- جلسے کے الفاظ پر قائم ہوں، معافی نہیں مانگوں گا، علی امین گنڈاپور
- امریکی شخص کا آنکھیں بند کر کے باسکٹ بال شاٹ کا ریکارڈ
- بھارت؛ منی پور میں نسلی فسادات، کرفیو کے بعد انٹرنیٹ بھی معطل
- یوگنڈا کی ایتھلیٹ کو زندہ جلانے والا سابق بوائے فرینڈ بھی ہلاک
- حکومت نے وفات پانےوالے ملازمین کے اہلخانہ کیلیے فیملی پنشن کی مدت 10 سال کردی
- ٹیکنالوجی کمپنی ایپل آئرلینڈ کو 14 ارب ڈالر کیوں ادا کرے گی؟
- وزیر اعلیٰ کواعتماد کا ووٹ لینے کیلیے کہنے کا سوچ رہا ہوں، گورنرخیبرپختونخوا
- آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کا مزدور کی کم ازکم اجرت 50 ہزار مقرر کرنے کا مطالبہ
- سرجانی ٹاؤن میں پانی کے جوہڑ میں نہاتے ہوئے گہرے گڑھے میں ڈوب کر ایک شخص جاں بحق
- چین نے پاکستان کا قرض رول اوور کرنے سے انکار نہیں کیا، وزیر خزانہ
- کراچی میں جعلی سفری دستاویزات پر سفر کرنے والے مسافروں کا سہولت کار گرفتار
- چیف جسٹس کی آف دی ریکارڈ گفتگو غلط انداز میں رپورٹ کی گئی، سپریم کورٹ
- بچوں کی طبیعت ناساز ہونے پر امریکی کمپنی نے ملازمین کی چھٹی بند کر دی
- اسلام آباد میں پی آئی اے طیارہ کا بے یار و مددگار، مسافر بے حال
- کراچی میں اگلے 10 روز تک بارش کا امکان نہیں، محکمہ موسمیات
- معاہدے پر عمل نہ ہوا تو بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کریں گے، حافظ نعیم
- خیبرپختونخوا حکومت نے اساتذہ کے تبادلوں کی نئی پالیسی جاری کر دی
- جاپان کا موجودہ سپرکمپیوٹرز سے 1000 گُنا تیز مشین بنانے کا اعلان
- پی ٹی آئی رہنماؤں پر کیا الزامات عائد ہیں؟ ایف آئی آر سامنے آگئی
- امیگریشن حکام کے ہاتھوں 83 افراد جعلی دستاویزات کی بنیاد پر گرفتار
ہتک عزت قانون: صحافتی تنظیموں کا حکومت اور اتحادی جماعتوں کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ
لاہور: پنجاب میں منظور ہونے والے ہتک عزت قانون کے خلاف تمام صحافتی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے مشترکہ جدوجہد شروع کرنے اور سرکاری تقریبا، اسمبلی اجلاسوں سمیت بجٹ کی کوریج کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ہتک عزت بل کی منظوری کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں سی پی این ای، اے پی این ایس،ایمنڈ، پی بی اے، پی ایف یو جے اور پریس نمائندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تمام صحافی تنظیموں نے ہتکِ عزت قانون کو ” انسان دشمن” قانون قرار دیا اور متنازع کالے قانون کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا اعلان بھی کیا گیا۔
اجلاس میں مختلف احتجاجی اقدامات پر مرحلہ وار عملدرآمد کا فیصلہ ہوا جن میں حکومتی تقریبات، قومی اور صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں، وفاقی وصوبائی بجٹ کی کوریج کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ شرکا نے متنازع بل کے خلاف موثر قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کا ہتک عزت قانون لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج
اتفاق رائے سے طے پایا کہ متنازع بل کے خلاف حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے سوا دیگرسیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بارکونسلز کے ساتھ مشاورت سے مرحلہ وار آگے بڑھا جائے گا۔
انسانی حقوق کے منافی متنازع ہتک عزت قانون کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف اور صحافتی تنظیموں نے ہتکِ عزت بل کو کالا قانون قرار دے کر عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔ ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ فارم 47 زدہ ایوان سے اسپیکر منتخب ہونے والے کو ہتکِ عزت قانون پر دستخط کرتے ہوئے شرم آنی چاہئیے۔ جمہوریت کا منجن بیچنے والی دو بڑی جماعتوں نے آزادی اظہار و ابلاغ کو کرمنالائز کرکے آمریت کی نظریاتی اولاد ہونے کی حقیقت دنیا کو دکھائی ہے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ صحافی اورسول سوسائٹی اس کالے قانون کے خلاف ہم آواز ہیں۔ تحریک انصاف اس کالے قانون کے نفاذ کو روکنے کیلئے عدلیہ کا دروازہ کھکھٹائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: قائم مقام گورنر نے پنجاب میں ہتک عزت بل پر دستخط کردیے
پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی ہتک عزت قانون پر ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہتک عزت بل پیپلزپارٹی ن لیگ کا ساتھ نہیں دے گی، حکومت پنجاب نے سردار سلیم حیدر کو ہتک عزت بل منظوری کے لیے بھجوایا، اُن کے بیرون ملک جانے کے بعد حکومت نے قائم مقام گورنر (اسپیکر پنجاب اسمبلی) ملک احمد خان سے ہتک عزت بل پر سائن کروائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ازادی صحافت اور ازادی رائے پر یقین رکھتی ہے، گورنر پنجاب نے بل پر سائن کرنے سے اب قانون بن گیا ہے، ہتک عزت بل سے متنازع شقوں کو مشاورت سے ختم کرنا چاہیے، مشاورت کے بعد ہتک عزت بل پر عدالت جانا پڑا تو ضرور جائیں گے اور عدالتی کاروائیوں کے ساتھ اسمبلی فلور پر بھی صحافیوں کی آواز اٹھائیں گے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو ہتک عزت قانون پر تشویش ہے اور ہم اس معاملے پر صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر قانون پنجاب حکومت کی ضرورت ہے تو سب کے ساتھ مشاورت ضروری تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی دور میں بلاول ظالمانہ اقدامات کے خلاف صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔