پارلیمنٹ اور میڈیا کی وڈیو گیمز

اوریا مقبول جان  پير 23 جون 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

موجودہ جمہوری ریاستی نظام کا کمال یہ ہے کہ سب یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ قومی اتفاق رائے کا اظہار دو طریقوں سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ پارلیمنٹ کے منتخب ارکان اگر متفقہ طور پر ایک فیصلہ کر لیں تو اسے عوام کی امنگوں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر میڈیا اپنے چند تجزیہ نگاروں کی گفتگو‘ یک طرفہ رپورٹوں اور مخصوص ایجنڈے کے تحت کسی کو مجرم‘ دہشت گرد اور امن کے لیے خطرہ قرار دے کر اس کے خلاف اس بات کا بار بار اعلان کرے کہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ ان کے وجود سے دنیا کو پاک کیا جائے تو اسے عالمی‘ یا قومی اتفاق رائے سمجھ لیا جاتا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اس سارے کھیل میں ایک اور غیر انسانی عنصر شامل ہوچکا ہے جس نے میڈیا دیکھنے والوں کو بے حس اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے عاری بنا دیا ہے۔ اس کا پہلا اظہار عراق کی پہلی جنگ تھی جسے دنیا بھر میں ڈش انٹینا کے ذریعے دکھایا گیا تھا۔ یہ جنگ نہیں‘ بلکہ دیکھنے والوں کے لیے ایک وڈیو گیم نظر آتی تھی۔ ایک ایسی وڈیو گیم جس میں ایک ہنستے بستے شہر پر فضائوں میں لہراتے‘ بل کھاتے اور تیز رفتاریاں دکھاتے جہاز آگ کے گولے برساتے تھے اور کئی منزلہ عمارتیں شعلوںکی لپیٹ میں آ جاتی تھیں۔

دیکھنے والوں کی ساری توجہ ان جہازوں کے ٹھیک ٹھیک نشانوں پر ہوتی ہے اور ان کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ان عمارتوں میں سانس لیتے‘ جیتے جاگتے‘ سہمے ہوئے انسان بھی ہوں گے۔ خوف سے اپنے والدین کی گود میں سمٹے ہوئے بچے اور موت کو اپنی جانب بڑھتے مرد اور عورتیں بھی۔ جنگ کی اس وڈیو گیم کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس میں جہازوں کی گڑ گڑاہٹ‘ بمووں کا شور اور میزائلوں کی سنساہٹ اسقدر ہوتی ہے کہ نہ زخمی ہونے والوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی موت کی آغوش میں جانے والے لوگ۔ دنیا بھر کے میڈیا کی کیا عجیب اخلاقیات ہے کہ وہ حملہ آوروں کو دکھاتا ہے‘ جہاز‘ ٹینک‘ توپیں اور بندوقیں تو آگ برساتی دکھائی جاتی ہیں لیکن ان کے نتیجے میں مرنے والوں کی لاشیں نہیں دکھائی جاتی۔

ایسا کرنے کو میڈیا کی اخلاقیات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے یہMORBID یعنی دل دہلا دینے والے اور لوگوں کا سکون بربادکرنے والے مناظر ہیں۔ ان کا دکھایا جانا میڈیا اخلاقیات کے منافی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس ساری کارروائی کو ایک شاندار ہالی ووڈ فلم کی طرح دیکھیں اور پھر مزے کی نیند سو جائیں۔عراق کی اس پہلی جنگ کے بعد جہاں کہیں بھی ایسی کارروائی کی گئی ‘اسے اسی طرح وڈیو گیم کی طرح دکھایا گیا اور دنیا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ چند طاقتور ریاستیں چھوٹی ریاستوں کو کیسے تہہ و بالا کرتی ہیں اور چھوٹی ریاستیں کیسے عوام کے گھر‘ بستیاں اور شہر کھنڈر بنا دیتی ہیں۔

لیکن اس سارے کھیل میں سب سے مضحکہ خیز لفظ عالمی یا قومی اتفاق رائے ہے۔ عالمی اتفاق رائے یہ ہے کہ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین‘ نیٹو یا چند اور ممالک مل کر کسی ایک ملک کو امن کے لیے خطرہ قرار دیں‘ اسے دہشتگرد کہیں اور پھر یہ کہہ کر اس پر چڑھ دوڑیں کہ اس دنیا میں بسنے والے سات ارب عوام کا عالمی ضمیر اس کی حمایت میں متفق ہے اور یہ عالمی برادری کا فیصلہ ہے۔ یہ ایسی بربریت تھی کہ جس پر ان ظالم اقوام کے اپنے لوگ بھی متفق نہیں تھے۔

جب برطانیہ چرچل کے زمانے میں جرمنی سے جنگ کر رہا تھا تو پورے ملک میں شاید ہی کوئی شہری ہو جو اس جنگ کے خلاف ہو لیکن عراق پر حملے کے خلاف تو صرف برطانیہ نہیں بلکہ پورا یورپ سڑکوں پر نکل آیا تھا ۔لیکن پھر بھی عالمی رائے عامہ‘ عالمی ضمیر اور عالمی برادری نے کہا کہ یہ پوری دنیا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا کو دہشت گردوں اور امن کے دشمنوں سے پاک کیا جائے۔ یہ سب کے سب دنیا کو دہشت گردوں سے پاک کرنے چلے تھے اور آج پوری دنیا کی جو حالت ہے‘ اس نے خوف کے سائے اور لمبے کر دیے ہیں۔

عالمی برادری کے اتفاق رائے اور میڈیا کے بھروسے پر جنم لینے والے اس تصور کا یہ طریقہ ان تمام ریاستوں نے بھی آزمایا جو اس عالمی غنڈہ گردی کا شکار ہوئیں۔ ان عالمی غنڈوں نے سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے ظلم و بربریت سے ایک طرف تو اپنے خلاف جدوجہد کرنے والے اور لڑنے والے پیدا کیے جنہوں نے اسی طرح سرحدوں کو روند ڈالا جیسے ان عالمی غنڈوں نے کیا تھا لیکن دوسری جانب انھوں نے ریاستوں کو یہ حکم صادر کیا کہ تم ان لوگوں کا اسی طرح قلع قمع کرو جیسے ہم نے کیاتھا۔ یہ سب ریاستیں اس نام نہاد ’’عالمی ضمیر‘‘ اور ’’عالمی اتفاق رائے‘‘ کا حصہ بن گئیں۔

انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ یہ خونی پودا تو اسی بیج سے تناور درخت بنا ہے۔ وہ جنگ جسے ان طاقتوں نے ایک عالمی جنگ کہا تھا ان ریاستوں نے کسقدر خوشی سے اسے اپنے گلے کا ہار بنا لیا۔ اس کو اسی طرح ’’عوامی اتفاق‘‘ رائے اور میڈیا کے زور پر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ آگ اب ہماری ہے اور ہم نے ہی اس سے کھیلنا ہے۔ یہ ہماری ریاست میں لگی ہوئی آگ ہے اوراسے بجھانا ہے۔ لیکن ان کو اندازہ تک نہ تھا کہ ریاست کی سرحدیں توکب کی پامال ہو چکیں۔ دوسری جانب لڑنے والے بھی جانتے تھے کہ یہ جنگ کس کی ہے اور ان تمام ملکوں اور ریاستوں کا آپس میں کیا گٹھ جوڑ ہے۔

تمام تکنیکی مدد‘ سٹلائٹ کی سہولت‘ اسلحے کی ترسیل‘ جنگ لڑنے والوں کی تربیت‘ یہاں تک کہ ماہرین تک کی موجودگی کسی کی آنکھ سے چھپی ہوئی نہ تھی۔ یہ سب لوگ عراق‘ افغانستان‘ یمن‘ مصر‘ شام‘ پاکستان اور دیگر ملکوں کے خیرخواہ نہ تھے یہ تو اس جنگ میں اپنے اہداف لے کر آئے تھے۔ انھوں نے گزشتہ تیس سال چیچنیا‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ فلسطین‘ بوسنیا‘ یمن‘ صومالیہ‘ افغانستان اور عراق جیسے ممالک میں خون کی ہولی کھیلی تھی۔یہ سب ایک بات پر متفق تھے کہ دنیا میں جہاں کہیں کوئی ایسا مسلمان نظر آئے جو ان کے’’لائف اسٹائل‘‘ اور ان کی بنائی ہوئی دنیا کے اصولوں سے متفق نہ ہو اسے بدنام بھی کرنا ہے اور پھر بدنام کرنے کے بعد نیست و نابود بھی کرنا۔

جب یہ سب ریاستیں اسلحہ تکنیکی و مالی مدد اور تربیت کے حوالے سے متفق ہو گئیں تو ان کے مقابل لڑنے والوں کا متفق ہونا بھی لازم تھا۔ ان کے لیے جہاں میدان جنگ میسر آیا وہ لڑنے لگے۔ ازبکستان والے پاکستان اور پاکستان والے عراق۔ افغانستان والے یمن اور یمن والے شام۔لیکن ان ریاستوں نے جب علیحدہ علیحدہ اپنے ملکوں میں جنگ کا اعلان کیا تو طریقہ کار وہی اپنایا۔ تمام سیاسی لیڈر شپ متفق ہے‘ اس لیے قومی اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ اب ہم نے اس جنگ میں کودنا ہے۔ عراق‘ افغانستان‘ شام اور پاکستان ‘سب جگہ یہی تو پیمانہ تھا۔ اس کے بعد میڈیا کی وڈیو گیمز شروع ہوئیں۔

آپ کسی بھی ملک کے ٹی وی چینل اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو سنسناتے ہوئے جہاز‘ گولے برساتے ٹینک اور عمارتوں پر گرتے ہوئے ٹینک نظر آئیں گے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ریاست کی طاقت کس طرح دشمنوں کو ملیامیٹ کر سکتی ہے ۔لیکن اس کے نتیجے میں مرنے والے کسی شخص کی لاش دکھانا میڈیا کے نزدیک جرم ہے کہ یہ ایک Morbid امیج ہے۔ کس قدر خوش فہم ہیں یہ سب لوگ کہ ایک عالمی سطح کی چھیڑی گئی جنگ کو ریاستوں کے باہمی اتحاد سے ختم کر سکتے ہیں۔ ایسی جنگیں 50 لوگوں کو قتل کرتی ہیں لیکن پچاس لاکھ لوگوں کو دربدر۔ یہ دربدر لوگ اپنے اندر ایک کہانی لیے پھرتے ہیں اور اس کہانی سے پچاس لوگ اور مرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

چرچل جب دوسری جنگ عظیم لڑ رہا تھا تو برطانیہ کے چائے خانوں سے لے کر گھروں کی محفلوں تک ہر کوئی اسی جنگ کا تذکرہ کرتا تھا اور اسے جیتنے کی دعائیں بھی ‘لیکن جب ٹونی بلیئر عراق پر حملہ آور تھا تو برطانوی عوام نے اس کے خلاف ایک مظاہرہ کیا اور پھر جب یہ محسوس کیا کہ ان کی حکومت ان کی نہیں مان رہی تو وہ خاموش ہو گئے۔ صرف دو جگہ اس کا تذکرہ ہوتا رہا‘ پارلیمنٹ اور میڈیا۔

پاکستان جب 65ء میں جنگ لڑ رہا تھا تو اس کے لیے کسی قومی اتفاق رائے کے لیے پارلیمنٹ کی قرار داد کی یا آل پارٹی کانفرنس کی ضرورت نہ پڑی۔ گلی محلے میں ہر کوئی یہ کہتا پھرتا تھا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس لیے کہ لوگوں کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ یہ ہماری جنگ ہے۔ آج کراچی سے خیبر تک کیا کسی گلی محلے‘ چائے خانے یا عام محفل میں دہشت گردی کے خلاف اس کا تذکرہ ہوتا ہے‘ نہیں۔ سب کسی اور دھن میں مگن ہیں۔ سب کو اپنی پڑی ہے۔ لیکن دو جگہ ایسی ہیں جہاں اسی قومی اتفاق رائے کا چرچا ہے‘ پارلیمنٹ اور میڈیا کی وڈیو گیمز۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔