(میڈیا واچ ڈاگ) - پاکستانی ’’زندگی‘‘ بھارت میں

وقار احمد شیخ  اتوار 22 جون 2014
پاکستانی ڈرامے اپنی بہترین کہانیوں اور تخلیق کے سبب ہر دور میں بھارتی ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

پاکستانی ڈرامے اپنی بہترین کہانیوں اور تخلیق کے سبب ہر دور میں بھارتی ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

جی ہاں اب پاکستانی زندگی بھارت میں جلوہ گر ہونے جارہی ہے۔ توقف کیجیے! ہماری مراد اس ’’زندگی‘‘ چینل سے ہے جو زی انٹرٹینمنٹ انٹرپرائزز لمیٹڈ یعنی زیل کے توسط سے 23 جون کو آن ایئر ہونے جارہا ہے۔ ’’زندگی‘‘ نام کا یہ چینل جس کا سلوگن ’’جوڑے دلوں کو‘‘ ہے پاکستانی ڈراموں اور شوز سے مزین ہوگا، اور حقیقتاً پاکستانی زندگی یعنی ہماری تہذیب و کلچر ڈراموں کی صورت بھارتی ناظرین تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوگا۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کرتے چلیں کہ نام کی مماثلت کی وجہ سے کچھ لوگ اس ابہام میں مبتلا ہیں کہ اس چینل کا تعلق پاکستانی نجی چینل سے ہے جبکہ یہ ایک مکمل بھارتی چینل ہے جس کا ہیڈ کوارٹر ممبئی میں ہے اور اس چینل پر نہ صرف پاکستانی ڈرامے اور شوز بلکہ مصر، ترکی اور لاطینی امریکا کے پروگرام بھی نشر کیے جائیں گے۔ زیل کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او پنیت گوئنکا کا کہنا ہے کہ چینل پر مشترکہ پروڈکشن سے تیار کیے گئے ڈرامے بھی پیش کیے جائیں گے جن پر کام چل رہا ہے۔

بھارتی چینل ’’زندگی‘‘ پر پہلے دن 4 پاکستانی شو جو ٹیلی کاسٹ ہوں گے ان میں ’’زندگی گلزار ہے‘‘ ، ’’عون زارا‘‘ ، ’’کتنی گرہیں باقی ہیں‘‘ اور ’’کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی‘‘ شامل ہیں۔ جبکہ دیگر آنے والے پروگراموں میں شہر ذات، داستان، دوراہا، میری ذات ذرہ بے نشان، مات، اڑان، میں عبدالقادر ہوں، ایک نئی سینڈریلا، دل مضطر، ہم سفر، پیارے افضل، پارسا، خدا اور محبت، اور مشہور کامیڈی ڈراما سیریلز قدوسی صاحب کی بیوہ، بلبلے، ہلکا نہ لو، کس کی آئے گی بارات، کس دن میرا ویاہ ہووے گا اور محبت جائے بھاڑ میں، شامل کیے گئے ہیں۔

فن اور فنکار سرحدوں میں باندھے یا بانٹے نہیں جاسکتے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ڈرامے اپنی بہترین کہانیوں اور تخلیق کے سبب ہر دور میں بھارتی ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب پاکستان کے واحد ٹی وی چینل پی ٹی وی کے ڈراموں کا سحر بھارتی ناظرین کے سر چڑھ کر بولتا تھا۔ نئی پود ہمارے اس سنہری دور سے یکسر ناواقف ہے لیکن اعتراض کرنے والوں نے نئی نسل کو ہماری روایات سے آگاہ بھی نہیں رکھا۔

آج جو ہمارے بزرگ بھارتی چینلز کے ذریعے انڈین ثقافت کی یلغار کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں، کبھی انھوں نے بھی اپنے بچوں کو نہیں بتایا کہ ستر، اسی یہاں تک کہ نوے کی دہائی میں بھی پاکستان نے کیا شاہکار ڈرامے تخلیق کیے، چاہے وہ ’’شمع‘‘ ہو یا ’’انکل عرفی‘‘ ’’شہزوری‘‘ ’’ان کہی‘‘ ’’وارث‘‘ ’’دیواریں‘‘ ’’جنگل‘‘ ’’جانگلوس‘‘ نیز ایک لمبی فہرست ہے جو اگر گنوانے لگیں تو یہ کالم صرف ڈراموں کے ناموں پر مشتمل بن جائے۔ ہمارے ڈراموں کی خاصیت ان کا سادہ پن اور حقیقت سے قریب ترین معاشرتی کہانیوں کا ہونا تھا۔ آج کا دور گلیمرس کا ایک ملمع چڑھائے اس طرح کی لایعنی اور ماورائی کہانیاں پیش کررہا ہے جس میں ناظرین کچھ دیر کے لیے کھو تو ضرور جاتے ہیں لیکن کہانیوں کا جھوٹا پن انھیں جلد ہی ان ڈراموں سے بے زار کردیتا ہے، خاص کر بھارتی ڈیلی سوپ میں پیش کی جانے والی کہانیاں اور گلیمرس خود وہاں کے ناظرین سے ہضم نہیں ہوتا، جہاں ہر ڈرامے میں اربوں کھربوں کا بزنس کرنے والی فیملیز دکھائی جاتی ہیں اور گائوں کی ان پڑھ لڑکی کو ان کروڑ پتیوں کی بہو کے روپ میں پیش کرکے عام عورت کے جذبات کو اشتہا دی جاتی ہے کہ وہ بھی اس طرح امیر فیملی میں شامل ہوسکتی ہے۔

ساس، بہوؤں اور خاندانی رشتوں میں چپقلش اور سازشوں کے وہ پینترے دکھائے جاتے ہیں کہ سیاست بھی کیا ہوگی۔ بھارتی ڈراموں کا جو سب سے منفی پہلو ہے وہ ان کا طویل تر اور برسوں پر محیط ہونا ہے، جس کے باعث کہانی نویس کے پاس جاندار موضوع باقی نہیں رہتا، مجبوراً ادھر ادھر کی لایعنی باتوں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ بھلا بتائیے ہر ڈرامے میں جب مرکزی کردار مرجاتا ہے تو کچھ اقساط بعد اس کی زندگی کی نوید ملتی ہے، یا دوسرا جنم اور سب سے بڑھ کر پلاسٹک سرجری کی اصطلاح استعمال کرکے اسے ایک نئے چہرے کے ساتھ پیش کردیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو سنجیدہ ناظرین بھی تنقید پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ پلاسٹک سرجری سے چہرہ تبدیل کرنا تو سمجھ آتا ہے، کردار کا قد کاٹھ اور انداز کیسے تبدیل ہوسکتا ہے۔

لیکن جب بات پاکستانی ڈراموں کی ہو تو یہاں کے ڈرامے سہ ماہی یا ششماہی بنیاد پر تیار کیے جاتے ہیں اور جب کہانی اپنے اصل اسکرپٹ کے مطابق ختم ہوجاتی ہے تو اسے زبردستی آگے دھکیلنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ اور بات ہے کہ ڈرامہ چینلز کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کچھ لوگوں نے بھارتی ڈراموں کی نقالی بھی شروع کی اور اسی طرح کے ڈیلی سوپ بنائے جو ہماری ثقافت اور کلچر سے ذرا میل نہیں کھاتے لیکن خود پاکستانی ناظرین کی طرف سے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ بھارتی چینل ’’زندگی‘‘ پاک بھارت کے درمیان دوستی اور امن کی نئی راہیں ہموار کرے گا۔ اور دونوں جانب کے عوام کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔ تاہم پروڈکشن ہائوسز کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ’’زندگی‘‘ پر اپنے ڈرامے پیش کرنے کا معاہدہ پیسوں کے لیے نہیں بلکہ ملکی وقار کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیا جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔