حکایتیں: عجیب آدمی ہے وہ

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 22 جون 2014
70 برس کے بھولے کا مشغلہ ہے اُداس لوگوں کو ہنسانا۔ فوٹو: فائل

70 برس کے بھولے کا مشغلہ ہے اُداس لوگوں کو ہنسانا۔ فوٹو: فائل

اس کی زندگی بھی عجیب ہے، شوق بھی عجیب اور انوکھے، پوری دنیا اس نے اپنے پائوں تلے روند ڈالی ہے۔

ہاں اس کے پائوں میں چکر ہے، بے چین روح ہے وہ۔ ہر ملک اس کا ہے، کہ خدا کا ہے۔ ٹِک کے بیٹھنا اس کے نصیب ہی میں نہیں ہے۔ کبھی ایک ملک میں اور کبھی دوسرے میں۔ پارہ صفت، جسے کسی پل قرار نہیں ہے۔ مجھے اس کے کاروبار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ بھاڑ میں جائے وہ۔ بہت خرابیاں ہیں اس میں، بے شمار خرابیاں، فرشتہ نہیں ہے، وہ انسان ہے۔ لیکن ہے اصل اور کھرا۔ بالکل سچا موتی۔ خرابیاں اور برائیاں کس میں نہیں ہوتیں؟ کیا مجھ میں نہیں ہیں؟ بہت ہیں۔ آپ کیا جانیں، میرے دوستوں سے پوچھیں۔ لیکن اس میں جو خوبیاں ہیں، جو جوہر ہے وہ بہت کم، بہت ہی شاذ و نادر ہوتا ہے کسی میں۔

وہ مجھے ’’باس‘‘ اور میں اسے بھولا کہتا ہوں، وہ ہے ہی بھولا۔ میں نے اس کا نام بھولا بھی اک گانے کے بول سن کر رکھا تھا،

بھولا، بھولا میرا نام

ہنسنا، گانا میرا کام

ساری دنیا کو سُکھ بانٹوں

پھر بھی ہوں بدنام

بھولا، بھولا میرا نام

ستر برس کا ہوگیا ہے وہ، اور ہے معصوم بچہ۔ بہت گہرا، اتنا جیسے کوئی قدیم کنواں ہو، جس کی تہہ میں پانی تو ہو، لیکن گہرائی کی وجہ سے بس ایک خلا نظر آتا ہو، آپ اسے قطعاً دریافت نہیں کرسکتے… ہر دم، ہر پل اک نیا روپ۔ یوگا ماسٹر اور ہر پل مقابلے پر تلا ہوا۔ بہت لڑاکا، اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے جاں باز۔ راستہ چلتے ہوئے مظلوموں کے لیے برسر پیکار۔ کوئی پروا نہیں کرتا وہ کسی کی۔ آپ دیکھ کر دنگ رہ جائیں۔ دوستوں کی مدد کرنے پر تو ہر ایک تیار ہوتا ہے لیکن وہ تو دشمنوں کے لیے بھی چشم ما روشن ہے ۔ ہاں ادھار لے کر بھی انسانوں کی مدد کرنے والا دُرنایاب۔ اس کی لغت میں تعصب، فرقہ، گروہ جیسے لفظ ہیں ہی نہیں، اس کے لیے سب انسان ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب کو ماننے والے اور کسی بھی رنگ و نسل سے ہوں، ہاں ایسا ہے وہ۔

نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدنا اس کا شوق ہے۔ امراء کی بستی کا مکین، لیکن ان سے بالکل الگ تھلگ۔ اس کا بس ایک ہی مشغلہ ہے، اداس لوگوں کو ہنسانا، چاہے اسے کچھ کرنا پڑے۔ ناچنا گانا سب کچھ۔

ایک دن میں ابھی دفتر پہنچا ہی تھا کہ وہ آگیا۔ اور پھر چل سو چل۔ میں نے پوچھا ’’ کیسے آئے‘‘

بہت ہنسا اور پھر کہنے لگا، ’’آج صبح سویرے میں نے ایک کام کیا، ایک اداس آدمی کو ہنسایا تو آپ کو بتانے آگیا۔‘‘

میں نے تفصیل پوچھی تو بہت مزے سے سنانے لگا، بولا،’’صبح سویرے ایک کباڑ والا اپنا ٹھیلا لے کر جارہا تھا۔ وہ ہمیشہ خوش رہتا ہے اور اس کی آواز میں گھن گرج بھی بہت ہے، لیکن آج اس کی آواز میں جان ہی نہیں تھی۔ میں بالکونی میں بیٹھا ہوا اسے دیکھ رہا تھا، وہ اپنا سر جھکائے ٹھیلا دھکیلتا ہوا جارہا تھا۔ میں نے سوچا ضرور آج کوئی مسئلہ ہوگیا ہے۔ آج کسی نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ہوسکتا ہے اپنی بہن، بھائی یا بیوی سے لڑکر آیا ہو۔ حالات نے تنگ کیا ہو اسے۔ منہگائی نے ایسا کردیا ہو۔ شاید بیمار ہو، بس میں نے کچھ نہیں دیکھا، بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور کہا: یار! تم کیا کام کرتے ہو؟ تو وہ کہنے لگا، میں تو کباڑی ہوں، پرانی چیزوں کا خریدار، کاٹھ کباڑ خریدتا ہوں۔

بس میں نے اس سے کہا، میں بھی کاٹھ کباڑ ہوں۔ مجھے خریدو گے؟ تول کر لوگے یا لم سم؟ اور اچھل کر اس کے ٹھیلے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ پھر میں نے اس سے کہا، اس ترازو میں تو مجھے نہیں تولا جاسکتا۔ ایسا کرتے ہیں لم سم لگالو میری قیمت، اور جائو پیسے میری بیوی کو دے آئو۔ میری بیوی اور محلے کے کچھ لوگ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ بہت ہنسا اور لوٹ پوٹ ہوگیا۔ کہنے لگا جناب! آپ کیسی باتیں کررہے ہیں، انسان کو کون خرید سکتا ہے! انسان تو انمول ہے۔ تو میں نے کہا: ہاں انسان انمول ہے یار… لیکن میں کہاں سے انسان ہوگیا! بہت دیر اس سے گپ شپ ہوئی۔ پھر میں نے فٹ پاتھ پر اس کے ساتھ چائے پی اور وہ خوش ہوکر اپنے کام کے لیے روانہ ہوا۔ ہاں میں نے دیکھا وہ پہلے کی طرح چاق و چوبند تھا اور اس کی آواز کی گھن گرج بھی لوٹ آئی تھی۔ بس یہ واقعہ ہوا اور میں آپ کو بتانے آگیا۔‘‘

’’یار بھولے! تم نے تو آج کمال ہی کردیا‘‘ میں نے کہا۔

’’باس! آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آپ ہی تو کہتے ہیں یہ ہے کرنے کا کام، تو میں نے کردیا۔ میں نے کیا کمال کیا ہے، بولو باس۔‘‘

ہاں مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب وہ اسی طرح میرے پاس آیا تھا۔ وہ چین اسموکر ہے، بہت دیر تک خاموش رہا، تب مجھے تشویش ہوئی، میں نے پوچھا۔ ’’ کیا ہوا بھولے؟ ‘‘

’’کیا ہونا ہے باس! بے حسی ہے ہر طرف، ہر ایک جلدی میں ہے، آگے پیچھے کوئی نہیں دیکھتا بس بھاگا چلا جا رہا ہے۔‘‘

’’بند کر اپنی بکواس‘‘ میں نے اسے خاموش کرانا چاہا۔ لیکن وہ بولے چلا جارہا تھا ، اور اس کی آنکھیں مون سون کی طرح برس رہی تھیں۔

’’میں آج بہت پریشان ہوں باس! صبح میں گھر سے نکلا تو ڈیفنس سے سی ویو والی سڑک پر جا رہا تھا۔ ایک بلی سڑک کراس کررہی تھی۔ یار لوگوں نے اسے کچل ڈالا۔ حالاں کہ وہ بچ سکتی تھی۔ پہلے تو میں اس گاڑی والے کے پیچھے بھاگا، لیکن وہ بہت تیز رفتار تھا۔ پھر میں نے سوچا یار بھولے، اس بلی کا کیا کریں، غریب کو مار دیا ظالم نے۔ اب اس کی بے حرمتی ہوگی اور اس پر سے گاڑیاں گزر رہی ہوں گی۔ پھر دوسری بات بھی ذہن میں آئی کہ اس منظر کو دیکھ کر نجانے کتنے لوگوں کے دل خراب ہوں۔ بس پھر میں نے گاڑی ریورس کی اور اپنا کام کرکے آگیا۔‘‘

’’کیا کیا تو نے؟‘‘

’’باس کرنا کیا تھا، میں جب واپس آیا تو وہی ہوا جو میں نے سوچا تھا۔ گاڑیاں اس پر سے گزر رہی تھیں، میں نے اپنی گاڑی بیچ سڑک پارک کی۔ پارکنگ لائٹس کو آن کیا اور اس کے پاس بیٹھ کر پہلے تو اس سے معافی مانگی کہ اے معصوم بے گناہ، ہمیں معاف کردے، ہم سب جلدی میں ہیں، تجھے مار ڈالا ہم نے۔ ہم انسان، ہیں ہی ایسے۔ بس تو ہمیں معاف کردے، میں سب کی طرف سے تجھ سے معافی مانگتا ہوں۔ باس! آج تو میں وہاں بیٹھ کر بہت رویا۔ بہت مشکل ہوگئی تھی مجھے۔ میں نے آپ کا فون ملایا تو وہ بند تھا، مجھے اور غصہ آیا۔ پھر میرے دل میں آئی کہ اس پر مٹی ڈال دیتا ہوں۔ لیکن دل نہیں مانا پھر کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔

میں نے اپنی قمیص اتاری اور اس میں اسے سمیٹ کر باندھا اور پھر اسے اپنے لان میں جاکر دفنا دیا۔ اتنی بڑی سڑک ہے، سارے لوگ دوسری طرف سے گزر رہے تھے۔ ایک نے بہت ہارن بجائے۔ میں نے کہا،دوسری طرف سے چلا جا۔ وہ نہیں مانا۔ جب میں نے اسے اپنا رنگ دکھایا تو پھر معافی تلافی پر اتر آیا۔ گھر پہنچا تو بیوی کی سنیں کہ تم کیا آدمی ہو، آج ہی نیا سوٹ پہنا اور یہ کرکے آگئے۔ مجھے تو پہلے ہی تپ چڑھی ہوئی تھی، میں نے کہا، یہ میں نے خریدا تھا یا تو نے اور یہ قمیص اس بے زبان معصوم سے زیادہ قیمتی ہے کیا! اس کی بے حرمتی ہورہی تھی اور میں بس دیکھتا رہتا۔ کیا دنیا ہے باس! آج دل بہت اداس ہے تو آپ کے پاس چلا آیا۔‘‘

میں اسے دیکھتا رہا، ہاں بہت دیر تک … اور پھر اٹھ کر اسے گلے لگایا۔ وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ ’’باس! آپ مجھے پُرسا دے رہے ہو ناں۔ آج بہت ظلم ہوگیا باس، معصوم کو مار ڈالا ظالموں نے۔‘‘

کیا آدمی ہے ناں وہ! ہاں یہ کام ہے کرنے کا۔ وہ معصوم بلی کے لیے رو رہا تھا اور ہم لوگوں کو مارتے پھرتے ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ آپ کی زبان سے بھی تو لوگ گھائل ہوجاتے ہیں۔ ہاں میری دوستی ایسے ہی سر پھروں کے ساتھ ہے، بے کار لوگ۔ مجھے کسی بڑے پروجیکٹ پر کام نہیں کرنا۔ بس یہی چھوٹے چھوٹے سے کام کرنے ہیں۔ چھوٹا آدمی چھوٹا کام۔ بس یہی لفاظی آتی ہے مجھے۔ اور ہاں آپ کا وقت تو بہت قیمتی ہے ناں، مجھے احساس ہے۔ لیکن مجھے یہی آتا ہے، یہی کرتا ہوں۔ چاہے کوئی کچھ بھی کہتا رہے کہ ایسے ہی لوگ ہیں انسان ہم تو بس انسان کے نام پر اور سب کچھ ہوں گے پر انسان۔۔۔۔

آپ آباد رہیں، شاد رہیں، خوش رہیں۔

بس نام رہے گا اﷲ کا۔

چلو اچھا ہوا کام آگئی دیوانگی اپنی

وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔