آپریشن ضرب عضب ۔ چند اہم پہلو

طلعت حسین  پير 23 جون 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

اسلام آباد اور لاہور میں سیاسی تماشے سے پرے شمالی وزیرستان میں ملک کی سلامتی کے اہم ترین معاملات امڈے چلے آ رہے ہیں۔ مگر ان سے متعلق کہیں کوئی خاص توجہ یا سنجیدہ بحث نظر نہیں آ رہی۔ اخبارات اور دوسرے ذرایع ابلاغ میں خبریں ضرور چھپ رہی ہیں مگر ان خبروں کی تہوں میں چھپے ہوئے غور طلب زاویے ہر روز کی طرح آج بھی نظر انداز ہو رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اپنی تمام تر تشہیر اور عزم تکمیل کے باوجود زمین پر بھرپور انداز میں شروع نہیں ہوا۔

ابھی تک آپ کو صرف پاکستان فضائیہ کے طیاروں کی بمبا ری کی اطلاعات اور اُن سے ہونے والی دہشت گردوں کی ہلا کتوں کی تفصیلات ہی ملی ہوں گی۔ سرکاری ذرایع کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار اکٹھا کریں تو اب تک سیکڑوں دہشت گرد اپنے درجنوں ٹھکانوں سمیت نیست و نابود کیے جا چکے ہیں۔ فضائی طاقت کا استعمال اس قسم کی کارروائیوں کی حالیہ تاریخ میں ایک انوکھا اضافہ ہے۔ اس سے پہلے ہیلی کاپٹرز کو زمینی ٹھکا نوں کو تباہ کرنے اور کمین گاہوں میں چھپے ہوئے اہداف ختم کرنے کے لیے بروئے کار لایا گیا۔

سوات، جنوبی وزیرستان وغیرہ میں ہونے والی کارروائیوں میں زمینی قوت کے بعد اگر کسی آلے پر انحصار کیا گیا تو وہ ہیلی کاپٹرز تھے۔ باجوڑ آپریشن میں ہوائی جہازوں کا استعمال ہوا مگر انتہائی محدود پیمانے پر اور وہ بھی خا ص واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خصوصی حالات سے نپٹنے کے لیے۔ مگر اس محدود استعمال کو بھی سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا۔ اس سے متعلق بننے والی خبروں کو یا تو روک دیا جاتا تھا اور یا پھر حقائق سامنے آنے کو باوجود ان کی تصدیق یا تردید کیے بغیر جوں کا تو ں چھو ڑ دیا جاتا تھا۔ نہ ان پر بحث ہوتی تھی اور نہ ہی وہ ہر مباحثے میں حوالہ سخن بنتے تھے۔ اس مرتبہ اس کے برعکس لائحہ عمل سامنے آیا ہے۔

آپریشن میں ہوائی حملوں کو کھلے عام استعمال بھی کیا جا رہا ہے اور اس کارروائی کو کامیابی کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ فضائیہ کے طیاروں کا استعمال ایک انتہائی قدم ہے۔ ملکی دفاع کا سب سے قیمتی اثاثہ جس کا اصل مقصد بڑی جنگ میں بیرونی دشمن کے دانت کھٹے کرنا ہے جب اپنی سرزمین پر مامور ہو جائے تو اس سے دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ حالات اتنے مخدوش ہو چکے ہیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ باقی نہیں۔ ہم دنیا کو اور قوم کو ایسا پیغام کیوں دے رہے ہیں؟ مانا کہ شمالی وزیرستان ایک اہم آپریشن ہے مگر یہاں کے تین علاقوں میں چند سو دہشت گردوں سے نپٹنے کے لیے ہمارے پاس تجربہ بھی موجود ہے اور وسائل بھی۔ اور اب ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ پہلا آپریشن ہے۔

زمینی دائو پیچ استعمال کر کے مشکل ترین علاقوں میں جمے ہوئے دہشت گردوں کو اس سے پہلے کئی مرتبہ اکھاڑ پھینکا جا چکا ہے۔ اس مرتبہ زمینی کارروائی کو پہلے دس دنوں میں دو مرتبہ موخر کر دیا گیا۔ فضائی حملے جاری ہیں۔ اس طریقہ کار کا ایک اور پہلو بمباری کے اس پہلو سے جڑا ہوا ہے جوــ ’’انتہائی درست نشانے‘‘ لگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ مواد انتہا ئی مہنگا اور بیرونی ذرایع سے حا صل کیا جاتا ہے۔ عام بموں کی نسبت ہدف کو تباہ کرنے کی یہ صلاحیت صرف خاص اور بدترین صورتحال پر قابو پانے کے لیے مختص ہوتی ہے۔ جو شمالی وزیرستان میں ظاہراً نظر نہیں آتے۔

فضائیہ کے استعمال کے چند اندرونی اور بین الاقوامی قوانین سے متعلق سے پہلو بھی ہیں جو اس وقت شاید پڑھنے والوں کے لیے خاص دلچسپی کا موضوع نہ ہوں مگر جن کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی سرزمین پر طاقت کے استعمال کے قانونی پیرائے میں فضائی حملوں کے بہترین اور ٹھوس جواز موجود ہونے چاہئیں۔ بعض اوقات ان کے لیے خصوصی حالات بننے کے باوجود قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے استعمال سے گریز کیا جاتا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کا اور پہلو شمالی وزیرستان سے ہونے والے آبادی کے انخلاء سے ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کر نے والوں کی حالت قابل رحم ہے۔ اپنے گھر بار سے نکل کر بے یار و مددگار سفر کر کے وہ جس خستہ حالی میں بنوں اور اردگرد کے علاقوں میں پہنچ رہے ہیں اُس کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔ طویل مدت سے وہ جس عذاب میں مبتلا ہیں اب اس کی آخری گھڑی جاں لیوا قسم کے امتحان میں بدل گئی ہے۔ یقینا اپنی چھت کی راحت کہیں اور میسر نہیں ہو سکتی۔ نہ ہی اپنی چادر اور چار دیواری کا تحفظ کہیں اور حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر ان حقائق کے باوجود ان خاندانوں کی دیکھ بھال اور نقل مکانی کے مراحل میں مشکلات کو کم کرنے کے انتظامات انتہائی ناقص نظر آتے ہیں۔

ان نقائص کے مخرج وہ کمزور منصوبہ بندی ہے جس کو آپریشن کے اعلان سے بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ کہنے کو حکومت نے اب فنڈز مہیا کر دیے ہیں مگر ان رقوم کو نقل مکانی کے لیے مدد میں تبدیل کرنے میں ہفتوں لگ جائیں گے۔ راشن کے تھیلے دے کر تصویریں بنوانے والے حکومتی اراکین کو شاید احساس ہی نہیں ہے کہ جس مدد کو وہ اتنے فخر سے تشہیر کی دستار پہنا رہے ہیں وہ کتنی بے وقعت اور ہلکی ہے۔ چند ہزار روپوں سے حکومت کی پریس ریلیز تو بن جاتی ہے مگر بیس افراد کے لیے ایک ہفتہ کھانے کا بندوبست نہیں ہوتا۔ نہ ذرایع نقل و حمل کا انتظام کیا گیا ہے اور نہ ہی رجسٹریشن کے اتنے کائونٹر بنائے گئے ہیں کہ جہاں پر جلد از جلد قافلوں کو کاغذی کارروائی کے بعد وقتی منزل مقصود کی طر ف روانہ کیا جائے۔

موجودہ مسائل شاید اتنے بھاری نہ ہوتے اگر اس آپریشن کو اُس منصوبے کے مطابق کیا جاتا جس میں موسم کو بالخصوص اہمیت دی گئی تھی۔ یہ آپریشن گرمیوں میں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ میر علی اور میران شاہ سے غیر ملکیوں کو ستمبر، اکتوبر میں شوال کی پہاڑیوں کی طرف سے دھکیلنے کے بعد نومبر، دسمبر میں ہونے والی شدید برفباری کی چادر میں پھانسنے پر مکمل اتفاق رائے تھا۔ مگر نہ جانے کیو ں اس آپر یشن کو اپنے وقت کے دائرے میں سے نکال کر جون، جولائی کی جہنمی گرمی میں شروع کر دیا گیا۔ اب اس وقت عسکریت پسند شوال کی خوشگوار پناہ گاہوں میں ہیں اور شمالی وزیرستان کے وہ بے گناہ لوگ جن کے تحفظ کے لیے یہ آپریشن کیا جا رہا ہے چِلچلا تی دھوپ میں ادھر اُدھر مارے پھر رہے ہیں۔

اس طرح کے درجنوں دوسرے پہلو ہیں جن پر اس قوم کی قیادت کو بحث کر نی چاہیے۔ جس پر سوال ہونے چاہئیں۔ مگر کیا کریں طاہر القادری اس وقت سب کے حواسوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ شمالی وزیرستان اور وہاں کے باسی جائیں بھاڑ میں۔ دبئی سے آنے والی پرواز اس دور افتادہ خطۂ وطن کی داستان کرب سے کہیں اہم ہو گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہوں گے، تماشہ بڑھتا جائے گا۔ عقل، فکر اور سوچ گھٹتی چلی جائے گی۔ نظام کے زوال کی نشانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔