم ادا کی؟ اس سب پر پردہ پڑا ہوا ہے۔

شاید کوئی ڈیل ہوگئی ہے اس سلسلے میں کہ ’’بااثر خریدار‘‘ کا نام سامنے نہیں آنا چاہیے، ہمارے نبی حضور اکرمؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تاجروں کے لیے کہا کہ وہ اپنی چیز کا نقص خریدار کو پہلے سے بتادیں۔

لیکن پورے پاکستان میں ایک بھی ایسا تاجر ہوگا جو اپنی شے کی خرابی خریدار کے علم میں لے آئے؟ یہاں تو ایسا سوچنا بھی حماقت ہے۔ یہاں تو یہ دستور ہے کہ قسم کھا کر خراب مال بیچا جاتا ہے۔

پھل بیچنے والا بھی خریدار کی آنکھ بچا کر گلے سڑے سیب، کینو اور کیلے تھیلی میں ڈال کر خریدار کے حوالے کردیتا ہے۔ ہر دودھ والا دودھ میں غیر معیاری خشک پائوڈر، سنگھاڑے کا آٹا اور اراروٹ ہی نہیں بلکہ تازہ ترین اطلاع کے مطابق واشنگ پائوڈر بھی ملارہے ہیں تاکہ جھاگ پیدا ہو۔ گوشت میں پانی کا پریشر چھوڑا جارہا ہے تاکہ وزن زیادہ ہوجائے۔ کیا یہی وہ اسلام ہے جس کو لانے والے سرورِ کائنات تھے۔

کیا ہم اس پراسرار شخصیت کا نام کبھی جان سکیں گے، جس نے ان بھیڑوں کا سودا کیا تھا؟ کالی بھیڑیں ہم میں ہمیشہ سے موجود ہیں، لیکن گزشتہ چار سال میں ان کی تعداد کافی بڑھی ہے۔

فیکٹری کے مالکان خود کو بالکل معصوم قرار دے رہے ہیں۔ نئی نئی کہانیاں اور نت نئی تاویلات سامنے لائی جارہی ہیں۔ فائر بریگیڈ کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ برملا یہ کہا جارہا ہے کہ فائر بریگیڈ کی غیر معمولی تاخیر سے آگ پھیلی۔ تخریب کاری کا امکان بھی مالکان ظاہر کررہے ہیں۔

اپنی بے گناہی کے لیے وہ بار بار ٹی وی چینلز پر اپنا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ چلیے مان لیا کہ فائر بریگیڈ کی کوتاہی کی وجہ سے آگ پھیلی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آگ لگی کیسے؟ گیٹ کو تالا کس نے لگوایا؟ ہر فلور پر فیکٹریوں اور کثیر المنزلہ عمارتوں میں باہر کی جانب سیڑھیاں بنائی جاتی ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں موجود لوگ بیرونی سیڑھی کے ذریعے نکل کر جان بچاسکیں۔

کیا اس تین منزلہ عمارت میں کسی کو بھی کوئی ایسی سیڑھی نظر آئی جس سے باہر نکلا جاسکتا ہو؟ آگ لگنے کے بعد ملازمین کو پابند کیا گیا کہ وہ پہلے مال بچائیں! آگ بجھانے والے آلات اگر موجود تھے تو وہ ناقص اور ناکارہ تھے۔ آگ ان وجوہات کی بِنا پر پھیلی نہ کہ فائر بریگیڈ کی کوتاہی کی وجہ سے۔

آج بھی کرپشن کے دلدل میں فائر بریگیڈ ایک ایسا واحد ادارہ ہے جو ہر جگہ وقت پر پہنچتا ہے اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کو بچاتا ہے۔ اور اس خدمت کے عوض انھیں ملتا کیا ہے؟ ذرا ان کی تنخواہوں اور سہولتوں پر نظر ڈالیے تو لگتا ہے کہ بس مجبوری میں کام کررہے ہیں، لیکن پورے انسانی جذبے کے ساتھ۔

افسوس کہ پاکستان بھر خصوصاً کراچی میں ایسی بے شمار فیکٹریاں ہیں جہاں مزدوروں کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ بڑے بڑے باریش اور تھری پیس سوٹ پہننے والے فیکٹری مالکان کو صرف اپنے منافع سے مطلب ہے۔

فیکٹری میں کام کرنے والی عورتوں کو ایک گھنٹے سے بھی کم کا وقت دوپہر میں دیا جاتا ہے، جس میں وہ خواہ نماز پڑھیں، کھانا کھائیں، یا کمر سیدھی کرلیں۔ اونچی اونچی میزوں پر صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کھڑے کھڑے کام کرنا، سلائی کرنے والیوں کو مسلسل مشینیں چلاتے رہنا اور درمیان میں تھک کر دو منٹ کے لیے بھی دم لینے کے لیے کوئی اسٹول یا بینچ موجود نہیں کہ وہ سانس تو لے لیں! ذرا ہاتھ رکا اور سپروائزر جلاد کی طرح نازل ہوا۔

ایک باد یاد رکھیے گا، تین چار دن بعد سب لوگ سب بھول جائیں گے، فیکٹری مالکان کی ضمانت ہوچکی ہے۔ انھیں دیگر سہولتیں بھی جلد حاصل ہوجائیں گی، کیونکہ پاکستان میں قانون کا تحفظ صرف پیسے والے کو حاصل ہے۔ خواہ وہ کسی فیکٹری کا غیر ذمے دار اور لالچی مالک ہو، کرپٹ سیاست دان ہو یا کسی وزیر کا بدقماش لاڈلا بیٹا۔ قانون ان سب کا غلام ہے۔ یہ ملک غریبوں کو تحفظ کبھی نہیں دے سکتا۔ یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔