مہرے اب بساط نگل رہے ہیں

وسعت اللہ خان  منگل 24 جون 2014

پنجابی محاورہ ہے ’’ ہتھیں لائی گنڈھ دندیں کھولنی پیندی اے ( ہاتھوں سے لگائی گرہ دانتوں سے کھولنی پڑتی ہے )۔

ابھی گیارہ برس پہلے کے اپریل کی ہی تو بات ہے جب بغداد کے ہر چوک پر صدام حسین کے مجسموں کے مسخ وزنی ٹکڑے پھیلے پڑے تھے۔بموں پر فار صدام حسین ود لو لکھ کے طیاروں سے گرایا گیا تاکہ فاشسٹ عراق کے ملبے پر ایک جمہوری ، روشن خیال ، پرامن اور مہذب عراق تعمیر ہوسکے جس میں شیعہ ، سنی اور کرد شانہ بشانہ خوف کے جنگل سے نکل کر حال کی جلی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے چمکتے مستقبل میں چھلانگ لگا سکیں۔امریکی وائسرائے پال بریمر نے صدامی فوج ہی توڑ دی تاکہ اس کی لاش پر ایک نئی ، اعلیٰ تربیت یافتہ مستعد سپاہ کھڑی ہوسکے۔

صدام حسین کو ایک گڑھے میں سے نکال کر دانتوں کا طبی معائنہ ایسے کیا گیا جیسے کسی چڑیا گھر میں بیمار جانور کا میڈیکل چیک اپ ہوتا ہے۔اور پھر اکتیس دسمبر دو ہزار چار کو نیا سال شروع ہونے سے پہلے پہلے پھانسی پر جھلا دیا گیا۔

سب کو گمان تھا خس کم جہاں پاک۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ برائی کو برائی سے ختم کیا جائے تو برائی شکل بدل کر بھٹکی ہوئی روح بن جاتی ہے۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ عراق ملک نہیں بلکہ تیزاب سے بھرا وہ جار ہے جو دھینگا مشتی میں ٹوٹ گیا تو آس پاس ہی بانجھ کرکے رکھ دے گا۔مگر کیا کریں اس کہاوت کا کہ ’’ ہر برا کام بہترین نیت کے ساتھ کیا جاتا ہے ’’۔بغداد پر پہلا بم گرنے سے پہلے پہلے عرب لیگ کے سیکریٹری  جنرل امر موسی نے کہا تھا ’’ کیا کرنے والے ہو ؟ تم جہنم کا دروازہ کیوں کھولنا چاہ رہے ہو ’’۔ لیکن اس دنیا کے سب جارج بشوں، ٹونی بلئیروں، فہد بن عبدالعزیزوں،حسنی مبارکوں،ایریل شیرونوں کا ایمانِ کامل تھا کہ پہلے عراق اور پھر صدام کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد خلیج ، مشرقِ وسطیٰ اور باقی دنیا زیادہ محفوظ ہوگئی ہے۔

ہاں دنیا زیادہ محفوظ ہوگئی ہے۔اس کی گواہی اپریل دو ہزار تین کے بعد سے مارے جانے والے دو لاکھ عراقیوں ، ایک لاکھ ساٹھ ہزار شامیوں ، ایک لاکھ سے زائد افغانیوں اور ساٹھ ہزار پاکستانیوں کی لاشیں دے رہی ہیں۔

فضا سے برسائی گئی مغربی تپِ دق کا مارا لیبیا ، جمہوری بوٹوں تلے دب جانے والا مصر ، گلا گھونٹ خاموشی کا استعارہ بحرین ، زخمی تلوے چاٹتا یمن ، زندہ درگور صومالیہ ، برقی جھٹکوں کا عادی فلسطین ، بوکو حرام کے حلال رضاکار ، القاعدہ ، طالبان اور دنیا بھر میں پھیلے سی آئی اے کے رینٹل ٹارچر سیل اور عالمی مواصلاتی ٹریفک کی بلاامتیاز جاسوسی اس نئی محفوظ تر دنیا کے سلطانی گواہ ہیں۔

پانچ کروڑ پناہ گزین محفوظ تر دنیا میں سر چھپانے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔اتنے پناہ گزین تو دوسری عالمی جنگ نے بھی پیدا نہیں کیے۔اور یہ محفوظ تر دنیا مفت میں تھوڑی ہاتھ آئی۔معمارِ اعظم امریکا کے چھ ٹریلین ڈالر اور ساڑھے چار ہزار فوجی تابوت تو صرف عراق کو مشرقِ وسطیٰ کا منارہِ جمہوریت بنانے کے منصوبے پر لگ گئے۔اس خرچے میں اس جدید عراقی فوج کی تعمیر بھی شامل ہے جس نے پچھلے ایک ماہ میں ثابت کردیا کہ دشمن سامنے نہ ہو تو اس سے زیادہ جری سپاہ پورے خطے میں نہیں۔

اور اب دنیا اور محفوظ ہوجائے گی جب امریکا ساڑھے چھ سو بلین ڈالر کے خرچے سے تعمیر ہونے والے نئے اور جمہوری کرزئی گزیدہ افغانستان کو اگلے برس شکاری اور خرگوش کے ساتھ بیک وقت دوڑنے میں طاق افغان قیادت کے حوالے کر جائے گا۔ اس افغانستان کی بنیادوں میں اب تک ایک لاکھ سے زائد بے قیمت مقامیوں کے ساتھ ساتھ ساڑھے تین ہزار امریکی فوجیوں اور سویلین کنٹریکٹرز کا قیمتی خون بھی شامل ہو چکا  ہے۔ملحد نجیب اللہ تو سوویت یونین کی رخصتی کے بعد بھی تین ساڑھے تین برس قبائلی اسلام کے تھپیڑے سہار گیا۔موجودہ کابلی ڈھانچہ تو دو رکعت کی مار بھی نہیں لگ رہا۔

اس دنیا میں ہر شے کا علاج ہے مگر وہم اور اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں۔سوویت ریچھ کو افغانستان میں گھیر کر مارنے کی انویسٹمنٹ کا خالص منافع مع سود الجزائر سے چین تک پھیلے ہوئے افغان اسکول آف جہاد کے گریجویٹس کی شکل میں قسط وار وصول ہورہا ہے۔صدام حسین سے عراق کو پاک کرنے کا نیٹ پرافٹ دولتِ اسلامی عراق و شام ( داعش ) کی شکل میں تمام سرمایہ کاروں میں منصفانہ طور پر بٹنا شروع ہوگیا ہے۔

بشار الاسد سے شام کے وجود کو پاک کرنے کی مہم پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خلیجی ریاستوں ، ترکی ، امریکا اور ہمنواؤں نے چار برس پہلے جو ہولڈنگ کمپنی قائم کی تھی۔ اس میں سے امریکا اور یورپ نے تو اپنے شئیرز سعودی عرب ، قطر اور کویت وغیرہ کو بیچ دیے ہیں۔کیونکہ مغربیوں کو اچانک سے احساس ہوگیا کہ وہ بھیڑئیے کی قیمت پر دراصل تیندوے پر رقم لگا رہے ہیں۔اس کمپنی نے بشارالاسد کی ظالمانہ دنیا ڈھانے کے لیے جو توپچی تیار کیے اب ان کی نالیں اپنے ہی ہم نظریہ پشت پناہوں کی طرف مڑ رہی ہیں۔اور یہ سرمایہ کار رفتہ رفتہ خود کو ایک ایسی بند گلی میں پا رہے ہیں جس کے دوسرے سرے پر سوائے کنفیوژن کی دھند اور افراتفری کی گہری کھائیوں کے کچھ بھی تو نہیں۔

اگر اب بھی بات سمجھ میں نہیں آرہی تو ذرا اس شوقین کی جگہ خود کو رکھ کے دیکھئے جس نے بڑے چاؤ سے کوبرا پالا اور ایک صبح پتہ چلا کہ کوبرے کا پنجرہ خالی ہے۔ یہ خوف ہی اتنا خوفناک ہے کہ بڑے بڑوں کی اناؤں کا سانس حلق میں اٹک گیا ہے۔مثال کے طور پر دیکھئے امریکا اور ایران کی تازہ پینگیں اور سعودیوں کا عالمِ گھبراہٹ میں گندھا ٹامک ٹوئیانہ احساسِ تنہائی۔

یہ دنیا نہ تو خطِ مستقیم پر بنائی گئی ہے نہ ہی خطِ منحنی پر ڈیزائن ہوئی ہے۔قدرت نے اسے دائرے کی شکل میں ایک نازک توازن پر استوار رکھا ہوا ہے اور اس گول کارخانے میں کوئی شے نکمی نہیں۔کیڑے مکوڑے زمین کے نقصان دہ اجزا پر زندہ ہیں ، پرندے کیڑے مکوڑوں پر زندہ ہیں، جانور پرندوں پر زندہ ہیں ، انسان جانوروں پر زندہ ہے اورگدھ لاشوں پر زندہ ہے۔اسی لیے یہ دنیا آج بھی تمام تر مجرمانہ بے اعتدالیوں کے باوصف اتنی صاف اور ترتیب میں دکھائی پڑتی ہے۔اب آپ اس حیاتیاتی دائرے میں سے کسی ایک کردار کو نکال دیں۔بقا کی پوری عمارت رفتہ رفتہ ڈھیتی چلی جائے گی۔

شطرنج کا کھیل اور اس کے قوانین مشرقی ہندوستان میں مرتب کیے گئے۔دو ہزار برس بعد ان قوانین میں مغرب نے ردوبدل کیا اور پچھلے دو سو برس سے بین الاقوامی شطرنج مغربی اصولوں کے تحت ہی کھیلی جارہی ہے۔ روئے زمین کی بساط پر دو سو پانچ خانے ہیں۔کسی خانے میں پیادہ بیٹھا ہے تو کسی میں گھوڑا ، کسی میں وزیرِ ، کسی میں رخ۔ان میں سے ایک بھی مہرہ دوسرے کھلاڑی سے آنکھ بچا کر اٹھا لیا جائے تو کھیل بگڑ جاتا ہے۔اور  کھیل انیس سو اسی کے عشرے میں افغانستان میں بیرونی قوتوں کی بے ایمانہ مداخلت کے بعد سے بگڑنا شروع ہوگیا۔بے جان مہروں میں جان پڑتی چلی گئی اور پھر وہ کھلاڑیوں کے ہاتھ سے نکلنے شروع ہوگئے۔پہلے تو انھوں نے دیگر مہروں کو کھانے کی کوشش کی اور اب بساط کو ہی نگلنا شروع کردیا ہے۔ مشاق کھلاڑی سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ بساط تو گئی بھاڑ میں خود کو کیسے بچائیں۔

اور ہاں پہلے چودہ سو سال پرانا شیعہ سنی تنازعہ تو کھلے میدان میں طے ہوجائے۔مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے تو تا قیامت وقت ہی وقت ہے۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔