آہ! یاور امان

نسیم انجم  ہفتہ 21 جون 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

آج کا دن بے حد اداس اور ویران سا تھا اس کی وجہ یاور امان تھے جو میرے بڑے بھائیوں جیسے تھے اس دنیائے آب وگل سے رخصت ہوگئے تھے، وہ کافی دن سے علیل تھے، اسپتال جاتے، داخل ہوتے اور صحت مند ہوکر گھر لوٹ آتے، لیکن اس دفعہ قضا ان کے انتظار میں تھی، 17 جون 2014 کی صبح وہ تمام دکھوں سے آزاد ہوگئے مجھے اے خیام صاحب نے میسج کرکے اطلاع دی تھی اور میسج پڑھ کر میرے اندر سے کئی چیخیں بلند ہوتے ہوتے رہ گئیں اور کچھ دیر صدمے کی کیفیت میں رہی اور پھر ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے بیٹھ گئی۔

یاور امان کا شمار بڑے شعرا میں ہوتا تھا وہ قادر الکلام شاعر تھے کھرا اور سچا لہجہ ان کی شناخت تھا ان کی گفتگو میں حق پنہاں تھا۔ کسی کی کوئی تحریر پسند نہ آتی تو اس کا اظہار بڑی بے باکی سے کردیتے غالباً وہ آخری بار مماثلات اسرار کی تقریب میں شریک ہوئے تھے جسے زیب اذکار اور ان کے ساتھیوں نے ذوالفقارگادھی کی کتابوں کی تقریب رونمائی کے لیے سجایا تھا۔

یاور امان کا اوڑھنا بچھونا شعروسخن تھا، انھوں نے غم بھی اٹھائے اور سکھ بھی ملا۔ ابتدائی زمانے میں افسانے بھی لکھے بے شمار افسانوں اور کہانیوں کے تراجم کیے، ان کی حال ہی میں ایک کتاب آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس سے شایع ہوئی عنوان تھا ’’ادھوری یادیں‘‘ یہ بنگالی کہانیوں کا ترجمہ تھا۔ اس سے قبل ان کا شعری مجموعہ ’’انہدام‘‘ شایع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے اور ناقدین و قارئین میں مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔

ان کی سوچ و فکر ان کی شاعری میں نمایاں ہے ’’انہدام‘‘ میڈیا گرافکس سے شایع ہوا تھا۔ 312 صفحات پر یہ شعری مجموعہ مشتمل ہے ۔کتاب پر ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، علی حیدر ملک ، الیاس احمد کی آرا موجود ہیں سرورق کے بیک پر ایک بڑا خوبصورت شعر درج ہے۔

جوانی دور پیچھے رہ گئی ہے
میں ڈھلتی عمر کا جغرافیہ ہوں

یاور امان کی شاعری کے بارے میں پروفیسر علی حیدر ملک کہتے ہیں کہ ’’یاور امان کی شاعری بنگلہ دیش کی ہم عمر ہے، مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے پہلے نہ تو وہ یاور امان تھے اور نہ ہی شاعر، تاہم قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ بہرحال اس وقت بھی قائم تھا اس وقت وہ امان ہرگانوی کے نام سے جانے جاتے، افسانے و مضامین لکھتے اور ہندی وبنگالی ادب پاروں کے ترجمے کیا کرتے تھے، علاوہ ازیں بحیثیت صحافی اخبارات خصوصاً ہفت روزہ ’’قوم‘‘ کھلنا اور روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی کے لیے خبریں رپورٹس اور فیچر وغیرہ بھی تحریر کرتے تھے۔‘‘

بنگلہ دیش بننے کے بعد انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے مطالعے کو اپنے رہبر بنایا اور غزلیں کہہ کر چند قریبی بزرگوں کو سنانے لگے جن میں نوشاد نوری اور احمد الیاس سب سے زیادہ نمایاں تھے، انھوں نے اردو شاعری کے اساتذہ، اپنے پیش روؤں اور اپنے ہم عصروں کا مطالعہ اور ان سے استفادہ ضرور کیا ہے لیکن کسی کی چھاپ اپنے اوپر نہیں لگنے دی۔

یاور امان نے اپنے مضمون ’’من آنم کہ من دانم‘‘ میں لکھا ہے کہ میں علی حیدر ملک کی رہنمائی میں افسانے لکھنے کی طرف مائل ہوا اور میرا پہلا افسانہ لاہور سے شایع ہوا، ابتدا میں میرے افسانے قلمی و نیم ادبی جرائد میں شایع ہوتے رہے، پھر آہستہ آہستہ قلمی جریدوں سے نکل کر ادبی جریدوں کی طرف رجوع کیا۔ ان کی گفتگو اور مضمون سے اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھوں نے زندگی کے ابتدائی دنوں سے ہی جدوجہد کی ، ساتھ میں سقوط مشرقی پاکستان نے پورا وجود زخمی کردیا اور بے شمار دکھ اٹھانے پڑے۔

زندگی ہر شخص کو آزمائش اور غموں میں مبتلا کرتی ہے کسی کی قسمت میں کم اور کسی کے نصیب میں بے شمار اور آزمائشیں لکھ دی جاتی ہیں، تخلیق کار کا غم، درد اس کی تحریروں میں جگہ بنالیتا ہے۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات اور اپنے اوپر بیتنے والے غم کو تحریر کے سانچے میں مختلف شکلوں میں منتقل کردیتا ہے۔

یاور امان اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن وہ اپنی تحریروں کے حوالے سے زندہ سلامت ہیں ان کی شاعری اور تصویر ان سے محبت و عزت کرنے والوں کو خون کے آنسو رلانے پر مجبور کر رہی ہے۔

عجب ناپختہ بود و باش کے منظر بناتا ہوں
لکیریں کھینچتا ہوں ریت پر میں گھر بناتا ہوں
دکھاوے کے لیے کچھ اور ہوتا ہے مرا چہرہ
چھپا رہتا ہے جس کو جسم کے اندر بناتا ہوں
میں اپنا کام کرتا ہوں وہ اپنا کام کرتے ہیں
وہ سنگ رہ بناتے ہیں میں تیشہ گر بناتا ہوں
ایک اور غزل کے چند شعر:
پہلے تو مرے گھر کا اک نقشہ بنا دینا
ہوجائے مکمل تو ’’لاکر‘‘ میں سجا دینا
یہ جسم ہے مٹی کا مٹی ہی رہے سائیں
کیا چاند ستاروں کی پھر اس کو قبا دینا
گو دور نہیں مسجد پر یہ بھی عبادت ہے
روتے ہوئے بچے کو کچھ دیر ہنسا دینا

یاور امان بہت سی خوبیوں کے مالک تھے جس سے ملتے نہایت خلوص کے ساتھ، منافقت اور کینہ پروری ان کے مزاج سے بہت دور تھی صاف اور سچی بات کہنے میں ہر گز تکلف نہ برتتے تھے، میں سمجھتی ہوں منافقت کرنے والوں سے ایسے لوگ بے حد اچھے ہوتے ہیں جو کم ازکم منہ دکھاوے کی بات نہیں کرتے ہیں جب کہ اس کے برعکس محفل میں بیٹھ کر جو لوگ جس شخص کی تعریف میں قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں، ان کے جانے کے بعد بغیر کسی شرمندگی یا جھجک کے اس کی ’’ہجو‘‘ شروع کردیتے ہیں اور دل کھول کر اپنے دل کا بغض و عناد نکالتے ہیں، دانا و بینا حضرات ایسے لوگوں سے ہوشیار ہوجاتے ہیں، لیکن اکثریت منافقوں کی ہے، تحریر میں کچھ ہے اور بان کچھ کہہ رہی ہے۔ بہرحال اللہ محفوظ رکھے ان بلاؤں سے۔ یعنی حسد اور بغض وعناد سے۔

اتفاق ایسا ہے کہ ان دنوں میری طبیعت کافی عرصے سے خراب ہے۔ نزلہ، زکام، بخار، لکھنے پڑھنے کا کام نہ ہونے کے برابر اس ہفتے کالم بھی نہ آتا، لیکن یاور امان کی اچانک موت نے جہاں بہت بڑا صدمہ پہنچایا وہاں میرے ہاتھ میں قلم بھی تھمادیا، میرے ان سے سالہا سال سے تعلقات تھے، انھوں نے میرے ناول ’’ٹرک‘‘ پر بے حد وقیع مضمون لکھا، پڑھا اور پاکستان و انڈیا کے رسالے ’’مژگاں‘‘ میں اشاعت کے لیے دیا اور جب چھپ کر آگیا، تب انھوں نے پرچہ تحفتاً دیا۔

امان بھائی نے میری کتاب ’’خاک میں صورتیں‘‘ اور ’’اردو شاعری میں تصور زن‘‘ کو پسند کیا اور مضمون لکھنے کا وعدہ کیا لیکن بار بار بیمار ہوجانے کی وجہ سے وہ اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے، ہوسکتا ہے کہ مضمون لکھ چکے ہوں میری 15 دن یا پھر ماہ دو ماہ بعد ان سے تفصیلی گفتگو ہوتی وہ اپنے دکھ بیماری کی باتیں کیا کرتے کہ مرتے مرتے بچے ہیں ، لیکن اس بار وہ خواب میں ضرور کہیں گے کہ وہ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں بچ نہ سکے، جانا تو تھا ہی لیکن خوش ہیں کہ انھوں نے بہت سے کام کرلیے تھے کچھ باقی تھے، لیکن کام تو ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ اقبال کی اس دعا کے ساتھ اپنے بہت اچھے بھائی ، بہت اچھے انسان سے اور امان سے اجازت چاہتی ہوں۔

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔