کیا کچھ ہونے کو ہے؟

مقتدا منصور  پير 23 جون 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جس روز یہ اظہاریہ شایع ہو گا، طاہر القادری یا تو اسلام آباد ائیرپورٹ پر لینڈ کر چکے ہوں گے یا کرنے والے ہوں گے۔ مگر ان کی آمد سے ایک ہفتہ قبل ہی بعض ہولناک کھیل شروع ہو گئے ہیں، خاص طور پر گزشتہ پیر اور منگل کی درمیانی شب جو خونیں کھیل شروع ہوا اور جس کے نتیجے میں 11 افراد کو ریاستی دہشت گردی کے ذریعے انتہائی درندگی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس کے نتیجے میں جنم لینے والی صورتحال نے نظم حکمرانی (Governance)، جمہوریت کے مستقبل اور موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں، جن پر توجہ دینا ضروری ہو گیا ہے۔

پاکستان میں سنجیدہ اور متوشش طبقہ طاہر القادری کے نقطہ نظر اور ان کے طریقہ کار کے بارے میں شدید تحفظات رکھتا ہے، مگر ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جو طرزِ حکمرانی اپنایا ہے، اس سے بھی مطمئن نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کسی غیر جمہوری طریقے سے حکومت کے خاتمے کا حامی نہیں ہے۔ اس لیے گمان یہ تھا کہ جس طرح سالِ گزشتہ علامہ صاحب نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر جنوری کی کڑاکے کی سردی میں تین روز تک جو شو سجایا تھا، اس مرتبہ جون کی چلچلاتی دھوپ میں ویسا ہی شو منعقد کر کے دل کی بھڑاس نکال کر اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔

بزرگوں کا قول ہے کہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ ہی مثبت نتائج کے حامل ہوتے ہیں، جب کہ غلط وقت پر صحیح اور صحیح وقت پر غلط فیصلے سے ہمیشہ نقصان پہنچتا ہے۔ مگر مسلم لیگ (ن) کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے کبھی صحیح وقت پر صحیح فیصلہ نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ غلط وقت پر صحیح فیصلہ کیا ہے۔ جس سے اسے نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ جب اپنے ہی گھر میں دشمنوں یا نادان دوستوں کی بہتات ہو تو پھر بیرونی دشمنوں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔

مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی یہی معاملہ اس میں نادان دوستوں کی بھرمار ہے۔ پھر اس جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف سمیت بیشتر رہنمائوں کوبے وقت کے ایڈونچر کا بہت شوق ہے۔ یہی شوق ان کی حکومت کے دو مرتبہ قبل از وقت خاتمہ کا سبب بنا ہے۔ اس طرز عمل کی تازہ ترین مثال سانحہ ماڈل ٹائون ہے، جو پنجاب حکومت کی غیرحکیمانہ حکمت عملیوں اور کوتاہ بینی کا منہ بولتا مظہر ہے، جس نے مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کو بھی نئے مسائل و نئی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

اگر ہم مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور رہنمائوں کے انداز سیاست اور طرِ عمل کا غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیں تو کئی حقائق سامنے آتے ہیں۔ اول، میاں نواز شریف صاحب کی اپنی افتاد طبع ایسی ہے کہ ان کی کسی بھی آرمی چیف سے نہیں نبھ سکی ہے۔ جنرل اسلم بیگ سے موجودہ جنرل تک کوئی فوجی سربراہ ایسا نہیں جس کے ساتھ میاں صاحب کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو سکی ہو۔ دوئم، ان کے رفقاء اور وزراء کو اپنی زبانوں پر قابو نہیں ہے، جو منہ میں آتا ہے بلا سوچے سمجھے بولتے چلے جاتے ہیں۔ اسی قبیل کے اور بھی ساتھی ہیں، جو میاں صاحب کو ایسے فیصلوں پر آمادہ کرتے ہیں، جو سراسر خودکشی کے مترادف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے 1990ء سے تادم تحریر اس جماعت کی حکومت کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس کا طائرانہ جائزہ لیا جائے، تو دشمنوں سے زیادہ دوستوں کا کردار نظر آئے گا۔

1991ء میں جس وقت جنرل اسلم بیگ ریٹائر ہوئے میاں صاحب کا پہلا دورِ حکومت تھا۔ نئے چیف کے لیے انھوں نے آصف نواز جنجوعہ مرحوم کو چنا۔ مگر جلد ہی ان سے طبیعت اکتا گئی۔ وہ اپنے عہدے کی تکمیل سے پہلے ہی اﷲ کو پیارے ہو گئے، اس لیے معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ان کی جگہ جرنل وحید کاکڑ نے لی۔ یہ صدر غلام اسحاق خان مرحوم اور میاں صاحب دونوں کی مشترکہ پسند تھے۔ مگر ان کے ساتھ بھی تعلقات نارمل سطح پر نہیں رہ سکے۔ پھر میاں صاحب کی حکومت ختم ہو گئی۔ 1997ء میں دوبارہ اقتدار میں آئے تو جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے۔

ان سے سلامتی کونسل کی تشکیل کے بیان پر اختلاف ہوا جو اس کے استعفیٰ پر منتج ہوا۔ ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف نے لی۔ یہ ان کے برادر خورد شہباز شریف اور دست راست چوہدری نثار کے قریبی دوست اور ان ہی کا انتخاب تھے۔ ان کے ساتھ اختلافات ان کی تعیناتی کے چند ماہ بعد ہی شروع ہو گئے۔ آئین کے تحت پرویز مشرف کی بحیثیت آرمی چیف ان کے عہدے سے سبکدوشی وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار تھا۔ اس عمل کا ایک شائستہ اور باوقار طریقہ یہ تھا کہ ان کی دورے سے واپسی کا انتظار کیا جاتا اور واپسی پر انھیں ایوان وزیر اعظم طلب کر کے ان سے استعفیٰ طلب کر لیا جاتا یا پھر وزارت دفاع کے ذریعے انھیں برخاستگی کا خط بھجوادیا جاتا۔

مگر اس سرشت کا کیا کیا جائے جو میاں صاحبان اور ان کے قریبی احباب کا خاصا ہے۔ اسی سرشت نے انھیں جاسوسی فلموں کے اسکرپٹ کی طرح جہاز میں بیٹھے آرمی چیف کی برطرفی پر اکسایا۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ ردعمل فوج کی اعلیٰ کمان کی طرف سے آیا جو جہانگیر کرامت کے استعفیٰ کی وجہ سے پہلے ہی ناراض تھی۔ لہٰذا اکتوبر 1999ء کے واقعات کی تمامتر ذمے داری میاں صاحب اور ان کے رفقاء پر عائد ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہوئی۔

میاں صاحب کا رول ماڈل ترکی کے عبداﷲ گل اور طیب اردگان ہیں۔ ان دونوں رہنمائوں نے 80 برس سے ریاستی پالیسی سازی پر حاوی فوج کو پیچھے دھکیل کر سیاسی جماعتوں کی بالادستی قائم کی ہے۔ انھوں نے جنرل کنعان کو دستور شکنی کے الزام میں مداخلت پر عمر قید کی سزا بھی دی۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان رہنمائوں نے اقتدار میں آتے ہی یہ سب کچھ نہیں کیا، بلکہ پہلی مدت کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی، اس کے بعد سیاسی حکومت کی رٹ قائم کی پھر کہیں جا کر وہ فوج کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئے۔ اس صورتحا ل کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت کی خاطر ترک فوج نے خود بھی پیچھے ہٹنے میں عافیت سمجھی۔ پاکستان کے معاملات و مسائل ترکی سے بالکل مختلف ہیں۔ اس لیے بعض مثالیں سیکھنے کی حد تک تو عمدہ ہوتی ہیں، لیکن ان پر من و عن عمل نہیں کیا جا سکتا۔

توقع یہ تھی کہ آٹھ برس کی جلاوطنی میں انھوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہو گا اور ان کے رویے زیادہ عملی ہو چکے ہوں گے۔ مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ حالات کی تلخیوں نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ان کی ایڈونچر کرنے کی عادت مزید قوی ہو گئی۔ اقتدار میں آتے ہیں سب سے پہلا ایڈونچر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت قائم کیا جانے والا مقدمہ تھا۔ یہ جس بے سُرے انداز میں قائم کیا گیا اس پر ہر کوتاہ بین نے تو بیشک بغلیں بجائیں، مگر سوجھ بوجھ رکھنے والے شہری متفکر ہوگئے۔ پھر حماقتوں پر حماقتوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ایک میڈیا گروپ کے احمقانہ ایڈونچر پر اس کی شروع ہی میں سرزنش کر کے معاملات کو پیچیدہ ہونے سے بچانے کے بجائے غیردانشمندنہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی، جس سے اس کی سرپرستی کا تاثر ابھرا۔ شدت پسند عناصر کے خلاف سخت گیر آپریشن کے بجائے مذاکرات کے نام پر تاخیری حربے اختیار کیے گئے۔ یہ وہ اقدامات تھے، جن کی وجہ سے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ اب جو کچھ لاہور میں ہوا، اسے نہ تو سیاسی حکمت عملی کہا جا سکتا ہے اور نہ انتظامی پیش بندی۔ یہ سراسر اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف عمل تھا۔

اگر غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو وقت و حالات نے ثابت کیا ہے کہ آصف زرداری میاں صاحب کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار، دوراندیش اور معاملہ فہم ہیں۔ انھوں نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست تصادم کے بجائے انتخابی عمل کے تسلسل پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ہر دانشمند شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی بے پناہ قوت کو زبردستی ختم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا واحد راستہ جمہوری عمل کا تسلسل ہے۔

اگر انتخابات وقت مقررہ پر ہونے کی روایت پڑ جائے اور منتخب حکومتیں عوام کو کچھ نہ کچھ ڈیلیور کرنے لگیں تو اسٹیبلشمنٹ کی گرفت خود بخود کمزور پڑنے لگتی ہے۔ یہ آصف زرداری کی معاملہ فہمی تھی کہ انھوں نے سابق آمر کو گارڈ آف آنرز کے ساتھ رخصت کر کے جمہوری قوتوں کو سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا اور جیسے تیسے اپنی مدت مکمل کر لی۔ مگر سیاسی قوتوں کی جانب سے بے مقصد ایڈونچرازم اسٹیبلشمنٹ کو مزید مضبوط بنانے کا سبب بن رہا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب بہترین مالیاتی منتظم ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وطن عزیز کی ترقی خطے میں امن و استحکام سے مشروط ہے، جس کے لیے وہ مثبت کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ یہ کوششیں اسی وقت بارآور ہو سکتی ہیں جب میاں صاحب کی حکومت اپنی مدت مکمل کرے۔ اس مقصد کے لیے انھیں نان ایشوز سے جان چھڑانا ہو گی، ہر قسم کے مِس ایڈونچر سے بچنا ہو گا اور اپنے رفقاء کو زبان درازیوں سے روکنا ہو گا۔ اب بھی وقت ہے، میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنی سوچ میں لچک پیدا کرے، تا کہ اس کے لیے گنجائش پیدا ہو سکے۔ لیکن حالات جس نہج پر جا چکے ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جلد ہی کچھ ہونے کو ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔