سماجی زوال پر بات کون کرے!

رئیس فاطمہ  ہفتہ 21 جون 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

پاکستانی معاشرہ جن عذابوں سے گزر رہا ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ بظاہر اپوزیشن لیڈر، مذہبی جماعتوں کے ایجنڈے کو نفرت اور تشدد پر ابھارنے والے ورکر جن کا کام ہی یہ ہے کہ ہر قیمت پر گروہی، مذہبی، مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر بھڑکتی آگ کے تیز و تند شعلوں میں تبدیل کیا جائے، عوامی، عسکری اور منتخب حکومتوں کے درمیان کس طرح بداعتمادی کی فضا پیدا کی جائے کہ اپنا ٹارگٹ حاصل ہو سکے۔

من پسند جرنیلوں، افسروں، صدور اور وزرائے اعظم کے لیے مخبری اور جاسوسی کر کے اپنی فتح کا جھنڈا بلند کرنیوالے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوانے کے بعد اب کسی نئے گیم کی پلاننگ میں مصروف ہیں لیکن ہم اور آپ یعنی وہ لوگ جو ان تمام منفی رویوں کو ناپسند کرتے ہیں وہ بھی ان ہی بہروپیوں، نقالوں اور کرائے کے قاتلوں اور بلیک میلرز کو مسلسل ٹیلی ویژن اسکرین پہ دیکھ دیکھ کر یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ اگر الیکٹرانک میڈیا جو یقینا ایک بہت ہی پاور فل ذریعہ اظہار ہے اس نے بھی دباؤ اور ریٹنگ کے چکر میں پڑ کے اگر ان ہی بہروپیوں اور سدھائے گئے طوطوں کو ہی افلاطون اور سقراط ثانی ثابت کرنا ہے تو پھر اس کے پالیسی میکرز کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کا بیڑہ کیوں غرق ہوا، ’’جگا ڈاکو، مولا جٹ اور گجر دا پتر‘‘ جیسی فلموں نے۔ چونکہ یہی لوگ فلم ساز بھی تھے۔ ڈائریکٹر بھی تھے، ہیرو بھی تھے، ولن بھی تھے۔

اس لیے اداکار، ان کی بات ماننے پہ مجبور تھے۔ یہ صرف فلم کا زوال نہیں بلکہ تہذیب کا زوال بھی تھا۔ پردہ فلم پر کلاشنکوف، گنڈاسہ، بغدا اور ہتھوڑوں نے بہت عرصے تک ایک خاص مزاج کے ناظرین کو سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی، انجمن اور دیگر اسی قبیل کے اداکاروں اور اداکاراؤں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ آپ لوگوں کو بار بار ایک ہی نشہ مختلف ناموں سے فروخت کر کے بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ جوں ہی نقلی اور جعلی مال کے مقابلے میں اصلی اور معیاری شے سامنے آئے گی لوگ اسی کی طرف لپکیں گے۔ پہلے انڈین فلمیں اور ڈرامے اور اب ترکی اور اسپین کے مقصدی ڈراموں نے ناظرین کو یوں ہی تو گرویدہ نہیں بنا لیا؟ کبھی کسی نے غور کیا کہ دیگر سماجی برائیوں میں سب سے زیادہ جو منفی رویہ فروغ پا رہا ہے وہ ہر غلط بات اور غلط حرکت پہ خود کو صحیح ثابت کرنے کا تشویش ناک رویہ ہے۔ افسوس اس بات کا بہت زیادہ ہے کہ یہ منفی اور پرتشدد رویہ زیادہ تر نوجوان نسل کا مزاج بن گیا ہے۔

صرف چند مثالیں دینا چاہوں گی تا کہ بات واضح ہو سکے۔ یہ کسی ایک شہر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر، ہر قصبہ اور علاقے اس کی زد میں ہے لیکن بڑے شہروں میں یہ رجحان زیادہ ہے اور ہر طبقے کا فرد اس میں شامل ہے۔ اگر غلطی سے آپ نے ٹوک دیا تو آپ کو وہ بے نقط کی سننی پڑیں گی کہ سوائے دانتوں تلے انگلی دبانے کے کوئی چارہ نہیں۔ سب سے پہلے دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مثال۔ اسلام آباد سے کراچی جانیوالی فلائٹ میں ہماری نشستوں کے بالکل پیچھے والی سیٹوں پہ ایک پریمی جوڑا بیٹھا تھا، دونوں بیٹھتے ہی زور زور سے باتیں کرنے لگے۔ ٹیک آف ہونے میں خاصا وقت تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی چیز میرے بازو سے ٹکرائی۔ مڑ کر دیکھا تو مہندی اور پازیب سے مزین ایک پیر نہایت بے تکلفی سے رکھا ہوا تھا، میں نے کھڑے ہو کر اسٹیورڈ کو بلایا اور توجہ دلائی۔ ساتھ کھڑی ایئرہوسٹس نے جب اس نیک بی بی کو تنبیہہ کی تو وہ ایک ادا سے بولی ’’مجھے تو ایسے ہی بیٹھنے کی عادت ہے‘‘۔

دوسرا منظر لاہور سے اسلام آباد جانیوالی لگژری بس کا ہے۔ ہماری سیٹوں کے دوسری طرف ایک سیٹ پر ایک فیشن ایبل ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی موبائل فون پر زور زور سے باتیں کر رہی تھیں۔ ان کی دو ساتھی خواتین ہمارے آگے والی نشستوں پہ براجمان تھیں۔ وہ سب زور زور سے خاندانی بھید کھول رہی تھیں، انھیں اردگرد کے لوگوں کا کوئی خیال نہیں تھا۔ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر دوپٹہ سر پہ سختی سے لپیٹ لیا، کہ تیز آوازوں سے میرے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ بس کی میزبان کو اپنے فرائض کا بالکل احساس نہیں تھا، وہ ہیڈ فون لگائے موسیقی سننے میں مست تھی۔ جب خواتین کی آوازیں مزید بلند ہونے لگیں تو مسافروں میں بے چینی شروع ہوئی۔

ایک صاحب نے ہمت کی اور کی میزبان کو آواز لگا کر بلایا اور زور سے کہا کہ وہ ان عورتوں کو خاموش کروائے جب سے سوار ہوئی ہیں بولے چلی جا رہی ہیں۔ میزبان نے جا کر انھیں خاموش رہنے کو کہا تو تینوں ایک دم آپے سے باہر ہو گئیں کہ انھوں نے ٹکٹ خریدا ہے لہٰذا انھیں باتیں کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تب کسی نے کہا کہ ٹکٹ تو سب ہی نے خریدا ہے۔ ٹکٹ خرید کر آپ کو لائسنس مل گیا کہ تمام مسافروں کو تنگ کریں لیکن تینوں عورتیں نہ اپنے رویے پہ نادم تھیں نہ ہی انھوں نے بات کرنا چھوڑا۔ تب میں نے ان سے التجا کی کہ خدارا بقیہ باتیں گھر جا کر کر لیجیے گا کہ ان کی تیز چبھتی ہوئی آوازوں سے میرا سر دکھنے لگا تھا لیکن بے سود اور اب میٹروپولیٹن شہر کراچی کا حال کیا بتاؤں کہ یہاں ہر آدمی کا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے۔ کسی غلط حرکت پہ ٹوکیے اور دیکھے کہ کیا ہوتا ہے۔ منفی رویوں اور غلط حرکات پہ نادم ہونے کے بجائے وہ ہر طرح خود کو صحیح ثابت کرنے پہ تلے ہوتے ہیں۔

رہی سہی کسر فلائی اوورز نے پوری کر دی ہے جن کی وجہ سے ٹریفک کا اب کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ پولیس کی مٹھی میں صرف 20 روپے تھما کر جہاں جی چاہے نکل جاؤ۔ ون وے سڑک پر دو طرفہ رکشے، بسیں، کوچز، چنگ چی اور موٹر سائیکلیں بلا خوف و خطر آتی جاتی ہیں۔ آپ ذرا کسی کو احساس دلائیں کہ آپ غلط سمت سے آ رہے ہیں تو وہ فوراً دو چار اور لوگوں کی مثال دے کر کہے گا کہ وہ بھی تو غلط جا رہے ہیں تو میں کیوں نہ جاؤں۔ یہ عجیب و غریب رویہ ہے کہ لوگ غلط لوگوں کی مثال دیتے ہیں، کوئی نہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے نہ ان لوگوں کی مثال دیتا ہے جو صحیح سمت سے آ جا رہے ہیں، سگنل پہ رک رہے ہیں، غلط جگہ پارکنگ نہیں کر رہے ۔

آپ مارکیٹ میں کہیں بھی کھڑے ہوں، جگہ کتنی ہی تنگ کیوں نہ ہو کوئی بھی کار والا یا موٹرسائیکل والا گاڑی آڑی ترچھی کھڑی کر کے نکل جائیگا، بغیر یہ احساس کیے کہ اس طرح ٹریفک جام ہو جائیگا اور اگر کسی ذمے دار شہری نے غلط پارکنگ کرنے سے منع کیا تو وہ اسی پر چڑھ دوڑے گا کہ اور گاڑیاں بھی تو کھڑی ہیں پھر وہ کیوں نہ کھڑی کرے۔ الیٹرانک میڈیا کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کی طرف بھی توجہ دے کہ لوگ غلط کام کرنے والوں کو مثال کیوں بنا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خرابی اوپر سے آتی ہے۔ حکمرانوں نے جب قانون کو پیر کی جوتی سمجھ رکھا ہو، لینڈ مافیا کی سرپرستی بڑے بڑے وڈیرے اور سیاست دان کر رہے ہوں تو عام آدمی بھی ان ہی کی تقلید کریگا کہ بادشاہ اگر چٹکی بھر نمک بھی مفت حاصل کریگا تو رعایا اسی کی مثال دے کر پوری بوری ہڑپ کر جائے گی۔

ایک بار پھر میڈیا گروپس سے درخواست کروں گی کہ کچھ توجہ ادھر بھی کیجیے کہ لوگوں میں قوت برداشت کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ نہ بڑوں کا احترام ہے نہ کسی کی عزت کا خیال۔ ہر شخص خود کو طرم خان سمجھتا ہے۔ کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے طرز عمل سے اور طرز حکومت سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ قانون کی گرفت صرف غریبوں تک ہے۔ جو قانون خرید سکتا ہے وہی بادشاہ ہے۔ دولت، طاقت اور تشدد تینوں آج کامیابی کی کنجی ہیں۔ لیکن ان برائیوں اور سماجی زوال پہ بات کون کرے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔